وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا واشنگٹن پیوٹن کی حکومت کا تختہ اُلٹ سکتاہے؟

جمعرات 31 مارچ 2022 کیا واشنگٹن پیوٹن کی حکومت کا تختہ اُلٹ سکتاہے؟

 

امریکا دنیا کے ہرملک میں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں اپنی من پسنداور مرضی کی کٹھ پتلی حکومت بنوانے کی بھرپور کوشش کرتاہے۔یہ وہ سنگین الزام ہے جو اکثر و بیشتر واشنگٹن پر عائد کیا جاتارہاہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے اردگرد بسنے والے بعض افراد تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں امریکا کی مرضی کے بر خلاف حکومت سرے سے بن ہی نہیں سکتی اور جو حکم ران بھی وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے سے انکار کرتا ہے ،اُسے اقتدارسے بے دخل ہونے پر مجبور کردیا جاتاہے ۔ تواتر کے ساتھ لگنے والے اِن الزامات کے جواب میں واشنگٹن انتظامیہ کا ہمیشہ سے یہ ہی موقف رہا ہے کہ ’’ امریکی حکام دنیا کے کسی بھی ملک کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے‘‘۔
لیکن گزشتہ دنوں امریکی صدر جو بائیڈن کے ایک بیان نے برسوں پرانے امریکی موقف کی اُس وقت تردید کردی ،جب انہوں نے دورانِ تقریر ترنگ میں آکر یہ جملہ کہہ دیا کہ ’’ولادی میر پیوٹن اَب اقتدار میں نہیں رہ سکتے‘‘۔جیسے ہی عالمی ذرائع ابلاغ میں جوبائیڈن کا مذکورہ بیان نشر ہوا ،اگلے ہی لمحے اس دھمکی آمیز بیان کو ترقی پذیر ممالک کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت کے اعتراف جرم کے طور پر بطور سند قبول کرلیا گیا اور بعد ازاںسیاسی تجزیہ کاروں کے درمیان ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ کیا واقعی واشنگٹن کی جانب سے دی گئی دھمکی کے عین مطابق آنے والے ایام میںماسکو کے داخلی معاملات میں مداخلت کرکے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی حکومت کا تختہ اُلٹایا جاسکتاہے؟۔ یوں امریکی صدر جوبائیڈن کی زبان سے ادا ہونے والے ایک مختصر سے جملے سے عالمی سطح پر وائٹ ہاؤس انتظامیہ کے متعلق دنیا بھر میں یہ تاثر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا کہ امریکادیگر ممالک میں قائم ہونے والی ناپسندیدہ حکم رانوں کا تختہ اُلٹنے میں نہ صرف ماضی میں ملوث رہا ہے بلکہ وہ اَب بھی یہ انتظامی صلاحیت رکھتا ہے کہ جب چاہے کسی بھی ملک میں اقتدار کی تبدیلی کو یقینی بناسکتاہے۔
تاہم جلد ہی وائٹ ہاؤس کی انتظامیہ کو احساس ہوگیا کہ جو بائیڈن کی اِس متنازعہ فیہ تقریر کے مندرجات سے مستقبل قریب میں امریکا کو عالمی سطح پر سخت سفارتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔لہٰذا بائیڈن کے اس بیان کے عالمی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے کے کچھ دیر بعد وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اپنا ایک وضاحتی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’ امریکی صدر جوبائیڈن کے کہنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے پڑوسی ممالک کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں ہونا چاہیے، جہاں تک پیوٹن کے اقتدار میں رہنے یا اقتدار میں نہ رہنے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے امریکی صدر کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔کیونکہ پیوٹن کو اقتدار سے ہٹانا کبھی بھی امریکا کا ہدف نہیں رہا ہے‘‘۔حیران کن بات یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ وضاحتی بیان کو عالمی ذرائع ابلاغ میںامریکی مداخلت کے تاثر کو زائل کرنے میں موثر ثابت نہ ہوسکا ۔
دوسری جانب ماسکو نے بھی نہ صرف وائٹ ہاؤس کی وضاحت قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان پر اپنا سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’ولادی میر پیوٹن کے اقتدار کا فیصلہ جو بائیڈن نے نہیں کرنا بلکہ یہ روسی فیڈریشن کے عوام کی مرضی سے ہوگا‘‘۔یاد رہے کہ جوبائیڈن کا مذکورہ بیان سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’سب سے پہلے امریکا‘ ‘کی پالیسی کے یکسرخلاف ہے کیونکہ سابق امریکی صدر ٹرمپ اکثر یورپی ممالک سے امریکی اتحاد اور نیٹو اتحاد میں شمولیت پر سوالات اٹھاتے ہوئے اس بات کا اعادہ کرتے رہتے تھے کہ امریکی عوام کے وسیع تر معاشی و سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیئے ضروری ہے کہ امریکا دنیا بھر کے مسائل میں زبردستی اپنے آپ کو الجھانے کے بجائے سب سے پہلے امریکا کے داخلی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔نیز ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں اس پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی بھرپور کوشش بھی کی اور امریکی افواج کو دنیا بھر کے جنگی محاذ وں سے نکال کر واپس امریکا ،لانے کا نعرہ بھی ٹرمپ نے ہی لگایاتھا۔
مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جوبائیڈن نے امریکا میں عہدہ صدارت کو سنبھالتے ہی ٹرمپ کی پالیسیوں کو کوڑے دان میں پھینک کر ایک بار پھر سے امریکا کو دنیا بھر میں کے معاملات میں اُلجھانا شروع کردیا ہے ۔ واضح رہے کہ یوکرین کی جنگ رُک بھی سکتی تھی ،اگر جوبائیڈن یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی کی پیٹھ پر تھپکی کے دے کر اُسے روسی افواج کے سامنے میدان جنگ میں اُترنے کی ترغیب نہ دیتے ۔ بہرحال اس وقت بھی یوکرین میں ہزاروں امریکیوں کو روسی افواج کے خلاف جنگ کے لیئے اُتارا جاچکاہے اور امریکا کی کوشش ہے کہ یوکرین کو روس کے لیئے سرد جنگ والا افغانستان بنا دیا جائے ۔ لیکن یہ امریکا کی یہ خواہش پورا ہونا فی الحال اس لیے ناممکن ہے کہ روس پر ولادی میر پیوٹن جیسا زیرک شخص حکم ران ہے ۔جو برسراقتدار آنے کے بعد اپنے ملک کو گزشتہ چند برسوں میں چار مختلف جنگیں جیت کر دے چکا ہے۔ لہٰذا ،امریکی صدر جوبائیڈن کے خیال میں یوکرین میں روسی افواج کو شکستِ فاش دینے کے لیے ازحد ضروری ہے کہ کسی بھی طرح سے ولادمیر پیوٹن کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے ۔ اپنی اسی دیرینہ خواہش کا اظہار اُنہوں نے بے دھیانی میں اپنی تقریر میں کرکے واشنگٹن پر لگنے والے اس الزام کی تصدیق بھی فرمادی کہ امریکا دنیا بھر میں اپنی مرضی کی حکومتیں بنانے میں خاص دلچسپی رکھتاہے۔
کیا امریکا واقعی دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنی من پسند حکومت قائم کرنے کی قدرت و صلاحیت رکھتاہے؟۔ یہ ایک ایسا مشکل سوال ہے جس کا آج تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ بادی النظر میں یہ تو عین ممکن ہے کہ واشنگٹن اپنے غیر معمولی اثرو رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی بھی ملک میں اقتدار کے حصول کے لیے دو سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری کشمکش میں کسی ایک فریق کو دامے ،ورمے ،سخنے امداد بہم پہنچا کر اُسے اقتدار کی راہ داریوں تک پہنچانے میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں کامیاب رہے لیکن امریکا کا یہ طریقہ واردات روس میں کامیاب ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر