وجود

... loading ...

وجود
وجود

''کسان ،ٹریکٹر ،ٹرالی ریلی ''کی بھی ایک پہیلی ہے

جمعرات 27 جنوری 2022 ''کسان ،ٹریکٹر ،ٹرالی ریلی ''کی بھی ایک پہیلی ہے

بلاشبہ پاکستانی سیاست میں کسانوں کے بنیادی حقوق کو سب سے پہلے اپنے جماعتی منشور کا حصہ بنانے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی ہی تھی ۔یا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں پاکستان کے کسان اپنے دیرینہ مسائل کے حل اور حقوق کے حصول کے لیئے جس واحد سیاسی جماعت پرہمیشہ سے اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے آئے ہیں ،اُس جماعت کے نامِ نامی کے طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے سوا کوئی دوسرا ،نام لیا ہی نہیں جاسکتا ۔ ہماری ناقص رائے میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا سیاسی کارنامہ ہی ،یہ تھا کہ انہوں نے روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ملک کی بیشتر دیہی آبادی کو کمال سیاسی مہارت سے اپنی جانب متوجہ کیا اور بعد ازاں اُن کی اسی غریب پرور طرزِسیاست نے ”مسٹر بھٹو” کو طبقہ اشرافیہ کا ایک اہم اور کلیدی کردار ہوتے ہوئے بھی ”قائد عوام ” کے جلیل القدر عوامی منصب پر لا بٹھایا ۔
اس لیئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر پاکستان پیپلزپارٹی کو پاکستانی کسان کی جانب سے بے پناہ سیاسی حمایت اور غیر معمولی مقبولیت حاصل نہ ہوپاتی تو اس جماعت کے لیئے اقتدار کی راہ داریوں تک پہنچ پانا ،ناممکن نہیں بہت مشکل ضرور تھا۔ چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اقتدار تک پہنچانے میں سب سے بڑا محرک کسان ثابت ہوئے تھے ، اس لیئے شہید ذوالفقار علی بھٹو جب تک حیات رہے انہوں نے اپنی تما م تر سیاست کا مرکز و محور ملک کے دیہی علاقوںکو بنائے رکھا۔نیز بعدازاں اُن کی صاحب زادی شہید بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے ہر دورِ اقتدار میں کسانوں کی فلاح و بہبود اور انہیں زیادہ سے زیادہ معاشی آزادی بہم پہچانے کے بے شمار نت نئی حکومتی پالیسیاں متعارف کروانے کا سلسلہ بدستور جاری رکھا۔ جن کے فوائد براہ راست یا بلاواسطہ کسی نے کسی حد تک ہر کسان کی دہلیز تک وقتا فوقتا پہنچتے بھی رہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دوردراز دیہی علاقوں میں آج بھی ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی صاحب زادی کے دورِ اقتدار کو حسرت و یاس کے ساتھ یاد کیا جاتاہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور کسان کے مابین یہ” سیاسی رومان” شہید بے نظیر بھٹو کے اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا اور اَب تو پاکستان پیپلزپارٹی میں کسی کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ ”کبھی کسان بھی پیپلزپارٹی کے سینے میں دل کی ماننددھڑکتے تھے”۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ رواں ہفتے جب پیپلزپارٹی نے کسان ،ٹریکٹر ،ٹرالی ریلی نکالی تو ، اُسے دیکھ کر ایک بار پھر سے بھولی بسری سی پرانی یادیں تازہ ہوگئیں کہ ”اخاہ ! یہ تو وہی سیاسی جماعت ہے ،جس کی داغ بیل کبھی کسانوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے ڈالی تھی”۔حالانکہ ”کسان ، ٹریکٹر، ٹرالی ریلی ”میں کسانوں کا وہ ہجوم دکھائی نہیں دیا، جو کبھی ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے جلسے، جلوس اور ریلیوں میں نظر آیا کرتا تھا۔ بہرحال پھر بھی یہ ایک بڑی بات ہے ایک طویل مدت بعد ہی سہی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو کسانوں کی یاد تو آئی اور جواب میں کسانوں نے بھی غیر معمولی نہ سہی لیکن کافی بھرپور انداز میں ”کسان ، ٹریکٹر ،ٹرالی ریلی ” میں شرکت کر کے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنی دیرینہ وابستگی کا ثبوت دیا۔
بظاہر پیپلزپارٹی کی جانب سے ”کسان ،ٹریکٹر ، ٹرالی ریلی ” وفاقی حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج نکالی گئی تھی ، لیکن اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے نزدیک ملک گیر کسان ریلیاں نکالنے کا یہی ایک مقصد تھا تو پھر معذرت کے ساتھ ”کسان ،ٹریکٹر،ٹرالی ریلی” کے نکالنے کا جواز صوبہ سندھ میں تو بالکل بھی نہیں بنتا تھا ۔کیونکہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا نام و نشان تک بھی نہیں پایا جاتااور یہاں گزشتہ 12 برس سے پیپلزپارٹی بلاشرکت ِ غیرے اقتدار پر متمکن چلی آرہی ہے ۔بلکہ حالیہ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کو دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل ہے ۔ سندھ میں اتنا مستحکم ، مضبوط اور طویل اقتدار کی موجودگی میں کسانوں کے حقوق کے لیے احتجاجی ریلی نکالنا ، چہ معنی دارد۔جبکہ اگر سندھ حکومت چاہے توسندھ کے کسانوں کے مبینہ معاشی استحصال اور نقصان کا ازالہ اٹھارویں ترمیم کو بروئے کار لا کر یعنی اربوں روپے کی سبسڈی دے کر باآسانی کرسکتی تھی۔
ہاں اگر پیپلزپارٹی ”کسان ٹریکٹر، ٹرالی ریلی ”کا احتجاج کر کے مقتدر حلقوں کے سامنے اپنی سیاسی طاقت اور عوامی مقبولیت کا اظہار کرنے چاہتی تھی تو بلاشبہ اُس نے یہ ہدف کم ازکم سندھ کی حد تک تو کامیابی کے ساتھ حاصل کرہی لیا ہے۔جبکہ دیگر صوبوں میں پیپلزپارٹی کی طرف سے جتنی بھی ”کسان ٹریکٹر ، ٹرالی ریلیاں ” نکالی گئی ہیں ، اُن میں عوام کی دلچسپی اور شرکت نہ ہونے کے برابر ہی کہی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر صوبہ پنجاب میں جہاں کے دیہی علاقوں میں پیپلزپارٹی کو کبھی مقبول ترین سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل تھا، آج اگر وہاں کا کسان پیپلزپارٹی کے احتجاج میں شرکت سے گریزاں دکھائی دیتا ہے تو یقینا اس متعلق پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو سنجیدگی سے غورو فکر کرنا چاہئے۔
دوسری جانب 27 فروری سے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین جناب بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے خلاف ملک گیر لانگ مارچ یا کسان مارچ نکالنے کا اعلان بھی کیا ہواہے۔لہٰذا، اس تناظر میں بھی ”کسان ،ٹریکٹر ، ٹرالی ریلی ” کو سیاسی حلقوں میںایک بڑی سیاسی ایکٹیویٹی کے طور پر دیکھا جارہاہے۔ یعنی مذکورہ ”کسان ،ٹریکٹر ،ٹرالی ریلی” کو وفاقی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف متوقع ملک گیر لانگ مارچ سے پہلے اپنے کارکنان میں سیاسی تحرک پیدا کرنے کی ایک بھرپور اور اچھی کاوش قرار دیا جاسکتاہے۔ گو کہ ایک دن کی ”کسان ٹریکٹر ،ٹرالی ریلی ” سڑک پر نکل آنے سے غریب کسان کے احوال میں ذرہ برابر تبدیلی کی اُمید رکھنا بھی سراسر بے وقوفی ہوگی ۔مگر پھر بھی کسانوں کے حقوق کے نام پر ریلی نکلنے سے یہ تاثر تو ملک کے سیاسی اُفق پر ضرو نمایاں ہوا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ابھی تک کسانوں کو مکمل طورپر فراموش نہیں کیا ہے اور آئندہ بھی جب اُنہیں مقتدر حلقوں کے روبرو اپنی احتجاجی قوت کی نمائش مقصود ہوگی تو اس کے حصول کے لیے کسانوں کو احتجاج کے لیے پکارلیا جائے گا اور کسان بھی کھیتی باڑ ی چھوڑ کر اپنی اپنی ٹریکٹر ، ٹرالیوں پر سوار ہوکر کشاں کشاں احتجاج میں شرکت کے لیے نکل پڑیں گے۔ پاکستانی سیاست کی کہانی میں بے چارے کسانوںکا بس اتنا سا ہی تو کردار رکھا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر