وجود

... loading ...

وجود
وجود

سستی بجلی۔ عمران خان فارمولا کس نے ناکام بنایا؟

جمعه 04 فروری 2022 سستی بجلی۔ عمران خان فارمولا کس نے ناکام بنایا؟

آصف محمود

سردیوں کے شروع میں عمران خان نے عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کی بات کی لیکن سردیوں نے رنگ جمایا تو بجلی سستی ہونے کی بجائے مہنگی ہوتی چلی گئی۔سوال یہ ہے کہ عمران خان کا منصوبہ کیا تھا اور یہ منصوبہ کن لوگوں نے کس طرح ناکام بنایا؟اعدادوشمار کے گورکھ دھندے اور فنی پیچیدگیوں سے ہٹ کر، آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پرانی بات ہے،پاکستان میں ایک زمانے میں لوڈ شیڈنگ کا جن بے قابو ہو گیا تھا۔ اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے گئے۔ ہمارے ہاں چونکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی صلاحیت ہے اور نہ ہی اس کے لیے سازگار ماحول ہوتا ہے ، یہاں حکومت آتی بعد میں ہے اس کے جانے کی تاریخیں دینے والے عالمی جاسوس نما سینئر تجزیہ کار پہلے میدان میںآجاتے ہیں۔ اس لیے ہر حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ لانگ ٹرم پالیسیوں کی بجائے فوری طور پر کچھ ایسا کر دکھایا جائے کہ واہ واہ ہو جائے۔ سماج کا بھی یہ سٹیمنا نہیں کہ وہ کسی لانگ ٹرم منصوبہ بندی کا متحمل ہو سکے۔ اسے بھی فوری نتائج چاہیے ہوتے ہیں چنانچہ معاشرے کی اسی بیمار نفسیات کے تحت ڈاکٹر’ سٹیرائڈز ‘دیتے ہیں تا کہ مریض فوری صحت یاب ہو جائے بھلے بعد میں اس کے گردے اور دل برباد ہو جائیں۔یہی کام حکومتیں کرتی ہیں کہ اگلے الیکشن سے پہلے پہلے کچھ ’ سٹیرائڈز‘ اس قوم کو دے دیا جائے۔ بھلے اس کے نتیجے میں بعد میں ستیاناس ہی کیوں نہ ہو جائے۔ چنانچہ ہم نے اس وقت کچھ پاور کمپنیوں سے معاملہ کیا۔ ہم مجبور تھے اور کمپنیوں کو ہماری مجبوری کا علم تھا۔چنانچہ ایسے معاہدے ہوئے کہ وقتی طور پر لوڈ شیڈنگ تو ختم ہو گئی لیکن ہمارا کباڑا ہو گیا۔ ان کمپنیوں نے کہا کہ ہم آپ سے صرف اس بجلی کے پیسے ہی نہیں لیں گے جو آپ استعمال کریں گے۔ بلکہ ہم آپ سے اس بجلی کے پیسے بھی لیں گے جو ہم پیدا تو کر سکتے ہوں گے لیکن آپ خریدیں گے نہیں۔ یعنی ان بجلی کی کمپنیوں نے ہم سے اپنی پیداواری صلاحیت کے مطابق پیسے لینا شروع کر دیے۔ اس کو سادہ ، سلیس اور دیسی اندازسے یوں سمجھ لیجیے کہ اگر پاکستان بجلی کے صرف پچاس یونٹ استعمال کر رہا تھا تو کمپنیوں نے کہا کہ ہم بل پچاس یونٹ کا نہیں لیں گے بلکہ ہم چونکہ سو یونٹ پیدا کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیںتو ہم تو پیسے سو ہی کے لیں گے۔ آپ کی مرضی آپ پچاس یونٹ خریدیں یا سو یونٹ خریدیں۔
ہم نے یہ شرط مان لی اور تب سے اب تک ہم ان کمپنیوں کو استعمال شدہ بجلی کی بجائے ان کی کل پیداواری صلاحیت کے مطابق بل ادا کر رہے ہیں۔ چاہے بجلی ہم لیں یا نہ لیں بل دیتے جا رہے ہیں اور یہ اربوں ڈالر کا معاملہ ہے چند کروڑ کی بات نہیں۔ یہاں تماشا یہ ہوا کہ ان کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت کا کسی کو علم ہی نہیں تھا۔ ہمارے پاس تو کوئی پیمانہ ہی نہیں تھا۔ ہماری ٹرانسمیشن لائنز ایک حد سے زیادہ بجلی کا بوجھ ہی نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ اب یہ ہوا کہ ان کمپنیوں نے جو سچ جھوٹ بتا دیا کہ ہم اتنی بجلی پیدا کر سکتی ہیں ہم نے اسے تسلیم کر لیا۔ کون سے پیسے کسی حکمران کی جیب سے جا رہے تھے۔ قومی خزانے کی بربادی تھی ، ان کی جانے بلا۔چنانچہ ہوا یہ کہ ہم نے بھلے چار یونٹ استعمال کیے ہوں،کمپنیوں نے کہ دیا کہ ہماری پیداواری صلاحیت تو ڈیڑھ ہزار یونٹ کی تھی، تو ہم نے ان کو ان کی اس مفروضے پر مبنی پیداواری صلاحیت کے مطابق بل دینا شروع کر دیا۔ معلوم انسانی تاریخ میں ایسی واردات کہیں ہوئی ہو تو بتائیے۔ اب جب یہ معاملہ عمران خان کے سامنے آیا تو انہوں نے کہا سردیوں میں ہم بجلی تو بہت کم استعمال کرتے ہیں لیکن ان کمپنیوں کو اتنی زیادہ ادائیگی کیوں کی جاتی ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ مجبوری ہے بجلی استعمال کریں یا نہ کریں، ہمیں ادائیگی ان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے مطابق کرنا ہو گی۔عمران خان نے کہا کہ اگر 10 یونٹ استعمال کر کے بھی بل 30 یونٹ کا دینا ہے تو کیوں نہ زیادہ سے زیادہ بجلی استعمال کر لی جائے۔ عوام سے جتنے پیسے دس یونٹ کے لیے جا رہے ہیں، بجلی سستی کر دی جائے تو اتنے ہی پیسوں میں وہ 30 یونٹ استعمال کر لیں گے۔ ان غیر ملکی کمپنیوں کو تو ایک خاص رقم دینی ہی دینی ہے تو کیوں نہ سردیوں میں بجلی سستی کر کے اس کا استعمال ز یادہ کر لیا جائے۔ یہ اس نئے منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا۔ اگلے مرحلے میں یہ ہونا تھا کہ اگر کمپنیاں پیداواری صلاحیت کے مطابق پیسے لیتی ہیں۔ تو ان کی ساری پیداواری صلاحیت کو کھپایا جا سکے۔اور یہ نہ ہو کہ دس روپے کی بجلی استعمال کر کے تیس روپے کی ادائیگی کی جائے۔چنانچہ وزیر اعظم نے سردیوں کے لیے بجلی سستی کرنے کا عندیہ دے دیا۔ لیکن حیران کن طور پر ہوا یہ کہ چند روز بعد ہی بجلی مزید مہنگی کر دی گئی۔سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ اس سوال کے جواب میں صرف حیرت ہے اور اندازے ہیں۔ چونکہ کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت کی کہانی ایک مفروضہ ہے، تو ہو سکتا ہے وہ اور ان کے کارندے بھی بروئے کار آئے ہوں کہ کہیں سچ مچ پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی نہ دینی پڑ جائے۔چونکہ واپڈا کے پاس ٹرانسمیشن لائنز کی یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی کی ترسیل کر سکیں تو شاید انہوں نے بھی کمالات دکھائے ہوں۔ کچھ نادیدہ ’ بینیفشریز‘ بھی ہوتے ہیں کچھ کمالات ان کے بھی ہوں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ عمران خان فارمولا ناکام ہو گیا۔ اور ’کھائو پیو‘پروگرام جیت گیا۔ اس پر عمران خان کی خاموشی بتا رہی ہے کہ وہ بھی بے بس ہو گئے ہیں یا انہیں بھی ‘ بابو لوگوں ‘ کی جانب سے قائل کر لیا گیا ہے کہ اس کے سوا اب کوئی راستہ نہیں۔
عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ بائیس سالہ جدوجہد کے ماہ و سال تو ان کے ہمراہ ہیں لیکن ان کی اپنی ٹیم کہیں نہیں ہے۔ نہ معیشت میں،نہ ابلاغ میں ،نہ قانون و انصاف میں ، نہ ہی بجلی میں۔وہ کپتان تو بن گئے ہیں لیکن ان کی ٹیم میں نہ کوئی میانداد ہے ، نہ وسیم اکرم ، نہ کوئی عاقب جاوید ہے نہ انضمام الحق۔یہی نہیں معاملہ یہ بھی ہے کہ وہ کرکٹ کے کپتان تھے تو کرکٹ کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا، اب وہ وزیر اعظم ہیں لیکن امور ریاست پر ان کی وہ گرفت نہیں ہے۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے وہ کبھی کسی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نہیں گئے۔کسی قائمہ کمیٹی کی سربراہی نہیں کی۔ پارلیمانی امور سے لاتعلق رہے۔ یہ ایک تجربہ گاہ تھی ، مگر عمران خان اس سے لاتعلق رہے۔نتیجہ سامنے ہے۔یا شاید اب کی بار ان کی منزل مقصود بھی ورلڈ کپ کی بجائے صرف کپتانی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر