وجود

... loading ...

وجود
وجود

سیاچن محاذ پر نئی دہلی کی بڑھتی ہوئی مشکلات

جمعرات 03 فروری 2022 سیاچن محاذ پر نئی دہلی کی بڑھتی ہوئی مشکلات

دنیا کے سب سے بلند ترین اور یخ بستہ محاذ ِ جنگ سے افواج بلانے کی بات تو دنیا نے سب سے پہلے پاکستان کے سفارتی حلقوں کی جانب سے سنی تھی اور پاکستانی حکام نے مختلف عالمی فورمز پراپنے اس دو ٹوک موقف کو اتنی بار دہرایا تھاکہ بالآخر عالمی ماحولیات کے تحفظ کے ذمہ دار ادارے بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے کہ سیاچن گلیشئر پر تما م تر عسکری مہم جو ئی کا اگر کوئی ایک ملک مجرم قرار دیا جاسکتاہے تو وہ صرف اور صرف بھارت ہے۔ جبکہ پاکستانی افواج اپنے ملک کی سرحدکے دفاع کے لیئے بحالتِ مجبوری سیاچن پر موجود ہیں ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں جیسے جیسے عالمی ماحولیات کی صورت حال دگرگوں ہونے کی خبریں تواتر کے ساتھ عالمی ذرائع ابلاغ پر آنا شروع ہوئی ،ویسے ویسے عالمی اداروں کی جانب سے بھی بھارت پر دباؤ بڑھنا شروع ہوگیا کہ وہ اپنی افواج کو سیاچن گلیشئر سے نیچے اُترنے پر مجبور کرے ۔ یہ اس دباؤ کی انتہائی صورت ہی ہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی افواج کے سربراہ نے سیاچن گلیشئر سے بھارتی اور پاکستانی افواج واپس بلانے کی پاکستانی تجویز کے جواب میںپہلی بار مثبت مگر مشروط جواب دیتے ہوئے ہوے کہاہے کہ ’’ اگر پاکستان بھارت کی پیش کردہ شرائط کومن و عن تسلیم کرلے تو بھارت سیاچن سے اپنی افواج کو واپس میدانی علاقوں کی بیرکوں میں بلوالے گا‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت نے سیاچن گلیشئر سے فوجی انخلاء کی پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی تجویز کو قبول کرنے کے لیے جو شرائط پیش کی ہیں ، وہ پاکستان کے لیے کسی بھی صورت قابل ِ قبول نہیں ہوسکتیں ۔مثال کے طور پر بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکندانر نے اپنی سالانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ ہم سیاچن کو غیر عسکری بنانے کے مخالف نہیں ہیں، لیکن اس کے لیے پیشگی شرط یہ ہے کہ پاکستان کو ایکچوئل گراؤنڈ پوزیشن لائن یعنی اے جی پی ایل کو قبول کرنا ہو گا‘‘۔ واضح رہے کہ ایکچوئل گراؤنڈ پوزیشن لائن دراصل وہ لکیر ہے جو سیاچن گلیشیئر پر پاکستانی اور انڈین افواج کی موجودہ پوزیشنز کی نشاندہی کرتی ہے۔ 110 کلومیٹر طویل اس لائن کا آغاز پاکستان اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے شمال میں آخری پوائنٹ سے ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان کے لیے یہ مطالبہ منظور کرنا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ سیاچن گلیشئر مکمل طور پر پاکستانی ملکیت ہے اور اس گلیشئر کے جس علاقے کو بھارت اپنے قبضہ میں رکھ کر مستقل سرحد قرار دینے پر بضد ہے ۔ یہ ہی پاکستانی علاقہ تو بھارت نے 1984 میں سیاچن گلیشئر پر اپنی افواج اُتار کر حاصل کیا تھا ۔ لہذا پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ بھارت کو 1984 سے قبل والی پوزیشن کو قبول کر کے سیاچن گلیشئر سے مکمل طور پر اپنی افواج کا انخلاء یقینی بنا نا ہو گا ، تب ہی پاکستان بھی سیاچن گلیشئر سے اپنی افواج کو واپس بلانے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرے گا ۔
کیونکہ سیاچن گلیشئر درحقیقت پاکستان کا حصہ ہے اور دنیا کے تمام نقشوں میں اسے پاکستانی علاقے میں دکھایا گیا ہے۔نیز دنیا بھر سے جتنی بھی
کوہ پیما ٹیمیں اس علاقے کی چوٹیاں سر کرنے آئیں، ان سب نے حکومت پاکستان سے ہی اجازت نامہ حاصل کیا تھا کیوں کہ سیاچن گلیشئر کو پاکستان کا ہی حصّہ سمجھا جاتا ہے۔پاکستان کی طرف سے سیاچن گلیشئر جانے کے لیے گلگت سے ا سکردو اور ا سکردو سے آگے ”ڈم سم” کے علاقے کی طرف جانا پڑتا ہے۔ لیکن 1984 میں انڈیا کی فوج نے اس علاقے پر اچانک سے قبضہ کرلیا تھا جس کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان رابطے کو کاٹنا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس بلند ترین جگہ سے بھارت کا قبضہ ختم کرانے کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے درمیان میں کئی مرتبہ بات چیت ہو چکی ہے جس میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی شامل ہے، لیکن ہنوز اس تنازع کا کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔ویسے تو بھارت اور پاکستان کے مابین اس علاقے میں اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں لیکن جنگ کے مقابلے میں سیاچن کا سخت سرد موسم دونوں ممالک کی افواج کے لیئے زیادہ خطرناک اور مہلک ثابت ہوا ہے۔ 2012 میں سیاچن کے گیری سیکٹر میں برفانی تودے تلے دب کر شہید ہوجانے والے 140 فوجیوں کی شہادت پاکستان کے لیئے ایک بڑا سانحہ تھا۔
دوسری جانب سیاچن کے بلند ترین محاذ پر بھارتی افواج پاکستانی افواج کے مقابلے میں کم و بیش دس گنا زیادہ جانی نقصان اَب تک برداشت کر چکی ہے۔یاد رہے کہ بھارتی افواج کے زیادہ جانی نقصان اُٹھانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاچن محاذ پر بھارتی افواج ایک سے سات یا ایک سے دس کے تناسب سے تعینات کی گئی ہے ۔ یعنی ہر پاکستانی فوجی کے مقابلے میں سات یا پھر دس بھارتی سپاہی سیاچن میں موجود ہیں ۔ سیاچن گلیشیئر پر گرمیوں میں بھی درجہ حرارت منفی دس کے قریب رہتا ہے۔ جبکہ سردیو ں میں منفی پچاس ڈگری تک جاپہنچاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں سال بھر کسی قسم کی زندگی کے پنپنے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ جو فوجی وہاں تعینات ہوتے ہیں ان کے لیے اس درجہ حرارت پر کھانا پینا ہی نہیں سانس لینا تک ایک انتہائی دشوار کام ہے۔
واضح رہے کہ سیاچن کا وہ آخری میدان جہاں پاکستانی افواج کے سپاہی مادرِ وطن کے دفاع کے لیے ہمہ وقت چوکسی کے ساتھ کھڑے ہیں ،وہاں پیش آنے والی مشکلات کو الفاظ میں رقم کرنا کتنا مشکل ہے ۔ اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگالیا جائے کہ سیاچن کے ابتدائی مقام تک پہنچنا بھی ایک عام آدمی کے لیئے کارِ محال سے کم نہیں ہے ۔ کیونکہ ٹھنڈی اور یخ بستہ ہواؤں کی موجودگی میں سیاچن کا سفر اتنا مشکل ہے کہ منزل تک پہنچتے پہنچتے کئی دن اور کئی راتیں لگ جاتی ہیں۔جبکہ سیاچین کی چوٹیوں پر بغیر آکسیجن ماسک نہیں جایا جا سکتا اور وہاں تک جانے کے لیے ماسک کے علاوہ خصوصی لباس بھی درکار ہوتا ہے۔جس میں بھاری بھر کم لباس، ہیلمٹ اور خاص جوتے شمال ہوتے ہیں۔
دراصل سیاچن میںمنفی 40 درجہ حرارت پر جسم کا کوئی بھی حصّہ ننگا کرنے کا مطلب یقینی موت ہے اور فقط چند گھنٹے منفی 40، 50 درجہ حرارت میں چلنے سے پاؤں مکمل طور پر شل ہو جاتے ہیں اور پھر پاؤں کاٹنے کے سوا کو چارہ نہیں رہ جاتا۔سیاچن کے جس میدان میں پاکستانی سپاہی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں ، اُس کے بار میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود وہاں 20 دن سے زیادہ زندہ نہیں رہا جا سکتا۔شاید اسی لیے وہاں 20 دنوں کے بعد نئے فوجی کمک بھجوائی جاتی ہے لیکن اس احتیاط کے باوجود ان میں سے بھی بہت سے فوجی’’سنو بائیٹ‘‘کا شکار ہو جاتے ہیں۔یاد رہے کہ’’ سنو بائیٹ‘‘ کا مطلب ہے کہ اتنی سردی کی شدّت میں ہاتھ بغیر دستانے اگر کسی چیز کو چھو جائے تو وہاں کا دوران خون رک جاتا ہے اور مذکورہ شخص یوں لگتا ہے کہ جیسے اُس کا خون جم گیا اور ہاتھ سُن ہو گیا ہے۔ اس کفیت کو جدید طبی اصطلاح میں’’ سنو بائیٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔’’سنو بائیٹ‘‘ کا شکار ہونے والے انسانی جسم کا عضو یکسر بے کار جاتاہے اور بالآخر اسے کاٹنا ہی پڑتاہے۔
سیاچین بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سیاہ گلاب یا جنگلی گلاب اور یہ تو قارئین جانتے ہی ہوں گے کہ گلیشئر برفانی تودے کو کہا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے سیاچن گلیشئر کا لفظی مطلب ہوا ’’جنگلی گلابوں والا برفانی تودہ‘‘۔70 کلومیٹر لمبے اور4.8 میٹر چوڑے اس وسیع و عریض گلیشئر پر کوئی انسانی آبادی نہیں ہے۔ سیاچین دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سے 70 کلومیٹر جنوب مشرق میں پاک چین سرحد پر واقع درہ اندرہ کول سے شروع ہوتا ہے اور جنوب مشرق کی سمت سالتورہ رینج کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے ہوئے لداخ کے قریب مقبوضہ کشمیر میں واقع رنگزلما نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب دریائے نبرا پر ختم ہوجاتاہے۔ چونکہ سیاچن کے آخری سرے وادی لداخ پر چینی افواج قابض ہے اور ابتدائی مقام پر پاکستانی افواج موجود اس نئی صورت حال میں بھارتی افواج مکمل طور پر دو اطراف سے گھیری جاچکی ہے۔ بعض عسکری ماہرین کو تو یہ بھی خیال ہے اگر چین اور پاکستان کرلیں تو وہ سیاچن پر موجود بھارتی افواج کے ایک ہلہ میں جہنم رسید کرسکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ نئی دہلی تک اس کی اطلاع کئی ہفتے گزرنے کے بعد پہنچے ۔جیسا کہ وادی لداخ میں چینی افواج کی عسکری کاروائی کے نتیجے میں ہوا تھا۔
سچی بات یہ ہے کہ ’’جنگلی گلابوں والا برفانی تودہ ‘‘ یعنی سیاچن گلیشئر کو بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے سخت نقصان پہنچ رہا ہے اور ماہرین موحولیات کے مطابق یہاں جنم لینے والی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آبی حیات اور جنگلات پر پڑنے والے مہلک اثرات کے ساتھ ساتھ گلیشئر بھی بڑی تیزی کے ساتھ پگھل رہاہے۔ جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے کئی علاقے شدید سیلاب کی زد پر ہیں ۔مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک جدید تحقیق کے مطابق سیاچن گلیشئر کا تقریباً نصف حصہ پگھل چکا ہے۔یعنی سیاچین گلیشیئر جو کبھی ڈیڑھ سو کلو میٹر طویل تھا اب سکٹر کر صرف آدھا رہ گیا ہے۔سیاچن گلیشئر کو بچانے کا واحد راستہ وہی ہے جو پاکستان بے شمار بار عالمی برادری کو دکھاچکا ہے ۔ یعنی بھارت اور پاکستان کی افواج غیر مشروط طورپر 1984 سے قبل والی پوزیشن پر لوٹ جائیں اور سیاچن گلیشئر کو ایک بین الاقوامی ’’امن پارک ‘‘ میں تبدیل کردیا جائے ۔ مگر نئی دہلی کا جنگی جنون اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر