وجود

... loading ...

وجود
وجود

طالبان ناروے میں

منگل 01 فروری 2022 طالبان ناروے میں

ارشادمحمود

نارویجن حکومت کے ایک خصوصی طیارے میں طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد ہنستا کھیلتا اوسلو ائیرپورٹ اترتاہے۔یہ منظر بہت دلچسپ اور دیکھنے کے لائق تھا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے انہی طالبان کو دنیا منہ لگانے کو تیار نہ تھی۔ دارلحکومت اوسلو کے نواح میں ایک ہوٹل میں طالبان وفد کی موجودگی پر نارویجن ہی نہیں بلکہ یورپین پریس نے بھی سخت نکتہ چینی کی۔حتیٰ کہ اس دورے کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر سٹوئر نے تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا: کہ افغانستان میں انسانی بحران کے موضوع پر طالبان وفد کی افغان سول سوسائٹی کے رہنمائوں اور مغربی سفارت کاروں کے ساتھ مذاکرات سنجیدہ اور ضروری تھے۔اطلاعات کے مطابق بندکمرے میں طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرت کا مرکزی موضوع افغان خواتین کے لیے تعلیم، موجودہ حکومت میں دیگر سیاسی گروہوں کی شمولیت سمیت کئی ایک ایسے موضوعات تھے جو عمومی طور پر مغربی پریس کا پسندیدہ موضوع ہیں لیکن براہ راست طالبان کے ساتھ کوئی بھی ان موضوعات پر بات نہیں کرتاتھا۔ نارویجن سرزمین پر سرکاری میزبانی سے لطف اندوزہونے والے طالبان وفد کی قیادت وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کی۔ طالبان وفد کے ارکان نے دورے کے پہلے روز افغان سول سوسائٹی کے ارکان سے ملاقات کی جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اگلے دو دن انہوں نے امریکا، یورپی یونین، برطانیا، فرانس اور اٹلی کے سفارت کاروں کے ساتھ کثیر الجہتی موضوعات پر گفتگو کی۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف نہیں قراردیاجاسکتا لیکن یہ اس جانب ایک قدم ضرور ہے۔ طالبان کو بھی موقع ملا کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں۔ فریقین ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے آگاہ ہوں۔ طالبان وفد نے امریکا، فرانس، برطانیا، جرمنی، یورپی یونین اور ناروے کے سفیروں سے ملاقات کے بعد کہا کہ ناروے نے ہمیں دنیا کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے کا موقع دیا۔طالبان کے وزیرخارجہ امیر خان متقی نے جو خوشی سے نہال ہورہے تھے میڈیا کو بتایا کہ ان کا دورہ بہت کامیاب رہا۔ مغربی دنیا کے ساتھ ان کا یہ براہ راست پہلا منظم مکالمہ تھا۔متقی کو توقع ہے کہ اس رابطے سے افغانوں کے لیے تعلیم ، صحت اور معاشی امداد کی بحالی کی راہ ہموار ہو گی۔
یاد رہے کہ عالمی برادری نے طالبان کے کابل پر قبضے کے فوری بعد تمام تر امدادی سرگرمیاں بند کردی تھیں۔ یورپی یونین کے سفیر کو اس ملاقات سے امید لگی کہ موسم سرما گزرنے کے بعد طالبان طالبات کے لیے تعلیمی ادارے کھول دیں گے۔ مغرب کو ایک عجیب مخمصے کا سامنا ہے۔وہ طالبان کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتاہے کیونکہ وہ افغانستان کی ایک زندہ حقیقت ہیں لیکن ساتھ ساتھ اسے طالبان کے فکری یا نظریاتی پالیسیوں سے سخت اختلاف ہے۔ وہ اس خدشہ کو حقیقت کا روپ اختیا رکرتادیکھ رہے ہیں کہ اگر افغانستان کی امداد بحال نہ کی گئی تو لاکھوں لوگ خوراک اور ادویات کی کمی کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی برادری کو مسلسل متوجہ کررہے ہیں کہ وہ افغانستان کے لیے $4.4 ارب ڈالر امداد فراہم کریں۔ جان لیوا موسم سرما سے افغانوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے بے شمار بین الاقوامی ادارے عالمی برادری سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ افغانوں کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کرے۔ عام افغان شہریوں کو سیاسی اختلافا ت کی بنیاد پر سزا نہ دی جائے۔ دوسری جانب عالمی برادری کے سامنے طالبان ہنگامی مالی امداد خاص طور پر خوراک اور ادویات کے لیے مسلسل دست تعاون داز کررہے ہیں لیکن وہ مغرب کی طرف سے سامنے آنے مطالبات مثلاًخواتین کے حقوق اور کثیر الجماعتی حکومت کے قیام پر سنجیدہ نہیں۔ ناروے اگرچہ کوئی بڑا یا عسکری طور پر طاقت ور ملک نہیں لیکن کئی دہائیوں سے اس کی لیڈرشپ عالمی معاملات بالخصوص تنازعات کے حل میں قائدانہ کردار ادا کرتی آئی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مذاکرات کا ڈول انہوں نے ہی ڈالاتھا۔ اوسلو معاہدہ نارویجن کی کوششوں سے ہوا۔
سری لنکن تامل جنگجوئوں اور حکومت کے مابین بھی کسی عشروں تک مسلح تنازعہ چلتارہا۔ ناروے وہاں بھی امن بحال کرانے، فریقین کے درمیان اعتماد کی بحالی اور معاہدہ کرانے کے لیے سرگرم رہا۔ اب افغانستان میں ان کی دلچسپی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ناروے کے کوئی لمبے چھوڑے سیاسی یا عالمی عزائم نہیں۔ وہ امن سے محبت کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے اس نے کئی ایک ادارے بھی بنائے ہیں۔چونکہ ناروے ایک امیر ملک ہے، اس لیے وہ آسانی کے ساتھ اس طرح کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے وسائل بھی خرچ کرنے کے قابل ہے۔ ناروے ہی کی طرح قطر نے بھی امن اور علاقائی استحکام کے لیے کام کرکے دنیا میں بڑا نام کمایا ہے۔ امریکاکے ساتھ طالبان کے مذاکرات کرانے میں اس کے کلیدی کردار کو دنیا نے سراہا۔ اب بھی قطر افغانستان کے حوالے سے سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ لیکن وہ اپنی کوششوں اور کامیابیوں کا زیادہ چرچا نہیں کرتا۔ ناروے اور قطر جیسے ممالک کا آج کی دنیا میں دم غنیمت ہے۔ کیونکہ بڑی طاقتیں عمومی طور پر جنگ وجدل یا پھر ہاروجیت کے پیرائے میں گفتگو کرتی ہیں۔ دنیا میں ایسے ممالک اور تنظیموں کی اشد ضرورت ہے جو خالصتاً انسانی ہمدرد ی کی بنیاد پر تنازعات کے حل میں مدد کریں۔بدقسمتی سے مغربی ممالک جو انسانی حقوق کے بہت بڑے علمبردار ہیں جب ان کے معاشی مفادات کا اصولی موقف کے ساتھ ٹکراو? ہوتاہے تو وہ اندھے، گونگے اور بہرہ بن جاتے ہیں۔بقول وزیراعظم عمران خان کے وہ مقبوضہ کشمیر کا ذکر گول کرجاتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے ان کی فکرمندی قابل تحسین ہے لیکن بھارت اور مشرق وسطیٰ کے کئی ایک ممالک میں خواتین کے ساتھ سرکار کے سلوک پر ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ طالبان کے ساتھ ناروے نے مذاکرات کی ایک کھڑکی کھولی ہے۔ امید ہے کہ طالبان اس موقع کو ضائع نہیں کریں گے اور مکالمے کے ذریعے سفارتی میدان میں مزید کامیابیاں حاصل کریں گے۔ یہ کامیابیاں محض زبانی جمع خرچ سے نہیں بلکہ ٹھوس عملی اقدامات سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر