وجود

... loading ...

وجود
وجود

فیس بک سے’ فیس لور‘ تک

اتوار 06 فروری 2022 فیس بک سے’ فیس لور‘ تک

آصف محمود

انعام رانا کی ’ فیس لور‘ کیا سامنے آئی ، زکر برگ کی ’ فیس بک‘ کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ آپ کہیں گے اس کی وجوہات میں ٹک ٹاک اور دیگر گستاخ بروئے کار آئے ہیں تو میں عرض کروں گا گستاخی کا حجم نہیں ، اس کا ماخذدیکھیے۔ ہمارے پاکستان کی نسبت سے تو اس ابلاغی سپر پاور کے آگے صرف ایک ہی گستاخی کی گئی ہے اور اس کا نام ’ فیس لور‘ ہے۔باقیوں کی وہ جانیں ، ہم تو اس بارش کے اپنے قطرے سے واقف ہیں ، کیا جانے وہی آگے چل کر ساون بن جائے۔خیر یہ کوئی بحث نہیں کہ اس پر تکرارکی جائے ، آئیے ایک اور پہلو پر غور کر لیتے ہیں۔ حال ہی میں سینیٹ میں ا سٹیٹ بنک ترمیمی بل آیا اور ’’ باقی اب تاریخ ہے‘‘۔پاکستان صرف ایک ارب ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے دبائو میں قانون سازی کرنے پر مجبور ہوا پڑا ہے اور دوسری طرف صرف ایک فیس بک کو صرف ایک سہہ ماہی میں محض صارفین کی تعداد گھٹنے سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 230 ارب ڈالر ہے۔کہاں ایک ایٹمی ریاست اور صرف ایک ارب ڈالر کے حصول کے لیے اتنی مجبوریاں، کہاںصرف ایک کمپنی اور صرف ایک جھٹکے سے پہنچنے والا نقصان 230 ارب ڈالر؟ کیا اس میں ہمارے سوچنے سمجھنے کے لیے کچھ موجود ہے؟ اگر بات اب بھی واضح نہ ہو پا رہی ہو تو ایک کام کیجیے۔ پاکستان کا اس سال کا بجٹ نکال لیجیے اور حساب کتاب کر کے دیکھیے کہ ہماری ریاست کا کل ترقیاتی بجٹ کتنا ہے ، تعلیم کے لیے کتنا مختص کیا گیا ہے ، دفاع کے لیے کتنی رقم رکھی گئی ہے، پھر اس سب کو جمع کیجیے اور مارک زکر برگ کے صرف تین ماہ کے نقصان کے ساتھ تقابل کر کے دیکھ لیجیے کہ ٹیکنالوجی کی یہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچتی جا رہی ہے اور ہم بطور معاشرہ کہاں کھڑے ہیں۔ فیس بک کیا ہے؟ ابلاغ کی دنیا میں ایک شخص کا قائم کردہ ایک ادارہ۔لیکن اس ادارے کا معاشی حجم اتنا زیادہ ہے کہ بہت ساری ریاستیں سالانہ بجٹ میں اس حجم کا تصور تک نہیں کر سکتیں۔کہاں ہم کہ ایک ارب ڈالر کے قرض کے حصول کو کامرانی لکھ رہے ہیں اور کہاں اکیلا زکر برگ کہ اس کو ملنے والا ایک معاشی جھٹکا ہمارے تازہ ترین قرض سے230 گنا زیادہ ہے۔یعنی ایک ریاست ایسا ہی قرض 230 بار لے تو یہ فیس بک کو پہنچنے والے ایک جھٹکے کے نقصان کے برابر ہو گا۔
ابلاغ پر اس ادارے کی اجارہ داری کا عالم یہ ہے کہ کمیونٹی سٹینڈرڈ کے نام پر اظہار رائے کا دائرہ کار سکڑتا چلا جا رہا ہے اور عالم یہ ہے کہ اب کوئی یہ دیکھنے کا تردد بھی نہیں کرتا کہ کہنے والے نے کہا کیا ہے۔ اب کسی کا گلاگھونٹنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے تحریر میں فلاں فلاں لفظ کیوں استعمال کر لیے۔ گزشتہ روز ہم پانچ فروری یعنی یوم کشمیر منا ریا ، گھٹن اتنی ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ کے طے کردہ اصولوں کے اندر رہتے ہوئے بھی بات کرنا مشکل ہو چکی ہے۔مثال کے طور پر کشمیریوں کو جو حق1949 کے جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول 1کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میں دیا گیا ہے ، آج اس کا تذکرہ کرنا مشکل ہے۔ذیلی دفعہ چار یہ اصول طے کر رہی ہے کہ حق خود ارادیت کے لیے اگر کوئی بندوق اٹھا لے تو اسے دہشت گردی نہیں کہا جائے گا۔یہ بین الاقوامی تنازعہ سمجھا جائے گا اور اس پر وہی قوانین لاگو ہیں جو ’ انٹر نیشنل آرمڈ کانفلیکٹ ‘ میں لاگو ہوتے ہیں۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3314 بھی کمیونٹی ا سٹینڈرڈز کے خلاف قرار دی جا چکی ہے کیونکہ اس میں بھی کشمیریوں کو مسلح جدوجہد کا حق دیا گیا ہے۔ جنرل اسمبلی کی ایک اوور قرارداد بھی کمیونٹی سٹینڈرڈز کے خلاف تصور کی جاتی ہے اور یہ ہے قرارداد نمبر 37/43۔اس میں کہا گیا ہے کہ حق خود ارادیت کی خاطر لڑنے والوں کو مسلح جدوجہد سمیت تمام دستیاب ذرائع استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔آج کوئی اس کا حوالہ دے اور مضمون باندھے کہ all available means including armed struggle سے کیا مراد ہے تو کمیونٹی سٹینڈرڈ کا کوڑا شام سے پہلے پہلے اس کے سر پر برس چکا ہو گا۔ یہ وہ چیلنج ہے جس کا ہم ادراک نہیں کر رہے اور بھارت کو واک اوور مل چکا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھارت کہاں سے کہاں پہنچ چکا اور ہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کھیل کو نوٹی فکیشن بھیج رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم صاحب کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر اولمپئین رشید الحسن جونئیر پر 10 سال کی پابندی لگا دی گئی ہے۔رشید الحسن بھی اگر ایک خط قائمہ کمیٹی کو بھیج دیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے معزز اراکین پارلیمان جو زبان ایک دوسرے کے بارے میں استعمال کرتے ہیں کیا وہ شائستہ ہے؟ اور اگر وہ بھی نازیبا ہے تو کیوں نہ ان سب پر بھی دس دس سال کے لیے اسمبلی تشریف لانے پر اور الیکشن لڑنے پر پابندی لگا دی جائے؟ ابلاغ کی دنیا میں امکانات کا ایک جہان آباد ہے لیکن ہمارے ہاں جب بھی غور ہوتا ہے اسی بات پر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کے گستاخوں کا ’ مکو‘ کیسے ٹھپا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا سے جڑے امکانات اور چیلنجز کا کسی کو احساس ہی نہیں۔ جب بھی کوئی فرمان جاری ہوتا ہے سوشل میڈیا سے گستاخی کے شکووں اور سرکوبی کی خواہش میں لپٹا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت اس میدان میں اجارہ داری قائم کر چکا ہے اور کمیونٹی سٹینڈرڈ میں اسی کی خواہشات غالب ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل موجود ہیں لیکن ان کا کام دوسروں پر کیچڑ اچھالنا ہے۔ کوئی مقصدیت نہیں۔ بس ایک میدان سا سجا ہے اور زبانیں ا?گ اگل رہی ہیں۔ ہمارے سیاسی شعور میں سوشل میڈیا کا یہی مطلب ہے۔ پاکستان سے بہت دور ایک پاکستانی انعام رانا نے مگر خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر ’ فیس لور‘ کی شکل میں سامنے ا? چکی ہے۔ انعام رانا کا کہنا ہے کہ ہم فیس بک کی بجائے فیس لور پر کم ا کم ایک دائرہ کار میں ہی سہی مگر کھل کر بات تو کر سکتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کاوش کس حد تک کامیاب ہوتی ہے لیکن انعام رانا کی ’فیس لور‘پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ عزیزہم وطنو ! میدان یہی ہے اور کرنے کا کام بھی یہی ہے۔بھلے اس کوہ کنی سے تمہارا زہرہ ا?ب ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اگر ہم سوشل میڈیا سے جڑے امکانات سمجھنا چاہیں تو فیس بک سے فیس لور تک ایک جہاں آباد ہے جو دعوتِ فکر دے رہا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ وجود جمعرات 09 مئی 2024
بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ

مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر