وجود

... loading ...

وجود
وجود

مقدم افغانستان کی وحدت ا ور استحکام ہے

منگل 22 مارچ 2022 مقدم افغانستان کی وحدت ا ور استحکام ہے

29فروری2020ء کے قطر معاہدہ پر دستخط کے بعد افغان صدر اشرف غنی اور کابینہ اپنا اقتدار بچانے کی تگ دو اور مزید کسی امید کا سہارا لینے کی بجائے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کرتی تونوبت فرار کی ذلت و شرمندگی کی نہ آتی۔15اگست2021ء کو طالبان کو کابل میں داخل ہونے کی حاجت پیش آئی ہی اس لیے کہ ایوان صدر خالی ہوچکا تھا۔ چناں چہ دار الخلافہ کے انaدر غیر یقینی صورتحال کے احتمال کے پیش نظراقدام کرنے پڑے ۔ اشرف غنی اپنے جرائم سے با خبر تھے۔ انہیں قتل یا قید کئے جانے کا خوف لاحق تھا۔ حالاں کہ اقتدار ہاتھ میں لینے و الوں کی انہیں کسی قسم کے انتقام کا نشانہ بنانے کا سرے سے نیت تھی ہی نہیں ۔دراصل اشرف غنی کے فرار میں بھی فسق و فساد مضمر تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کابل طوائف الملوکی لپیٹ میں آئے۔ چناں چہ ان بد خواہوں کے مقاصد پورے نہ ہوئے۔طالبان کسی لحاظ سے غافل نہ رہے،اپنی رٹ کے قیام کو یقینی بنایا۔ رفتہ رفتہ دوسرے صوبوں اور شہروں میں جنگجویانہ امکانات کو ختم کرتے رہیں۔ بلکہ جون2021ء کو امریکی صدر جوبائیڈن ن کی جانب سے 31اگست تک افغانستان سے مکمل انخلاء کے اعلان سے قبل ہی طالبان نے پیشقدمی شروع کرتے ہوئے ملک کے ایک غالب حصے پر کنٹرول حاصل کرلیا ،ایسا حفظ ماتقدم کے طور پر کیا گیا۔اور کابل میں داخل ہونے کے بعد شمال کی جانب مزید قدم بڑھانے شروع کئے۔ یہاں تک کہ پنجشیر کو تصرف میں لے لیا، جس سے غنیم نے بہت ساری توقعات وابستہ کر رکھے تھے۔اس وقت پورے افغانستان پر کابل حکومت کی عملداری قائم ہے۔ گزشتہ دنوں دار الحکومت کابل میں گھر گھر تلاشی مہم ختم ہوئی۔ بھاری اسلحہ برآمد کرکے کابل کے شہریوں کو غیر مسلح کردیا۔ اس نوع کا آپریشن دیگر صوبوں اور شہروں میں بھی تکمیل کو پہنچایا گیا۔یعنی بالترتیب شہروں، قصبوں اور دیہات کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ پنجشیر کے اندر حالیہ دنوں میں بھی کئی مقامات پر بھاری اسلحہ تحویل میں لیا جاچکا ہے۔ پنجشیر میں احمد مسعود اور بامیان میں کمانڈر عبدالغنی علی پور کی جانب سے مسلح نقل و حمل کی اطلاع پر ان علاقوں میں مزید عسکری کمک پہنچائی گئی ہے۔
علی پور اشرف غنی دور میں فوجی ہیلی کاپٹر مار گراچکے ہیں،امریکی حمایت یافتہ حکومت اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکی ہے ۔ نئی افغان حکومت سردست نظم و ضبط اور عملداری قائم کرنے کے مقاصد میں کامیاب ہوئی ۔ تمام وزارتیں اور سرکاری محکمے احتساب کی چھڑی کے نیچے کام کررہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی باوجود مشکلات کے جاری رکھی ہے ۔ تعلیمی اداروں میں بھی درس و تدریس کا عمل جاری رکھا ہے۔ نیز لڑکیوں کے اسکول بھی کھول دیے گئے ۔ اس حوالے سے مزید اقدامات کئے جارہے ہیں۔ قومی فوج اور پولیس کی تشکیل و تربیت بدستور ہورہی ہے۔ فضائیہ کی تشکیل نو بھی ہوئی ہے۔ نئی حکومت نے نسلی اور علاقائیت کے تعصبات کی بنیاد پر سیاست کو بیچ سے نکال دیا ہے۔ اگرچہ بیرون ملک بیٹھے رشید دوستم، احمد مسعود ، امر اللہ صالح اور اس منش کے دوسرے بڑے ان تعصبات کو ہوا دینے کی کوشش میں ہیں۔مگر موجودہ حکومت شر و تخریب کا یہ پہلو نگاہ میں رکھی ہوئی ہے۔ امریکی تسلط کے بیس سالوں میں یہ شخصیات اور گروہ کابل کی حکومتوں پر غالب رہے۔حامدکرزئی اور اشرف غنی نے جنرل قسیم فہیم اور رشید دوستم جیسے گمراہ و سفاک لوگوں کو مارشل کے عہدے دیے۔شمالی مسلح جتھے کابل کی شاہراہوں پر گشت کرتے، ہوائی فائرنگ اورہلڑ بازی کرتے۔ عام شہریوں کو تو چھوڑیے ، حکومتی لوگ و نمائندے ان کے شرسے محفوظ نہ تھے۔ احمد شاہ مسعود ، برہان الدین ربانی، جنرل قسیم فہیم، عبدالعلی مزاری وغیرہ کی برسی کے تمام اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کئے جاتے ۔ بادی النظر میں افغانستان کی تقسیم صاف نمایاں تھی۔ روسی قبضہ کے دور میں ایسی ہی تقسیم واضح تھی۔ جن کے آگے گلبدین حکمتیار سد راہ تھے ۔تب کے آخری صدر، ڈاکٹر نجیب ان” پرچمی” جنرلوں اور سیاستدانوں کے آگے بچھے ہوئے اور مکمل حصار میں تھے ۔ ڈاکٹر نجیب نے ملک سے فرار کی کوشش کی تو ان ہی جتھوں نے اسے ایئر پورٹ جانے نہ دیا ۔ اس برتری اور ملک کی تقسیم کے منصوبوں کے پیش نظر کمیونسٹ رجیم کے جنرل شاہنواز تنئی نے بغاوت کردی تھی۔ صبغت اللہ مجددی اور برہان الدین ربانی کی عبوری حکومتوں میں یہ گروہ مزید مضبوط ہوئے۔ برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود ان کے حصہ تھے۔ دوستم کی جانب سے مشکلات پیدا کرنے پر بر ہان الدین ربانی نے دوستم کو پیغام بھیجا کہ صدیوں بعد پہلی مرتبہ اقتدارشمال کی اقلیتوں کے ہاتھ لگا ہے، اس لیے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چا ہیے۔ ان عبوری حکومتوں کے دوران بھی ملک کی تقسیم اور ریشہ دوانیوں کے آگے حزب اسلامی کھڑی رہی۔ ہمسایہ ممالک سمیت روس و امریکا حزب اسلامی کواقتدا ر سے دور رکھنے کی خاطر شمال کے جتھوں کی پشت پر تھے۔ یوں طوائف الملوکی کا دور دوراں ہوا۔ قریب تھاکہ افغانستان عملاً تقسیم ہوجاتا۔ ملا محمدعمر مجاہدنے نمودارہوکراشرارکے خواب پورے ہونے نہیں دیے ۔ اورپھر 15اگست2021ء کو ہیبت اللہ اخوندازدہ کی قیادت میں کابل پر کنٹرول اور پھر پنجشیر ہاتھ میں لے کر ایک مرتبہ پھر ان کی 20سالوں کی تقسیم و تخریب کے منصوبے خاک میں مل گئے ۔ اور افغانستان سے فرا رکے بعد جنرل بسم اللہ نے افغانستان کی تقسیم کی بات کہہ ہی ڈالی۔ کہا کہ ” ہماراآخری آپشن اور فیصلہ افغانستان کی تقسیم کا ہوگا۔ ” بسم اللہ محمدی اشرف غنی حکومت میں وزیر دفاع تھے۔2002ء سے2010ء تک افغان فوج کے سربراہ اور2010سے2012ء تک افغانستان کے وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ جنرل بسم اللہ احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی تھے ۔برتری کی سوچ و رعب تھا کہ 9 مارچ 2020ء کوعبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کے مقابل متوازی طور حلف اٹھاکر خود کو افغانستان کا صدر قرار دیا ۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے اندر بھی بعض سیاسی حلقے ہنوز افغانستان میں ا ان ہی مسلح جتھوں، ڈھونگ و تماشا جمہوریت ،غبن، لوٹ مار اور مارا ماری کے نظام کی احیاء کی بات کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان ا ضطراری اور بحرانی دور سے گزر رہا ہے،جو مزید کسی آزمائش کا متحمل نہیں ہو سکتا۔یقینا مقدم افغانستان کی وحدت اور استحکام ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر