وجود

... loading ...

وجود
وجود

سیاسی حل کی اپیل

هفته 01 جنوری 2022 سیاسی حل کی اپیل

کیا فلسطینی قیادت تھکاوٹ اور مایوسی کا شکارہے ؟حالیہ کچھ عرصے کے واقعات اِس کی تصدیق کرتے ہیں فلسطینی قیادت کی تھکاوٹ اور مایوسی کی وجہ واضح ہے اہم عرب ممالک کا سرائیل کو تسلیم کرنا اور بقیہ کاچند ایک شرائط کے عوض تعلقات قائم کرنے پر آمادگی کے اظہار سے مایوسی اورتھکاوٹ نے جنم لیا ہے کیونکہ بیرونی مددکا سلسلہ ختم ہونے سے دوریاستی حل کا مکان کم ہونے لگا ہے اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تمام فلسطینیوںنے موجودہ حالات کو تسلیم کر لیا ہے بلکہ اب بھی مزاحمت جاری ہے لیکن شدت میں کمی آتی جارہی ہے بیت المقدس کی حد تک اب بھی صیہونی دراندازوں کو رکاوٹوں کا سامنا ہے مگر یہ رکاوٹیں کتنا عرصہ برقرا ر رہتی ہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ دونوں فریق تصادم میں کمی لانے کی طرف مائل ہیں اسرائیل چاہتا ہے کہ شام اورلبنان کی طرح فلسطین میں ایران نواز عناصر کی قوت نہ بڑھے جبکہ فلسطینی قیادت چاہتی ہے کہ بہتر روزگاراورزراعت کے تحفظ کے لیے اسرائیلی کاروائیاں ختم یا کم کرائی جائیں ناکہ بندی اور وقفے وقفے سے ہونے والی جھڑپوں سے بے گھروں کی بڑھتی تعداد اور روزگار کے مواقع کم ہونے سے فلسطینی قیادت پرعوامی دبائو بڑھ رہا ہے مزید ستم یہ کہ فضائی بمباری سے گرائے یا اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں خالی کرائے جانے والے گھر دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ یہودی بستیاں بسادی جاتی یا خالی گھریہودی خاندانوں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں جس سے فلسطینیوں کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں لیکن بڑھتی مشکلات کا احساس کرنے کی بجائے عرب ممالک اپنی جغرافیائی سرحدوں کو برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کی طرف دیکھنے اور سفارتی و اخلاقی مدد کی بجائے فلسطینی مزاحمت کاروں سے فاصلے کی روش پر گامزن ہیں جس سے فلسطینی قیادت بھی دوریاستی حل کے علاوہ آپشن کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوئی ہے ۔
امریکا یا مغربی ممالک اسرائیل کو قابض یا جارح ملک نہیں سمجھتے بلکہ اُس کی ہر کاروائی اور حملے کودفاعی قرار دیتے ہیں اسی لیے اُن کے ذرائع ابلاغ میں اسرائیلی حملوں کو جنگی جھڑپیں لکھا اور بولا جاتا ہے جو درست نہیں کیونکہ ایک ملک کے پاس ایسی تربیت یافتہ بری فوج ہے جو نہ صرف جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے بلکہ اُسے بحری اور فضائی مددبھی حاصل ہے لیکن جواب میں فلسطینی عام طور پر پتھروں سے مقابلہ کرتے ہیںمگر بظاہر انسانی حقوق کی دعویدارعالمی طاقتیں دو ممالک کی جھڑپیں کہہ کر معاملے کی سنگینی کم کردیتے ہیں قبل ازیں فلسطینیوں کو عالمی طاقتوں کی تمام تر جانبداری کے باوجود عرب ممالک مزہبی حوالے سے اپنا اخلاقی اور سفارتی فریضہ نبھاتے رہے مگر گزشتہ چند برسوں سے وہ اپنے فریضے کی ادائیگی سے دستکش ہونے لگے ہیں جو فلسطینی قیادت میں تھکاوٹ مایوسی کو جنم دینے کا باعث بنا ہے اوروہ مزاحمت کی بجائے روزگار اور زراعت کے حوالے سے دیکھنے پر مجبور ہوکر سیاسی حل کی اپیل کی طرف جاتی نظر آتی ہے۔
ہفتوں فضائی بمباری کے بعد اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی سے میل ملاقاتیں بڑھادی ہیںمقصد عربوں کو احساس دلانا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کی بجائے اسرائیل سے پُرامن تعلقات قائم کرنے پر آمادہ ہیں اب مزید عرب ممالک سفارتی تعلقات قائم کرنے میں کسی اندیشے کا شکار نہ ہوں اِس حوالے سے اُسے امریکی تعاون بھی حاصل ہے جو عربوں کے ساتھ دیگر اسلامی ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے ابھی حال ہی میں امریکی وزیرخارجہ نے اپنے انڈونیشی ہم منصب سے ملاقات کے دوران اِس حوالے سے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن انڈونیشیا نے نے دوریاستی حل سے قبل کسی بھی تجویز کوقبول کرنے سے انکار کر دیا اب سرائیلی عہدیداروں کے فلسطینی اتھارٹی کے دورے اور بہتر روابط سے مزید اسلامی ممالک کو تسلیم کرنے کی شہ ملے گی جیسے جیسے فلسطینی مزاحمت کم ہوتی جائے گی اسرائیلی غلبہ و قبضہ مستحکم ہوتا جائے گا جس کے لیے حالات سازگارہورہے ہیںحال ہی میں فلسطین پر ہونے والی فضائی بمباری کے دوران نہ صرف او آئی سی نے عضو معطل کاکردار ادا کیا بلکہ عربوں کی طرف سے بھی کوئی خاص جو ش و جذبہ دیکھنے میں نہیں آیا اِس لیے اگر فلسطینی قیادت جو اپیلوں پر مجبور ہوئی ہے یہ کوئی حیران کن نہیں تھکاوٹ اور مایوسی کا نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
فلسطین کی سیاسی اور مزاحمتی قوتیں بیان بازی کی حد تو اکثر باور کراتی رہتی ہیں کہ دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کی مکمل تیاری ہے حماس جیسی قوتیں غزہ میں کسی قسم کی بیرونی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کے عزم دہراتی رہتی ہیں مگر سچ یہ ہے کہ اب فلسطینی صفوں میں دوریاستی حل کی بجائے اسرائیل میں رہتے ہوئے تعلقات بہتربنانے کی سوچ جڑیں پکڑنے لگی ہے فلسطینی قیادت کا طرزِ عمل واضح ہے فلسطین کے موجودہ صدر محمود عباس اِس وقت اسرائیل کے دورے پر ہیں یہ اُن کا اسرائیل کا پہلا دورہ ہے جس کے دوران اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اعلیٰ سطح کے روابط مضبوط ہوئے ہیںانھوں نے دورے کے دوران وزیرِ دفاع بینی گنٹز سمیت دیگر کئی اہم رہنمائوں سے ملاقاتیں کی ہیں ہونے والی ملاقاتوں کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ فلسطینی صدر نے دورے کے دوران وزیرِ دفاع سے اُن کے زاتی گھر جا کر ملاقات کی ملاقات میں محمود عباس اور ان کے ساتھ وفد نے فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقوم کی منتقلی ،تاجروں اور دیگر اہم شخصیات کے لیے پر مٹوں کا اجراسمیت مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے ہزاروں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی سکونت کی منظوری جیسے مطالبات پیش کیے گئے جن میں سے کچھ کی منظوری بھی دے دی گئی یہ پیش رفت ذیادہ حیران کُن نہیں کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کے علاقوں میں غربت و فلاس بڑھتی جارہی ہے آئے روز ہونے والی فضائی بمباری سے بے گھروں کی تعداد میںبھی نمایاں اضافہ ہوتا جارہا ہے ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عرب ممالک مظلوم بھائیوں کی مالی مدد میں غیر معمولی اضافہ کرتے لیکن اُلٹا کمی کی گئی ہے فلسطین میں تعلیم اور صحت کا نظام منہدم ہونے کے قریب ہے معلم اور معالج دونوں ضرورت سے تشویشناک حد تک کم ہیں اِن حالات میں فلسطینی قیادت کا مزاحمت چھوڑکر مراعات کی طرف آنا باعث تعجب نہیںمحسوس نہیں ہوتا۔
اسرائیل و فلسطین کے حالیہ باہمی روابط کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل میں موجود مسلم عرب عام انتخابات میں ایک بڑی سیاسی قوت بن کر اُبھرے ہیں چند برسوں کے دوران میدانِ تجارت، عدلیہ،صحت اور تعلیم کے شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کرچکے ہیں یہ حالات بھی فلسطینی قیادت کو محدود آزادی قبول کرنے کی طرف لائے ہیں محمود عباس کے دورے سے پہلے اسرائیلی وزیردفاع نے بھی فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا تھا جس کے دوران اعتماد سازی کے لیے معاشی اور شہری تعاون بڑھانے کافیصلہ کیا گیا موجودہ دوے اورملاقات کے دروان دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر ایسا سیاسی ماحول بنانے پر زور دیا ہے جو عالمی قوانین اور قراردادوں کے مطابق دوریاستی حل کی طرف لے جا سکے مگر کیا عملی طور پر ایسا ممکن ہے ؟ظاہر ہے ایسا کسی طور پر ممکن نہیںالبتہ اسرائیل کی طرف سے نرمی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ اسرائیل کو ہر حوالے سے بالادستی حاصل ہے تو وہ کیونکر آبادکاروں کے طرزِ عمل سے پید اہونے والی کشیدگی کا خاتمہ چاہے گا ایسے حالات میںجب فوج کوپتھر برسانے والے فلسطینیوں کو گولی مارنے کا جازت نامہ مل چکا ہے کسی بڑی پیش رفت کا امکان تو نہیں لیکن جاری دورے کے دوران بھلے سیاسی حل کی اپیل نا منظور ہو جائے البتہ محدود مراعات کا امکان رَدنہیں کیا جا سکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر