... loading ...
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے پیکا ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر دوران سماعت آئندہ سماعت تک ایف آئی اے کے سیکشن 20 پر حکم امتناع میں توسیع کر تے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کی طرف سے ہدایات لینے اور دلائل کیلئے مہلت کی استدعا پر سماعت ملتوی کردی اور ریمارکس دئیے ہیں کہ جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے سیاسی جماعتیں اور ورکرز اس بات کے ذمہ دار ہیں، جب سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بنائیں گی تو پھر اختلاف رائے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ میڈیا ٹیمز سے یہ سب کراتے ہیں، پھر سوشل میڈیا پر الزام کیوں لگایا جا رہا ہے، میرے خیال میں صرف جماعت اسلامی اس کا حصہ نہیں ہے، جماعت اسلامی کے علاہ ساری جماعتیں الزامات اور ٹرولنگ میں ملوث ہوتی ہیں، پیکا آرڈیننس آئین سے متصادم ہے کیوں نہ کالعدم کردیں،قانون پبلک آفس ہولڈرز کے تحفظ اور آزادی اظہار کو دبانے کیلئے استعمال ہو رہا ہے،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف تمام درخواستیں یکجا کر دیں۔ سماعت کے دوران درخواست گزار رضوان قاضی پی ایف یو جے کے ایڈووکیٹ عادل عزیز قاضی کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے،جبکہ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ خان نیازی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود، ڈپٹی اٹارنی جنرل سہد طیب شاہ اور دیگر بھی عدالت پیش ہوئے،اس موقع پر پی ایف یو جے کے فنانس سیکرٹری جمیل مرزا، نائب صدر فرحت فاطمہ، طارق عثمانی اور دیگر بھی موجودتھے، پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر بھی پیش ہوئے،عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ عدالت کو معلوم ہے کہ دنیا ہتک عزت کے قانون کو فوجداری قانون سے نکال رہی ہے،عدالت میں جو کیس آیا وہ اس عدالت کے لیے شاکنگ تھا،حکمران جماعت کی ایک رکن اسمبلی نے پڑوسی سے ماحولیاتی ایشو پر شکایت کی، ایف آئی اے نے ہراساں کیا، کسی کو ڈر نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف اس قانون کو استعمال کر رہی ہے،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں،یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جمہوری ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے،ابھی یہ پروسیڈنگز چل رہی تھیں کہ یہ معاملہ اب عدالت کے سامنے آ گیا، عدالت کے لیے یہ بات تشویش ناک ہے کہ قوانین کو آرڈی نینس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا،یہ عدالت پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کاالعدم قرار کیوں نا دے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا میں عدالتیں ایسا کر چکی ہیں، اگر ایگزیکٹو کو اپنی پرائیویٹ ساکھ کا اتنا خیال ہے تو اس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں،ہر پبلک آفس ہولڈر کی طاقت پبلک میں اس کی ساکھ ہوتی ہے،ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھا اس نے ایسا کیا، پولیٹیکل پارٹیز اور پولیٹیکل ورکرز اس بات کے ذمہ دار ہیں جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے،جب پولیٹیکل پارٹیز اپنی سوشل میڈیا ٹیمز بنائیں گی تو پھر وہ اختلاف رائے سے کیوں ڈرتے ہیں؟،اداروں کا بنیادی حق نہیں ہوتا ہے وہ اس میں کیسے آ سکتے ہیں؟،سول قوانین کو زیادہ بہتر بنائیں، عدالت بھی آپ کی مدد کرے گی،ہتک عزت کا مقدمہ بہتر کر لیں، اس کا فیصلہ نوے دن میں ہو،عدالت کے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20 کو کیوں نہ کاالعدم قرار دیا جائے؟، اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ اسے غیر آئینی قرار دے، میرے خیال سے یہ غیر آئینی نہیں،قانون کا غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈز ہونے چاہئیں،میں اس کے دفاع کے لیے تیار ہوں مگر یہ بات بھی کہتا ہوں کہ ایف گارڈ ہونے چاہئیں،میرے ذہن میں ایک پلان ہے اور وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے،بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ہتک عزت کے قوانین کو ڈی کریمنلائز نہیں کیا گیا،اگر کوئی کسی پردہ نشین خاتون کو کہے کہ وہ جادو ٹونہ کرتی ہیں یا چھت پر گوشت پڑا ہے،کیا یہ آزادی اظہار رائے ہے؟،جنہوں نے یہ قانون بنایا تھا انہوں نے بھی اس کو چیلنج کیا گیا ہے،لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اسے چیلنج کیا گیا ہے،بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہاکہ ن لیگ کی جانب سے بھی درخواست دائر کی گئی ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اپوزیشن کی تو سینیٹ میں اکثریت ہے ، آپ کے پاس اختیار ہے آپ اس کو مسترد کر سکتے ہیں،آپ پارلیمنٹ جا کر اپنا کردار ادا کریں، عدالت پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے، سیاسی جماعتوں کی درخواستوں پر کارروائی نہیں کریں گے،آل سٹیک ہولڈر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ ہے اس کو سنیں گے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ کسی کے بیڈ روم کی وڈیو بنا کر وائرل کرنا یا جعلی وڈیو اپلوڈ کرنا ٹھیک ہے؟، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ پیکا ایکٹ میں ترمیم سے قبل کا سیکشن 20 بھی دیکھ لیں،عدالت کے سامنے جتنے کیسز آئے ہیں اس میں ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے اختیار کا غلط استعمال کیا،آپ ایف آئی اے کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ شکایت پر کسی کو پکڑ لے اور ٹرائل تک بندہ اندر رہے،عدالت کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ پیکا آرڈیننس ڈریکونین قانون ہے، ایف آئی اے کو لوگوں کی شہرت بچانے پر لگادیا گیا، کیا ایف آئی اے کو اور کوئی کام نہیں؟، عدالت کا فرض ہے کہ پارلیمنٹ کا حترام کرے،آپ نے آرڈی نینس بنایا، سینیٹ کو اسے منظور یا مسترد کرنے دیں،آرڈی نینسز کو اس لیے منظوری دی گئی ہے کہ 33 سال ملک آرڈی نینسز پر چلتا رہا ہے،کچھ عدالتی فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 89 کے حوالے سے تشریح کی گئی ہے،آپ کہتے ہیں ایف آئی اے جا کر گرفتار کرے گا اور ٹرائل کے اختتام تک وہ قید رہے گا،یہ ایک ڈریکونین قانون ہے،آپ نے تو اسے نیب کے قانون سے بھی زیادہ worst کر دیا ہے،اس کے ذریعے تو آپ سیلف سینسر شپ کر رہے ہیں،اس کے بعد تو لوگوں نے ڈر کے مارے کچھ کرنا ہی نہیں ہے،یہ آپ نے ایف آئی اے کو کس کام پر لگا دیا ہے، آپ نے پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتی ساکھ کی حفاظت پر لگا دیا ہے،اس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے ایس او پیز پیش کیے مگر عمل نہ کیا،سیاسی قیادت اپنے فالوورز کو قابل اعتراض گفتگو پر سراہتی ہے،اداروں کے سوشل میڈیا اکانٹس کیسے ہیں؟،حقیقت بہت تلخ ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب پوری دنیا ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال رہی ہے،ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور ہوا تھا تو عدالت نے اس پر کچھ نہیں کیا، برسراقتدار پارٹی کی ایک رکن پارلیمنٹ نے اپنے پڑوسی کے خلاف ماحولیاتی مسئلے پر ایف آئی اے میں شکایت کی،ایف آئی اے نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے انکو ہراساں کیا، اس عدالت نے ایف آئی اے کو بلا کر سمجھایا کہ بنیادی حقوق اور آزادی اظہار کا خیال رکھا جائے،عدالت نے کہا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ ریاست آواز دبانے کیلئے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہی ہے،ایف آئی اے صرف حکومت کے خلاف تنقید کرنے والوں کو اٹھاتی رہی،ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ جمہوری ملک میں ہو رہا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر حکومت کو پرائیویٹ لوگوں کی ہتک کا اتنا خیال ہے تو پبلک آفس ہولڈرز کو اس سے نکال دیں، مجھے چیف جسٹس ہوتے ہوئے تنقید سے نہیں گھبرانا چاہیے،ہر پبلک آفس ہولڈر کی ساکھ اس کے فیصلوں اور اسکے اعمال سے ہوتی ہے،یہ عدالت کافی عرصے سے اس معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے،سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما سوشل میڈیا پر ہونے والے اقدامات کے خود ذمہ دار ہیں،جب آپ خود یہ چاہتے ہیں تو پھر تنقید سے کیوں ڈرتے ہیں، ایک سیاسی ورکر نے ایک پبلک آفس ہولڈر کے خلاف تقریر کی اور چھ ماہ جیل میں رہا،یہ قانون پبلک آفس ہولڈرز کے تحفظ اور آزادی اظہار کو دبانے کیلئے استعمال ہو رہا ہے،ایک آرڈیننس کے ذریعے اس ایکٹ کو مزید ڈریکونین بنا دیا گیا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ اس آرڈیننس کے بعد لوگوں نے تو ڈر کے مارے کچھ لکھنا ہی نہیں ہے،یہ آپ نے ایف آئی اے کو کس کام پر لگا دیا ہے،ایف آئی اے نے پبلک کی خدمت کرنی ہے، آپ نے ایف آئی اے کو پبلک آفس ہولڈرز کی خدمت کیلئے لگا دیا ہے،ایف آئی اے نے اس عدالت اور سپریم کورٹ کے سامنے اپنے ایس او پیز پیش کیے،اس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے پھر ایس او پیز کی خلاف ورزی کی،سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پر چلنے والی چیزوں کی ذمہ دار ہیں،اداروں نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس بنا رکھے ہیں، اداروں کے سوشل میڈیا اکاونٹس کیوں ہونے چاہئیں، پھر آپ اسی سوشل میڈیا کے خلاف قانون لے آتے ہیں، یہی سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیمز سے یہ سب کراتے ہیں،پھر سوشل میڈیا پر الزام کیوں لگایا جا رہا ہے،میرے خیال میں صرف جماعت اسلامی اس کا حصہ نہیں ہے،جس طرح لاہور سے دو صحافیوں کو اٹھایا گیا اسکی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی،لاہور کے دو صحافیوں کو جس طریقہ سے اٹھایا گیا، انہیں بتایا بھی نہیں گیا کہ ایسا کیوں کیا؟،یہ تو بہت سادہ سا معاملہ ہے، جب آرڈی نینس بن جائے تو دونوں ایوانوں سے منظوری ہوتی ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں رولز پڑھ کر بتاں گا، دونوں ہاسز نہیں، ایک ہاس سے بھی منظوری لی جا سکتی ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا نہیں ہے، اگر ایک ہاوس بھی آرڈی نینس کو مسترد کر دے تو وہ مسترد تصور ہو گا،ایف آئی اے نے محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مار کر لیپ ٹاپ وغیرہ اٹھا لیے،ایف آئی اے نے دو صحافیوں کو بغیر نوٹس اٹھایا اور وہ کافی عرصہ غائب رہے،ایف آئی اے سے پوچھا کہ کیوں گرفتار کیا گیا تو بتایا کہ کمپلینٹ موصول ہوئی تھی،ایک صحافی کو وی لاگ میں کتاب کا حوالہ دے کر ہسٹری بیان کرنے پر گرفتار کیا گیا، اب کوئی ہسٹری بھی بیان نہیں کر سکتا؟ستر سالوں میں ہم ملک کو اس جگہ لے آئے اور اب ڈرتے ہیں کہ کوئی بات بھی نہ کرے، برطانیہ میں بادشاہت بچانے کے لیے ہتک عزت کے قانون کو کریمنلائز کیا گیا تھا جو بعد میں ختم کر دیا گیا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ برطانیہ میں تو احتساب عدالتیں بھی نہیں ہیں، وہاں کے حکمران بعد میں کہیں بھاگ بھی نہیں جاتے،چیف جسٹس نے کہاکہ جو ماحول بنا ہوا ہے اور معاشرے میں جتنی نفرت ہے اس میں آپ کیا توقع کرتے ہیں؟، آپ کو اندازہ ہے کہ آپ نے ترمیم میں پبلک باڈیز کی reputation کو بھی بچانے کی کوشش کے گئی،ایسا نہیں ہے کہ کسی نے کوئی تنقید کی تو وہ فوری گرفتار ہو جائے گا،عدالت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سوشل میڈیا پر کیا ٹرینڈ چل رہا ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں تو نیب کے قانون میں بھی اس بات کے خلاف تھا کہ گرفتاری کا اختیار نہیں ہونا چاہئے،چیف جسٹس نے کہاکہ جتنا نقصان نیب اور اس کے قانون نے پہنچایا ہے، اس وقت کچھ کہنا نہیں چاہتے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس قانون کا اطلاق سیاسی تقاریر پر نہیں ہو گا،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ یہ بات واضح کریں کہ کسی تقریر پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا، بلال غوری نے ایک کتاب سے پڑھ کر تاریخی حقائق بیان کیے اور ایف آئی اے نے کارروائی کی،اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ بات بالکل غلط ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ پبلک باڈیز یا اداروں کا کون سا بنیادی حق ہوتا ہے؟ انہیں تو تنقید سے گھبرانا ہی نہیں چاہئے،اس آرڈی نینس کو پڑھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے،یہ بھی بتائیں کہ ایسی کیا جلدی تھی کہ آرڈی نینس لے کر آئے؟، لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ بلکہ اس دن قومی اجلاس کا اجلاس ہونا تھا جسے ملتوی کیا گیا، چیف جسٹس نے کہاکہ یوگنڈا میں بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال دیا گیا ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ بیلجئم، جرمنی، آئس لینڈ میں یہ ہتک عزت کا جرم کریمنلائز ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ وہاں کی عدالتوں کے فیصلے بھی پڑھ لیں،کوئی اپوزیشن رکن شکایت کرے کہ حکومتی رکن نے یہ بات کی ہے تو کیا آپ انہیں گرفتار کریں گے؟ عادل عزیزقاضی ایڈووکیٹ نے کہاکہ کینیا جیسے ملک نے بھی اس قانون کو ختم کیا، لیکن ہمارے ملک میں اس کو فوجداری میں شامل کردیاگیا، لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ روز سیاستدانوں کو چور ڈاکو کہتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں اس کے بھی خلاف ہوں، ایسا نہیں کہنا چاہئے، جو ہو اسے بھی نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ جو بھی حکومت میں رہا ہے انھوں نے کبھی فریڈم آف پریس کو نہیں مانا،لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہمارے بڑے جگری ہیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ سندھ میں سب سے زیادہ صحافیوں کو قتل کیا گیا، عدالت نے کہاکہ ایف آئی اے سیکشن 20 کو صرف وی لاگ پر کتاب کا حوالہ دینے پر ایپلائی کررہے،آجکل تو آپ لوگ صحافیوں کے سورسز تک پہنچ گئے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ صحافیوں سے ان کا سورس نہیں پوچھا جاسکتا اور نہ ہونا چاہیے،چیف جسٹس نے کہاکہ اظہار رائے پر قدغن کی وجہ سے آدھا ملک ہم سے چلا گیا،جہاں اظہار رائے کی آزادی نہیں وہاں ترقی ممکن نہیں،یہ عدالت ایف آئی اے کو صرف پبلک آفس ہولڈر کو تحفظ کے لئے نہیں چھوڑے گی،اس عدالت نے بین الاقوامی سٹینڈرڈز آپ کے سامنے رکھیں ہیں،آپ کو کیا ضرورت ہے کہ آپ عدلیہ کی ساکھ کو تحفظ دے،اگر لوگوں کا ہم پر اعتماد ہوگا تو کسی کی دھمکیوں سے کچھ نہیں ہوگا،ہر بندے کو آئینی سے اظہارِ رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے،اگر سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا سے مسئلہ تو خود اقدامات کرے،سیاسی جماعتیں بھی سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکیں ، عدالت نے اٹارنی جنرل کو الاقوامی قوانین سے عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ ایف آئی اے کا کیا ہوگا، وہ کہیں گے ایس او پیز کے تحت گرفتار کیا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں ایف آئی اے کو ڈیفنڈ نہیں کرونگا، اس عدالت کا آرڈر موجود ہے، پی ایف یو جے وکیل عادل عزیز قاضی نے کہاکہ کہ نیا کی عدالت نے بھی اس حوالے سے فیصلہ دیا ہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بڑے ممالک کا حوالہ دے،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی درخواستوں کو خارج کرتے ہیں،سیاسی جماعتیں اگر ذمہ داری پوری کرے تو عدالتوں میں آنا ہی کہ پڑے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ ڈی جی ایف آئی اے کو ترمیمی آرڈیننس پر کام نہ کرنے کا کہا ہے،لطیف کھوسہ نے کہاکہ میرے کلائنٹ محسن بیگ کے کمپیوٹر تک اٹھا لیے گئے، عدالت نے کہا کہ وہ ایف آئی اے کیس میں گرفتار نہیں ہوئے،محسن بیگ کو اس ایف آئی آر میں گرفتار کرنے دیں پھر دیکھتے ہیں، عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ پیکا سے متعلق کیسز کی سماعت 10 مارچ تک کے لئے ملتوی کردی۔
جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا۔بھکر آمد پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انتخابات میں حکومتوں کا کوئی رول نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کا رول ہوتا ہے ، جس کا الیکشن کے لیے رول تھا انہوں نے رول ...
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک کے دوران شر پسند عناصر کی طرف سے صورتحال کو بگاڑنے اور جلائو گھیرائوں کی کوششیں ناکام ہو گئیں ، معاملات کو بہتر طریقے سے حل کر لیاگیا، آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے ہیں، کشمیریوں کی قربانیاں ...
ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ میری رائے ہے کہ قانون سازی ہو اور گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، اصل بات وہی ہے ۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کی سم...
رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال نے کہا ہے کہ جج کے پاس وہ طاقت ہے جو منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج سکتے ہیں، جج کے پاس دوہری شہریت بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، عدلیہ کو اس کا جواب دینا چاہئے ۔نیوز کانفرنس کرتے ہوئے رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال نے کہا کہ کیا دُہری شہریت پر کوئی شخص رکن قومی...
شکارپور میں کچے کے ڈاکو2مزید شہریوں کواغوا کر کے لے گئے ، دونوں ایک فش فام پر چوکیدرای کرتے تھے ۔ تفصیلات کے مطابق ضلع شکارپور میں بد امنی تھم نہیں سکی ہے ، کچے کے ڈاکو بے لگام ہو گئے اور مزید دو افراد کو اغوا کر کے لے گئے ہیں، شکارپور کی تحصیل خانپور کے قریب فیضو کے مقام پر واقع...
سندھ کے سینئروزیرشرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ بانی پی ٹی آئی کی لائونچنگ، گرفتاری، ضمانتیں یہ کہانی کہیں اور لکھی جا رہی ہے ،بانی پی ٹی آئی چھوٹی سوچ کا مالک ہے ، انہوں نے لوگوں کو برداشت نہیں سکھائی، ہمیشہ عوام کو انتشار کی سیاست سکھائی، ٹرانسپورٹ سیکٹر کو مزید بہتر کرنے کی کوشش...
پنجاب حکومت نے مزید مشاورت کرنے کیلئے ہتک عزت بل کی اسمبلی سے منظوری اتوار تک موخر کر دی جبکہ صوبائی وزیر وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے کہا ہے کہ مریم نواز کی ہدایت پرمشاورت کے لئے بل کی منظوری کو موخر کیا گیا ہے ، ہم سوشل میڈیا سے ڈرے ہوئے نہیں لیکن کسی کو جھوٹے الزام لگا کر پگڑیاں...
سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)شبر زیدی نے دبئی پراپرٹی لیکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاستدان یہ بتائیں کہ جن پیسوں سے جائیدادیں خریدیں وہ پیسہ کہاں سے کمایا؟ایک انٹرویو میں دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی مالیت 20 ارب سے زیادہ ہے ، جن پیسوں سے جائیدادیں خر...
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن 9 مئی کی معافی مانگنے پر تیار نہیں تو ان کا رونا دھونا جاری رہے گا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کا لیڈر رو رہا ہے اور کہہ رہا ہے مجھے نکالو، مجھے نکالو، یہ انگلی ...
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کے لیے وفاقی حکومت کو ڈیڈ لائن دے دی۔علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبے میں لوڈشیڈنگ کم کرنے کے لیے آج رات تک شیڈول جاری کرے ، اگر شیڈول جاری نہ ہواتو کل پیسکو چیف کے دفتر جاکر خود شیڈول دوں ...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 190ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں بانی پی ٹی آئی کی 10 لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت منظور کرلی۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی ضمانت منظور کرنے کا فیصلہ سنادیا۔ عد...
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی جانب سے آرٹیکل 6 کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں اور ایوب خان کو قبر سے نکال کر بھی آرٹیکل 6 لگانا چاہیے اور اُسے قبر سے نکال کر پھانسی دینا چاہیے ۔قومی اسمبلی اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر عمر...