وجود

... loading ...

وجود
وجود

مسلم خواتین پر کیچڑاچھالنے والوں سے ایک سوال

پیر 10 جنوری 2022 مسلم خواتین پر کیچڑاچھالنے والوں سے ایک سوال

فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا اب اس ملک میں کوئی جرم نہیں رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر سرچڑھ کر بول رہا ہے۔حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔شرپسندوں کے ساتھ حکومت کی نرم روی کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک گھناؤنا جرم انجام دیا جارہا ہے۔حکومت یا تو غفلت میں ہے یا پھر اس نے جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تاکہ اس کے سیاسی ایجنڈے کو تقویت حاصل ہو۔ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ اتحاد کو آج جتنا بڑا چیلنج درپیش ہے، اتنا اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔فرقہ پرست اور فسطائی ٹولے کی شرمناک حرکتوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی مہذب سماج میں نہیں بلکہ وحشی درندوں کے درمیان جی رہے ہیں۔ تہذیب و شائستگی اور اخلاقی قدروں کو اس طرح روندا جارہا ہے، گویا ان کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان کروٹیں لے رہا ہے اوران کو ملیا میٹ کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔بزدلی کی انتہا یہ ہے کہ اب فسطائی عناصر نے مسلم خواتین کی عزت وقار سے کھلواڑ کرنا شروع کردیا ہے۔ سرکردہ مسلم خواتین کی نیلامی کے بازار سجائے جارہے ہیں۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کرنے والے گروہ کا کلیدی ملزم اسی اتراکھنڈریاست سے گرفتار ہواہے، جہاں پچھلے دنوں ’دھرم سنسد‘ میں مسلمانوں کو نسل کشی کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ اتراکھنڈ میں بی جے پی سرکار ہے اور اس نے ابھی تک مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے سادھوؤں پرکوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے۔حکومت کی شہ پر ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو طوفان اٹھایاگیا ہے، اس کے سنگین نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔مذہبی جنونیوں کا کھیل شرمناک حدوں میں داخل ہوچکاہے۔ مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔مسلم دشمنی کا کاروبارکرنے والوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور اسی چھوٹ کا نتیجہ ہے کہ زہر کی مقدار مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔ چھ ماہ قبل بھی ’سلی ایپ‘ کے ذریعہ سرکردہ مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کا بازار سجایا گیا تھا۔ اس شرمناک حرکت کے خلاف دہلی اور یوپی پولیس نے ایف آئی آرتودرج کی تھی، مگر چھ ماہ گزرنے کے باوجود پولیس نے مجرموں تک پہنچنے کے لیے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا۔ پولیس کی اسی غفلت سے حوصلہ پاکر’سلی ایپ‘ بنانے والوں نے اب ’بلی بائی‘ ایپ کو زیاد ہ اشتعال انگیز رنگ دیا ہے۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں سرگرم سرکردہ مسلم خواتین کی تصویروں کو ہیجان خیز بناکرنیلامی کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ کام ان ہی لوگوں کی شہ پر کیا گیا ہے، جو اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سیاسی کاروبار کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اگر شیوسینا کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی ممبئی پولیس میں شکایت درج نہ کراتیں تو اب بھی شاید مجرموں کی گرفتاری عمل میں نہیں آتی۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بی جے پی راج میں مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ جن جن صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں مسلمانوں کا جینا حرام کردیا گیا ہے اور انھیں دوئم درجے کا شہری بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ان ریاستوں میں ایسے تمام عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے جو مسلمانوں کی زندگی میں خلل ڈالنے اور انھیں روئے زمین پر ایک بوجھ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان کوششوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کریں‘ تاکہ ان کے قدم اکھڑجائیں اور وہ فسطائی طاقتوں کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجائیں۔لیکن ایسا کرنے والوں کو اس بات کا شاید علم ہی نہیں ہے کہ یہ وہی مسلمان ہیں جو آزادی کے بعدسے لگاتار اس ملک میں ایسے حالات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ملک کی تقسیم کے دوران انھوں نے وہ وقت بھی دیکھا جب زندہ رہنے کے تمام راستے بند کردیے گئے تھے۔ جن مسلمانوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی سپر نہیں ڈالی، وہ آج مٹھی بھر شرپسندوں کے آگے کیسے سرنگوں ہو سکتے ہیں۔ ان کا سر صرف اپنے خدا کے آگے جھکتا ہے، جو وحدہ لاشریک ہے۔
سرکردہ مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کا واقعہ ایک ایسی حکومت کی ناک کے نیچے پیش آیا ہے،جو خواتین کو بااختیار اور محفوظ تر بنانے کی دعویدار ہے۔ ’بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ‘جس کا محبوب نعرہ ہے۔ جس نے تین طلاق کے خلاف قانون سازی کرکے خود کو مسلم خواتین کا سب سے بڑا چمپئن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیراعظم اپنی تقریروں میں بار بار اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ انھوں نے طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی کرکے مسلم خواتین کو سر اٹھاکر چلنے کا موقع فراہم کیا ہے، لیکن جب ان ہی مسلم عورتوں کی آن لائن نیلامی کے شرمناک جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو اس حکومت کو سانپ سانپ سونگھ جاتا ہے اوروہ اس شرمناک حرکت کے خلاف ایک بیان جاری کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتی۔اس سلسلہ میں مہاراشٹر سرکار اور اس کی پولیس واقعی مبارکباد کی مستحق ہے جو ایف آئی آر درج ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی کلیدی مجرموں تک پہنچ گئی۔جن چارملزمان کو اتراکھنڈ،آسام اور کرناٹک سے حراست میں لیا گیاہے، ابھی تک کسی سیاسی گروہ سے ان کی وابستگی سامنے نہیں آئی ہے، لیکن قابل غور پہلو یہ ہے کہ جن مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی اوران کے کردارپر شرمناک تبصرے کیے گئے ہیں، ان میں بیشتر موجودہ حکومت کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ان میں ’دی وائر‘ سے وابستہ دوخاتون صحافی عارفہ خانم شیروانی اور عصمت آراء بھی شامل ہیں جنھیں ’بلی بائی‘ ایپ میں نیلامی کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ دونوں ہی خواتین بطورصحافی اپنی ذمہ داریاں پوری جرات کے ساتھ ادا کرتی رہی رہی ہیں۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جن بیمار ذہن لوگوں نے’بلی بائی‘ ایپ بنایا ہے، انھیں مسلم خواتین کی فہرست اسی فسطائی ٹولے نے فراہم کی ہے جس نے ملک میں مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جو زعفرانی عناصر مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کا بزدلانہ کام انجام دے رہے ہیں، انھیں ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے اور دنیا کو بتانا چاہئے کہ ان کے معاشرے میں عورت کی حیثیت کیا ہے؟کیا وہ اپنی اس تاریخ کو یاد کرنا چاہیں گے جس میں عورت کی زندگی جہنم سے کم نہیں تھی۔کیا ان کے معاشرے میں ’دیوداسی رسم‘آج بھی موجود نہیں ہے؟ کیا وہ اسی معاشرے کا حصہ نہیں ہیں، جہاں عورت کو شوہر کی موت کے بعد اس کی چتا میں زندہ جلنا پڑتا تھا۔اگر راجہ رام موہن رائے ستی کی اس انتہائی ظالمانہ رسم کے خلاف محاذ آرائی نہیں کرتے توان کے سماج میں بیوہ عورتیں آج بھی زندہ جل رہی ہوتیں۔کھجوراہو کے مندروں کے درودیوار پر جنسی اشتعال پیدا کرنے والی نقاشی آخر کس بات کی نشانی ہے۔جو لوگ آج مسلمان عورتوں پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، انھیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ ان کے معاشرے میں عورت کی کیا حیثیت رہی ہے اور اسے کس طرح پاؤں کی جوتی بناکر رکھا گیا ہے۔ اسلام نے تو اپنی آمد کے ساتھ ہی عورت کو احترام کا درجہ دیا تھا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت کی نوید سنائی۔جس نے ماں،بہن،بیوی اوربیٹی کو عزت واحترام عطا کیا۔
آپ کو یادہوگا کہ کئی سال پہلے ورنداون کی داسیوں کی حالت زار پر ’واکر‘ کے نام سے ایک فلم بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے اداکارہ شبانہ اعظمی نے اپنے بال بھی منڈوادئے تھے تاکہ وہ ایک داسی کا بہتر کردار ادا کرسکیں، مگر اس فلم کی شوٹنگ سے پہلے ہی اتنی مخالفت ہوئی کہ فلم بنانے کا منصوبہ ہی خاک میں مل گیا۔اپنے معاشرے کے بدترین غیرانسانی رسوم ورواج پر پردہ ڈال کر مسلم معاشرے کو نشانہ بنانے والے عناصر سے ہم محض اتنا ہی کہنا چاہیں گے کہ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں۔مسلم خواتین کو نیلامی کے لیے پیش کرنے سے پہلے ان ہزاروں داسیوں کو جہنم کی زندگی سے نجات دلائیں، جو وندراون کے تہہ خانوں میں سسک رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر