وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا قوم ایک اور سرپرائز کا انتظار کرے؟

جمعرات 07 اپریل 2022 کیا قوم ایک اور سرپرائز کا انتظار کرے؟

سیاست کو اگر ایک کھیل تسلیم کرلیا جائے تو بلاشبہ عمران خان نے ابھی تک اپنے آپ کو اِس کھیل کا ایک بہترین کھلاڑی ثابت کیا ہے۔جبکہ اُن کے مقابلے میں ہر سیاسی محاذ پر اپوزیشن کے تجربہ کار اور گھاگ سیاست دان بالکل اناڑی ثابت ہوئے ہیں۔خاص طور پر عمران خان نے جس انداز میں اپنے خلاف پیش ہونے والی تحریک عد م اعتماد کو ایک منحنی سی آئینی شق کا سہارا لے کر مسترد کروایا ہے ۔ اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ میاں شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ 40 برسوں میں سیاست کے میدان میں فقط بھاڑ ہی جھونکی ہے اور جیسا کہ اکثر عمران خان کے متعلق یہ کہاجاتاتھا کہ وہ سیاست کی باریکیوں کو نہیں سمجھتے ۔ اُن کے بارے میں ایسا کہنے والے بھی اَب یہ ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر عمران خان سیاست نہیں جانتے تو پھر اس ملک میں کوئی بھی شخص سیاست کو جاننے کا دعوی نہیں کرسکتا۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ جس طرح پاکستانی سیاست کے تینوں ہیوی ویٹ سیاست دان یعنی میاں شہباز شریف ، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن تحریک عدم اعتماد کی بساط پر چاروں شانے چت ہوئے ہیں ۔یقینااپوزیشن اتحاد کی یہ شکست فاش پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ناقابل فراموش رہے گی۔
وزیراعظم کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کرانے کے اعلان سے کم از کم اپوزیشن کو فوری طور پر اقتدار میں آنے کا راستہ روک دیا گیا ہے۔ چونکہ امریکی خواہش تھی کہ اپوزیشن کو ملک کا اقتدار سونپا جائے اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جائے،اس کے لیے جہاں ایک جانب عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا ضروری تھا تو وہیں دوسری جانب اگلے قومی انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا بھی ضروری تھی ۔اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے انتہائی لازم تھا کہ چند ماہ کے لیے اپوزیشن اتحاد پر مشتمل ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے تاکہ یہ حکومت عمران خان کے دورِ اقتدار میں ہونے والی تمام تر آئینی ترمیمات کو ختم کرسکے ۔جیسے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے انتخابات میں ای وی ایم مشین کا استعمال اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے جیسی آئینی ترمیم کا خاتمہ شامل تھا۔
کیونکہ اپوزیشن کا خیال ہے کہ اگر یہ دونوں فیصلے واپس نہ لیے گئے تو تحریک انصاف اگلے انتخابات میں اسکا بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہے، اس لیے جس قدرعمران خان کو گھر بھیجنا ضروری تھا اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اگلے انتخابات سے ای وی ایم مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کو بھی کسی طرح ختم کر دیا جائے۔جبکہ پی ڈی ایم اگلے قومی انتخابات میں جانے سے قبل اپنی مرضی کا نگران سیٹ اپ بھی چاہتی ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں جیت کے امکانات زیادہ سے زیادہ بڑھائے جاسکیں۔ تاہم تحریک عدم اعتماد مسترد اور قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئندہ چند روز میں عبوری حکومت وجود میں آنے کے امکانات انتہائی روش ہوگئے ہیں ، جو ملک میں آئندہ کروانے کی ذمہ دار ہوگی۔
اچانک سے پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال پر حزب اختلاف کی جماعتیں سخت نالاں اور پریشان نظر آتی ہیں اور اب ان کی آخری امید سپریم کورٹ آف پاکستان سے بندھی ہوئی ہے۔عمران خان کی جانب سے اپوزیشن اتحاد کو دیئے جانے والے بہت بڑے سرپرائز سے کم ازکم ایک چیز تو واضح ہوچکی ہے کہ اپوزیشن کو وقتی طور پر ہی سہی بہرحال اقتدار سے دور کر دیا گیا ہے، جبکہ عمران خان کو آئندہ الیکشن میں شائد ایسا موقع فراہم ہو نے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے کہ وہ گذشتہ انتخابات کی نسبت آئندہ زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہوں۔ کیونکہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو یہ واضح پیغام جاچکا ہے کہ ’’دھمکی‘‘ کا معاملہ اب کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ اس معاملہ کو ملکی سلامتی کے اداروں نے بھی نہ صرف سنجیدگی سے لیا ہے بلکہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کو مسترد کیا ہے۔ لہذا اگر یہ کہا جائے کہ عمران خان کی جانب سے اُٹھائے جانے والے غیر معمولی اقدام کی وجہ سے امریکی سازش فی الوقت ناکام نظر آتی ہے تو کچھ بے جانہ ہوگا۔
عین ممکن ہے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں تو سپریم کورٹ سے تحریک عد اعتماد کے مسترد ہونے کے حوالے سے کوئی فیصلہ آچکا ہو اور عمران خان اس کھیل میں اپنی بازی ہار بھی چکے ہوں لیکن وہ بظاہر ہار کر بھی جیت گئے ہیں اور عمران خان نے اپنے سرپرائز سے حقیقی معنوں میں سب کو انگشت بدنداں کردیا۔ یہی وہ جزوی کامیابی ہے جس کی وجہ سے عمران خان اور انکے کھلاڑی انتہائی پرجوش ہیں کہ حکومت تو جانی ہی تھی لیکن انھوں نے اقتدار اپوزیشن کے ہاتھ بھی نہیں لگنے دیا اور اگلے الیکشن کا اعلان کر کے انہیں اپنی مرضی کی پچ پر کھیلنے کے لیے بھی مجبور کردیا ہے۔اَب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان سے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف فیصلہ آجاتاہے تو پھر عمران خان کیا کریں گے؟۔میری دانست میں عمران خان اس معاملے سے نبٹنے کے لیے بھی پوری طرح سے تیار ہوں گے۔ کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ عمران خان کے خلاف آجانے سے بھی حکومت تو اُن کی ہی بحال ہونی ہے اور اپوزیشن کو ایک بار پھر سے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا ہوگی۔
اگر خدانخواستہ اس بار اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب بھی ہوجاتی ہے تو بہر حال عمران خان کے پاس قومی اسمبلی کی نشستوں سے اجتماعی استعفے دینے کا آپشن بھی موجود ہوگا۔ تحریک انصاف کے استعفے منظور ہونے کے بعد ملک کو بحالت مجبوری انتخابات کی طرف ہی جانا پڑے گا۔اس لیے بادی النظر میں تو یہ ہی دکھائی دیتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنی اپنی ساکھ کو بچانے کیلئے تمام تر توجہ آئندہ انتخابات کی تیاری پر مذکور کرنا ہوگی، کیونکہ اگر یہی جماعتیں عمران خان کی حکومت کو سلیکٹڈ کہتی آئی ہیں تو ان کیلئے اب عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کا موقع قدرے جلد میسر آرہا ہے۔ بیرونی آلہ کار بننے کا الزام تو ان تمام حزب اختلاف کی جماعتوں کے ماتھے پر ویسے بھی کلنک کا ٹیکہ بن چکا ہے، لہذا اگر اپوزیشن جماعتوں نے ملک میں اپنا مثبت سیاسی کردار ادا کرنا ہے تو ان کے پاس آئندہ الیکشن کو قبول کرنے کے علاوہ بظاہر کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ دراصل تحریک عد م اعتماد مسترد ہونے کے بعد پاکستانی سیاست سخت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اور اس سیاسی بحران کا خاتمہ صرف نئے انتخابات سے ہی ممکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر