وجود

... loading ...

وجود
وجود

جامعہ کراچی پر ہونے والے حملے کا پیغام

هفته 30 اپریل 2022 جامعہ کراچی پر ہونے والے حملے کا پیغام

ہمسایہ ملک چین کے شہریوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے سی پیک معاہدے کے بعدنشانہ بنانے کا سلسلہ مزید دراز ہو گیا ہے کیونکہ سیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے حکومتی رَٹ نہ ہونے کے برابرہے اسی لیے وطن دشمن عناصرایک بار پھر منظم ہوکرتخریبی سرگرمیوں کو تیزکرچکے ہیں مگرجب مقتدر حلقوں کو بخوبی معلوم ہے کہ بھارت اور امریکا سی پیک معاہدے کو پسندنہیں کرتے کیونکہ اِس طرح ہونے والی بھاری سرمایہ کاری سے نہ صرف پاکستان اور چین مزید قریب آئے ہیںبلکہ خطے میں چینی رسوخ میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس کی بنا پر چین دشمن ممالک خفا اورسی پیک کو ناکام بنانے کے لیے ہر حربہ آزما سکتے ہیں تو چاہیے تو یہ تھا کہ اِن حالات میں چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے جاتے نیز جو اِس کام کے لیے نئے اِدارے تشکیل دیے گئے ہیں نہ صرف اُن کی کارکردگی پر نظر رکھی جاتی بلکہ استعدادکار میں اضافہ کیا جاتا وائے افسوس کہ ایسا نہیں ہواجس کی بنا پر دشمن کو دونوں ممالک کے تعلقات پر کاری وار کرنے کا موقع ملنے لگاہے پاکستان کی کمزور معیشت کی بحالی کے لیے چینی سرمایہ کاری کا تسلسل اشد ضروری ہے اِس لیے مقتدر اِداروں کو چاہیے کہ دشمن پر کڑی نظر رکھیں اور چین کے تعاون سے جاری منصوبوں پر کام کرنے والے ہُنر مندوں کی حفاظت کویقینی بنایا جائے وگرنہ سی پیک کو نقصان کے ساتھ دونوں ممالک کے قریبی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
26اپریل منگل کی سہ پہر کراچی یونیورسٹی کیمپس کے اندر کیے جانے والے خود کش حملے کو ہمہ گیر پہلوئوں سے دیکھنا اور پھراپنی خامیوں اوردشمن کی سازشوں پر پوری سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد تدارک کرنے میں ہی ملک کا مفاد ہے اگر اب بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا تو قومی سلامتی کے ساتھ ہموارترقی کی منزل متاثر ہو سکتی ہے یونیورسٹی کے اندرتربت سے تعلق رکھنے والی ایم فل کی طالبہ شاری حیات بلوچ نے اسی یونیورسٹی میں2013 میں چین کی سی چوان یونیورسٹی کے تعاون سے قائم ہونے والے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے فیکلٹی ممبران کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایایہ شعبہ چینی زبان کے مختلف کورس کراتا ہے اِس شعبے کے قیام میں ڈاکٹرہونگ گیو پنگ کا کلیدی کردار ہے دہشت گردانہ حملے کے دوران ڈاکٹر ہونگ اپنے ملک کے دیگر دو شہریوں اور مقامی ڈرائیور کے ساتھ جان سے ہاتھ دھوبیٹھے جس کی زمہ داری بلوچ لبریشن آرمی کے زیلی ونگ مجید بریگیڈ نے سوشل میڈیا کو جاری ایک خط کے زریعے قبول کرلی ہے اِس میں شائبہ نہیں رہا کہ حملے کا ہدف سولہ نشستوں والی گاڑی ہی تھی جس کا خاتون نے انتظار کیا اور پھر مناسب موقع دیکھ کر خود کو دھماکے سے اُڑا لیا لیکن یہاں اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ گاڑی کے ساتھ رینجرزکے جو حفاظتی اہلکار تھے وہ کِن مصروفیات میں گم تھے کہ خطرے کابروقت ادراک اور توڑ کرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے؟ پاکستان کو جن نازک حالات کا سامنا ہے اِن میں ایسی کوتاہی کسی صورت نظر انداز کرنے اور معافی کی گنجائش نہیں امید ہے کہ خاتون خود کش بمبار کے بارے جاری تحقیقات میں کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
جون2020میں کالعدم تنظیم بی ایل اے نے اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا یہی تنظیم جامعہ کراچی پر ہونے والے حملے کی بھی ذمہ دارہے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کراچی کے علاقے کلفٹن میں چینی قونصلیٹ پر بھی نومبر 2018میں حملہ کیا گیا اگر تینوں حملوں پر غور کیا جائے تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ کالعدم دہشت گرد تنظیم کا مقصد مطالبات کی منظوری نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت اور سرمایہ کاری کرنے والے ملک کے شہریوں کو نشانہ بناناہے ایسے ہی اہداف امریکہ اور بھارت کے ہیں اِس لیے تحقیقاتی اِداروں کو محض دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے ہرپہلوزہن میں تفتیش کا دائرہ کار بڑھانا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ دہشت گردانہ حملوں کے پسِ پردہ اصل مقاصد کیا ہے ؟اگر اِس سوال کا جواب حاصل کر لیا گیا تو نہ صرف دہشت گردانہ حملوں کوروکا جا سکتا ہے بلکہ سہولت کاروں اور سرپرستوں کو بھی بے نقاب کرناآسان ہوجائے گا بھارتی وزیرِ اعظم مودی بلوچستان میں دہشت گردی اور دخل اندازی کی سرپرستی کا اعتراف کر چکے پاکستان نے ڈوزئیر کی صورت میںبھارتی تخریبی سرگرمیوں کے ثبوت اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اِداروں کوفراہم کیے مگراب تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی اِس لیے اب یہ سیکورٹی اِداروں کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ دشمن کی چالوں کو سمجھ کر اُن کی تخریبی سرگرمیوں کا دندان شکن جواب دیں ۔
یہ عیاں حقیقت ہے کہ چینی شہری دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں گوادر سے لیکر ڈیم بنانے میں مصروف انجینئروں تک پر حملے کیے جاچکے اسی لیے اِس شک کو تقویت ملتی ہے کہ حملوں کی زمہ داری قبول کرنے والی تنظیموں کے مقاصد میںحقوق وغیرہ نہیں کچھ اورہیں یہ تنظیمیں دشمن طاقتوں کی ایماپر ملک کو معاشی ترقی سے روکنا چاہتی ہیں ظاہر ہے اسی لیے فہمیدہ حلقے اِس جانب اِشارہ کرتے ہیں کہ ملک میں جاری بدامنی کی حالیہ لہر کے پسِ پردہ اندرونی سے زیادہ بیرونی ہاتھ ہے کیونکہ اگرمسئلہ حقوق یا لاپتہ افراد کی بازیابی تک محدود ہوتا تو گزشتہ چند برسوں میں اِس حوالے سے کافی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے قابلِ قدر منصوبوں پر کام جاری ہے نیز اعلٰی ملازمتوں میںبھی عام بلوچوں کا حصہ بڑھایا جاچکا ہے حالانکہ چند ایک بلوچ سرداراب بھی ملازمتوں کی تقسیم میں شفافیت کی بجائے کوٹہ کی صورت بھرتی پرمُصر ہیں لیکن قومی قیادت کو میرٹ کی پاسداری پر مصلحت پر رضامند نہیں کیا جاسکامگر آغا حسن بلوچ جیسے رزیل وزارت کا حلف اُٹھاتے ہوئے سینے پر آزاد بلوچستان کا جھنڈالگا کر قومی قیادت کی حُب الوطنی کا مزاق اُڑاتے ہیںایسے لوگوں سے نرمی سے تخریبی کاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے حالانکہ اصل مسلہ لاپتہ افراد کی بڑی تعداد منظرِ عام پر آنے سے حل ہوگیا ہے اب وہی لاپتہ ہیں جویاتو ملک سے فرار ہو چکے ہیں یا پھر پیاڑوں کی طرف چلے گئے ہیں اسی لیے آجا کر اسی نُکتے کی طرف دھیان جاتا ہے کہ حقوق اور لاپتہ افراد کی بازیابی نہیں کالعدم تنظیم کا ہدف ملک کی معیشت ہے اوروہ سرمایہ کاری کرنے والے دوست ملک کو سرمایہ کاری سے بازرکھناچاہتی ہے جسے آغاحسن بلوچ جیسے لوگ شہ دے رہے ہیںایسے لوگوں سے اب نرمی کی گنجائش نہیں۔
جامعہ کراچی پر حملہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف جلد چین کا دورہ کرنے کے آرزومند ہیں تاکہ چین کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں سی پیک کے منصوبوں کی رفتار بڑھانے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے اِس لیے اِس امکان کو رَد کرنا مشکل ہے کہ حملے کا مقصد اقتدار کی تبدیلی کے بعد پاک چین دوستی میں مزید قربت اور گرم جوشی کے امکانات کم کرنا ہے ملکی اِداروں کا اولیں فرض ہے کہ شرپسند عناصر اوراُن کے سرپرستوںاور سہولت کار وں کے عزائم بے نقاب کرنے کے ساتھ جامع اور نتیجہ خیزکاروائی کریں اگر اِس سمت پیش رفت ہوتی ہے تو مستقبل میں بیرونی طاقتوں کو قومی وجود میں نقب لگانے کے راستے مسدود کیے جا سکتے ہیں حالیہ حملے پر چینی سفارتخانے کے ساتھ حکومت نے بھی اپنے شہریوں پر ہونے والے حملوں کو سنجیدہ لیکر فول پروف حفاظت کا مطالبہ کیا ہے اب یہ اِداروں پر منحصر ہے کہ وہ فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی یا سُستی کا شکار ہوکردہشت گردانہ حملوں کے جواب میںخاموش رہتے ہیں یا سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمنوں کی مزموم چالیں ناکام بناتے ہیں اگرسرعت سے جوابی کاروائی کرنے کی بجائے خاموش رہتے ہیں تو نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ہے بلکہ ملک کی معاشی ترقی کی رفتار بھی غیرہموارہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر