وجود

... loading ...

وجود
وجود

سب سے بڑاعالمی خطرہ

بدھ 29 دسمبر 2021 سب سے بڑاعالمی خطرہ

رفیق پٹیل

چین ،روس اور امریکا کے درمیان جنگ سے گریزاور دنیا کے مختلف ممالک کے تنازعات کے پر امن حل کے بارے میںعدم اتفاق کے نتیجے میں عالمی جنگ کا خطرہ بڑھتا جارہاہے لیکن اس سے بھی بڑا خطر ہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی سے ہے جو اس وقت پوری دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اس صورت حال کی وجہ سے قدرتی دنیا اورفطرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے بڑھتی ہوئی انسانی سرگر میوں اور دنیا کے تقریباً تمام معاشروں کی فطرت سے دوری نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیاہے اس وقت دنیا بھر میں چالیس فیصد انسانی اموات کاتعلق آلودہ ہوا ،پانی اور دھول مٹی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہے زمینی تناسب کے مقابلے میں بڑھتی ہوئی زائد آبادی اس بربادی میں مزید اضافے کا باعث ہے عالمی خطرات ، بین الاقوامی تنازعات اور ماحولیات کے بارے میںاپنی کتابو ں سے شہرت حاصل کرنے والے ممتاز امریکی مصنف اسٹیورٹ ایم پیٹرک نے رواں ماہ میں تحریر کیے گئے ایک کالم میں اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے 2015کے پیرس معاہدے میں جس کا مسودہ 7200الفاظ پر مشتمل ہے اسی مسودے میں حیرت انگیز طور پرحیاتیاتی ایندھن (FOSSIL FUEL) کی اصطلاح کا کوئی تذکرہ نہیںہے نہ ہی اس میں کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس کے الفاظ شامل ہیں جب کہ یہی وہ ذخائر ہیں جس کے استعمال سے زہریلی گیسوں کا اخراج جاری ہے اس اصطلاح اور الفاظ کا مسودے سے اخراج نہ تو اتفاقیہ عمل تھا نہ ہی حادثاتی طور پر ایسا ہوا تھا در اصل یہ دنیا کے مختلف ممالک کے فیصلوں کی عکاسی تھی جس میں بڑے صنعتی گروپوں اور بین الاقوامی کارو باری اداروں کے اثرو رسوخ کے اثرات کا بہت بڑا عمل دخل تھاجو نہیںچاہتے تھے کہ کہ حیاتیاتی ایندھن کی رسد میں کمی کی جائے یاتیل،قدرتی گیس اور کوئلے کے ذخائر کو زمین سے نکالنے کے عمل پر قد غن لگائی جائے15 اکتوبر 2021کو ماحولیات پر کام کرنے والی عالمی شہرت یافتہ سماجی کارکن زیپورا برمن(TZEPORAH BERMAN ) نے امریکی میڈیا کانفرنس کے ایک مذاکرے میںمختلف ممالک کے دہرے معیا ر پر تنقیدی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیتے ہوئے وضاحت کی کہ دنیا زہریلی گیسوں کے اخراج پر زور دیتی ہے لیکن حیاتیاتی ایندھن جس میں تیل،قدرتی گیس اور کو ئلہ شامل ہے اس کی پیداوار روکنے پر کوئی توجہ نہیں دیتی جو زہریلی گیسوں کے اخراج کا سبب ہیں وہ کہتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اکتوبر ۔نومبر 2021میں ہونے والی گلاسگوکانفرنس میں بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
حالات اب اس حد تک خراب ہوگئے ہیں کہ زمین کا درجہ حرارت اوسطاً دو اعشاریہ چار تک کی بڑھ کر خوفناک صورت حال کا سبب بن رہا ہے جس میں کئی گرم ممالک کا وجود خطرے میں ہے اس بات کا امکان ہے کہ کچھ ممالک کا وجود شدید گرمی اور دریائو ں کے خشک ہونے سے ختم ہو جائے گااقوام متحدہ کی ایک اور رپو رٹ کے مطابق ان مما لک میں کویت ،عراق،متحدہ عرب امارات،سعودی عرب اور اسرئیل شامل ہیں اگر ہنگامی بنیادوں پر ان ممالک نے اپنے درجہ حرارت کو کم کرنے کے اقدامات نہ کیے تو وہ اپنے وجود کو برقرار نہیںرکھ سکیں گے ورلڈ اکنامک فورم کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق آئندہ پچاس سال میں دنیا کی ایک تہائی آبادی انتہائی گرمی کا سامنا کرے گی یہ اس طرح کی گرمی ہو گی جو صحارا ریگستان کے سب سے گرم علاقے میں ہوتی ہے جہاں درجہ حرارت 120فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتاہے بعض ممالک کے دریا غائب ہوجائیں گے ورلڈ اکنامک فورم کے ایک اور مضمون میں اولیویا روزین تحریر کرتی ہیں کہ مائکرو پلاسٹک سے خشکی کے علاقوں کے مقابلے میں سمندری آلودگی کا تناسب زیادہ ہے سادہ الفاظ میں پلاسٹک کا استعمال نہ صرف زمین بلکہ سمندر کو بھی تباہ کر رہاہے اقوام متحدہ کے فوڈ اور ایگریکلچر شعبے نے پلاسٹک کے تباہ کن استعمال پر سخت پابندیاں لگانے اور اسے روکنے کی پر زور سفارش کی ہے پلاسٹک کی بعض مصنوعات میں زہریلے کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو سمندر میں شامل ہونے کے بعد بیماریو ں کے پھیلائو اوربیماریوں کی دیگر علاقوں تک ترسیل کا سبب بن جاتے ہیںرپورٹ میں پلاسٹک کی آلودگی روکنے کے لیے چھ جہتی طریقہ کار اپنانے پر زور دیاہے جس میں اول پلاسٹک کی ممانعت ،دوئم نئے طریقے کے ڈیزائن،سوئم بتدریج محدود تر استعمال،چہارم دوبارہ استعمال ،پنجم ازسر نو دوبارہ قابل استعمال بنانے کی تیاری اور آ خر میں مکمل خاتمے کے ساتھ کسی ماحول دوست پلاسٹک کی بحالی شامل ہے گذشتہ ایک سال یعنی جنوری 2021 سے دسمبر2021 تک سب سے بڑا موضوع کورونا وائرس اور اسکی ویکسین تھا لیکن اس کے بعد دوسرا اہم موضوع موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کی آلودگی تھاگذشتہ دو سوسال سے شائع ہونے وال ممتاز برطانوی اخبا ر’’ دی گارجین‘‘ میںجوناتھن واٹس نے ا پنے ایک مضمون میں تحریر کیا ہے کہ کرہ ارض کے فطری ماحول کی تباہی کی وجہ سے انسانی معاشرے کو شدید خطرات لاحق ہیںدودھ دینے والے ممالیہ جانوروںکی 82 فیصد نسل ختم ہو چکی ہے انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے زمین کے فطری نظام کے تحفظ کے ضامن نصف علاقے کا خاتمہ ہو چکا ہے دنیا کے چوٹی کے450سائنسدانوںاور بینالاقوامی تعلقات سے وابستہ ماہرین کی تین سالہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پانی اور خشکی کی چالیس فیصد حیاتیات کی بقا کوخطرہ لاحق ہے وہ آبی حشرات جو سمندری پودوں کی بقا کا باعث ہیں ان میںدس فیصد کمی ہوچکی ہے اور مزید کمی کا سلسلہ جاری ہے ادھر خشکی کے علاقوں کی پیداواری صلاحیت میں بھی 23فیصد کمی ہو چکی ہے اس کے منفی اثرات کی وجہ سے صاف پانی کی کمی ہو رہی ہے وہ قدرتی نظام جس پر ہماری اور دیگر جانداروں کی صحت اور زندگی کا دارو مدار ہے تیزی سے زوال پذیر ہورہا ہے دنیا کی معیشت کی بنیادہل چکی ہے اچھی خوراک کے تحفظ ،قدرتی انسانی صحت اور معیار زندگی تباہی کی جانب گامزن ہے پاکستان میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کے بے ہنگم پھیلائو،کچی آبادیو ں کی عدم روک تھام،جنگلات کے خاتمے،صاف پانی کا ضائع ہونا، بارش کے پانی کے ذخائر کے انتظامات میں کمی،ڈیموں کی تعمیر میں تاخیراور اس کو سیاست کا حصہ بنانا ،زرعی زمینوں پر تعمیرات، پلاسٹک کے غیر محفوظ استعمال ،صنعتی فضلے اور دیگر زہریلی گیسو ں پر کنٹرول کی کمی کے ساتھ قوانین پر عملدرامد کا نا ہونا پاکستا ن کے لیے ماحولیاتی تباہی کی وجہ ہے اس تباہی کا عمل سست رفتاری سے ہوتا ہے لہٰذااس پر توجہ کم ہوتی لیکن سخت اقدامات نہ ہوئے تو پاکستانی معاشرہ ایک ایسی خوفناک تباہی سے دو چار ہو سکتاہے جس کا تدارک نہ ہوسکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر