وجود

... loading ...

وجود
وجود

مشکلات اور ہمارارویہ

بدھ 09 فروری 2022 مشکلات اور ہمارارویہ

پاکستان کومعاشی ،تجارتی اور دفاعی نوعیت کے سنگین مسائل درپیش ہیں اِن مشکلات کی بنا پر چاہنے کے باوجود خطے میں غیرجانبدار رہا ہی نہیں جا سکتااور کسی نہ کسی عالمی طاقت کی طرفداری مجبوری ہے اِس امتحان کے دوران کیسے ملکی مفاد کا تحفظ کرنا اور عوام کو خوشحال بناناہے یہ سوچنا قیادت کااولیں فرض ہے مگرقیادت کے رویے سے غیر سنجیدگی جھلکتی ہے پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے مسائل حل ہونے کی بجائے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے دور کیوں جائیں اپنے مشرقی ہمسائے کی طرف دیکھ لیں جو آجکل امریکا کی آنکھ کا تارا ہے جوہری معاہدوں سے لیکر جنگی طیاروں اور دیگر ہتھیاروں کی مشترکہ تیاری کے منصوبوں کے باوجود یوکرائن ایشوپر امریکہ کے خلاف ووٹ دیتا ہے کیونکہ روسی مخالفت مول لینا نہیں چاہتا اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُسے بخوبی معلوم ہے چین کے خلاف وہ امریکا کی مجبوری ہے اسی لیے دونوں عالمی طاقتوں سے کبھی منت سماجت سے اورکبھی بلیک میلنگ سے فوائد حاصل کر تاہے وہ ایک طرف روس سے جدید اسلحہ خرید رہا ہے تو امریکہ کے بھی قریب ہے بیک وقت دو متحارب عالمی طاقتوں سے تعلقات میں ایسا توازن حیران کُن ہے لیکن یہ اُس کی قیادت کا کمال ہے اِس میں ہماری قیادت کے لیے بھی سبق ہے ۔
چین کو عالمگیر معیشت کا حصہ بنانے کے لیے امریکا نے کئی دہائیوں تک کافی نرمیوں سے کام لیا اوراضافی سہولتیں دیں اپنی کمپنیاں کو بھی کُھلی آزادی دی کہ جتنی چاہیں چین میں سرمایہ کاری کریںیا صنعتیں لگا کر مال تیار کریں اور پھر اِس مال کوپوری دنیا میں بیچنے پر کوئی قدغن نہ آنے دی 2020کی چین امریکا تجارت پر نظر ڈالیں تو چین نے اِس سال کے دوران امریکا کو 452ارب ڈالر کا مالِ تجارت یا خدمات فروخت کیں حالانکہ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں اب خاصا تنائو اوردونوں ہی ایک دوسرے کی کمپنیوں پر بھی پابندیاں لگاتے رہتے ہیں پھر بھی تجارتی توازن چین کے حق میں ہے اسی لیے امریکاشور مچاتا ہے کہ امریکا کوچین کی برآمدات بہت ذیادہ لیکن درآمدات بہت ہی کم ہیںاِس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے اور کیسے آگے بڑھنا ہے یہ طے کرنا ملک کے معاشی پالیسی سازوں کا کام ہے اگر طریقہ کار بنا لیا گیا تو نہ صرف خسارہ بلکہ قرضوں کا بوجھ بھی ختم ہو سکتا ہے خوش قسمتی سے چین کے بعد رواں ماہ کے آخری ہفتے میں عمران خان روس کے اہم دورے پر جارہے ہیںیہ 23سال بعد کسی پاکستانی وزیرِ اعظم کا دورہ ہوگا جسے پاکستان کے لیے نفع بخش بنانے پرپالیسی سازوں کو کام کر نا چاہیے عمران خان کے حالیہ دورے کے دوران چین نے چاول ،سیمنٹ کے علاوہ زرعی مصنوعات کی درآمد بڑھانے کا عندیہ دیا ہے اسی طرح روس کو بھی اپنے مال کی منڈی بنانے کی راہ تلاش کی جائے تو ملک کو معاشی گرداب سے نکالناآسان ہو سکتاہے۔
امریکا اور یورپ کئی دہائیوں سے ہر شعبے میں شراکت دار ہیں نیٹو جیسے دفاعی معاہدے نے دفاعی حوالے سے بھی دونوں کو ایک دوسرے کے لیے ناگزیر بنا دیا ہے مگر سرمایہ کاری ہو یا صنعت کاری دنیا چین کو نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اسی بنا پر یورپ کا درآمدی اور برآمدی حجم امریکہ سے ذیادہ چین کے ساتھ ہو گیا ہے اور یہ فرق ہر گزرتے برس کے دوران بڑھتا جا رہا ہے اِس فرق کو ختم کرنے کے لیے امریکا کی تمام کاوشیں رائیگاں ہوتی نظر آتی ہیں مخاصمت کے باوجود بھارت کا بھی درآمدات اور برآمدات مین چین پر انحصار بڑھ رہا ہے اسی لیے باوجود کوشش کے دنیا کاچین سے لاتعلق ہونا ممکن ہی نہیں یہ حالات پاکستانی قیادت سے تقاضا کرتے ہیں کہ دوراندیشی سے فیصلہ کرے اور صنعتی و زرعی پیداوار بڑھانے کے ساتھ نئی منڈیاں بھی تلاش کی جائیںمگر بدقسمتی سے کچھ عرصے سے ملک خوراک میں خود کفیل نہیں رہا اسی لیے تیل کی درآمدات کے ساتھ زرعی مصنوعات کا درآمدی بل وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے چینی تجربات سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
خطے کے حالات پاکستان کو چین کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں مگر روس افغان جنگ کے دوران جذباتی ہوکر کافی نقصان اُٹھایا جا چکامگر چین سے تعلقات کی بنا پر مغربی دنیا کو مخالف بنا نا بھی عقلمندی نہیں دونوں کے تعلقات میں توازن لایا جا سکے تو یہ بڑی کامیابی ہو گی مگر اِس کے لیے غور وفکر سے ایک راہ متعین کرنا ہوگی بغیر سوچے سمجھے ہونے والے فیصلے نقصان کا موجب بن سکتے ہیں علاوہ ازیں ہمیں یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا دنیا کے ہر بکھیڑے میں ہم نے ہی حصہ لینا ہے یاپُرخطر حالات کو دواندیشی سے اپنے لیے ہموار بنانا ہے زہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ امریکا کے قرب و جوار میں کئی ملک اُس کے حامی نہ ہونے کے باوجودنہ صرف اپنی آزادی و خودمختاری کو برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ ترقی کی منازل بھی طے کررہے ہیں اسی طرح روس اور چین کے کئی ہمسائے بھی ایسے حالات سے دوچار ہیں لیکن کشیدگی کے باوجودالگ اور خود مختار تشخص پر سمجھوتہ نہیں کرتے اور جذباتی ہوئے بغیرعالمی طاقتوں سے معاشی تعاون بھی جاری رکھے ہوئے ہیں پاکستان کو بھی کچھی ایسا انداز اپنا نا چاہیے تاکہ جوہری طاقت کے بعد معاشی طاقت کی منزل کا حصول ممکن ہو سکے۔
کوئی ملک بغیر مفاد کے کسی ملک پر نوازشات نہیں کرتا بلکہ مفاد کے تناظر میں دستِ تعاون بڑھاتا ہے روس کا مخالف ہونے اور 1969میں چین امریکہ مراسم اُستوار کرانے کی وجہ سے ہی امریکہ نے کچھ مہربانیاں کیں اور کئی برس تک امریکی صدر جوہری پروگرام کے حوالے سے کانگرس کو ہر چھ ماہ بعد سرٹیفکیٹ دیکر یہ یقین دہانی کراتارہا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل نہیں کر رہا عرب اسلامی ملک پاکستان کی بجائے بھارت کو اِس لیے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اُن کا مفاد بھارت سے وابستہ ہے ایران اور افغانستان بھی بھارت کے اسی لیے طرفدار ہیں کیونکہ بھارت سرمایہ کاری کرتا ہے لیکن وسائل سے محروم پاکستان جوخود قرض کا متلاشی ہے کسی ملک میں سرمایہ کاری کی پوزیشن میں نہیںاسی طرح ہم خود کو چین کا تزویراتی اتحادی سمجھتے ہیں مگر حالات اِتنے بھی اچھے نہیں جتنے ہمیں محسوس ہوتے ہیں موجودہ دورِ حکومت میں چینی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی ہوئی ہے اوردوطرفہ تجارت بھی چین کے حق میں ہے اگر اِس میں توازن نہ لایا گیا تو بڑھتا تجارتی خسارہ مزیدمعاشی مسائل جنم دے سکتا ہے۔
منڈیاں تلاش کرنے کے ساتھ ہمیں ملک میں صنعت و زراعت کو فروغ دینا ہو گا جب ہم چین کی ترقی پررشک کرتے ہیں تو ہمیں کچھ سیکھنے پر بھی توجہ دینا ہو گی چین میں صنعتوں کے لیے گیس ،بجلی اور پانی کی قیمت بہت کم ہے سستی اور ہنر مند افرادی قوت دستیاب ہے اسی لیے مال پر لاگت کم آتی ہے سستا اور معیاری مال عالمی منڈی میں کشش کا باعث بنتا ہے ہم نے بھی اگر آگے بڑھنا ہے تو تنازعات میں الجھنے کی بجائے دامن بچا کر چلنا ہو گااِس وقت طالبان کا دنیا میں سب سے بڑا وکیل پاکستان ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ آج بھی افغانستان سے پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملے ہوتے ہیں اِس کی وکالت کرتے ہوئے ملکی مفاد نظر اندازکرنا فرائض سے غفلت کے مترادف ہوگا ہمیں درآمدات کم کرنے اور برآمدات بڑھانے پر توجہ دینا ہو گی بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہوگا دفاعی ضروریات اپنی جگہ مگر قرض لیکر غیر پیدواری منصوبوں پر خرچ کرنے کا سلسلہ بند کرنا اور چین کو جدید ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کرنے پر آمادہ کرنا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

واحدسپرپاورکاگھمنڈ وجود پیر 13 مئی 2024
واحدسپرپاورکاگھمنڈ

سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر