وجود

... loading ...

وجود
وجود

دنیا سے انٹرنیٹ کا خاتمہ

پیر 27 دسمبر 2021 دنیا سے انٹرنیٹ کا خاتمہ

ّّ آج کل

رفیق پٹیل

آج کا دور انٹرنیٹ کا دور ہے اور دنیا کی معیشت اب انٹرنیٹ سے منسلک ہوچکی ہے لیکن اب ایک نیانظام انٹرنیٹ کی جگہ لینے جارہا ہے جسے میٹا ورس یا میٹاورلڈکا نام دیا گیا ہے۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ پراسرار الفاظ ٹیکنالوجی کی دنیا کے تصورات اور اعصاب پر اس قدر حاوی ہو چکے ہیں کہ دنیا کے اہم ترین انٹر نیٹ پلیٹ فارم فیس بک نے مستقبل کے لیے اپنا نام ہی ان الفاظ کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ فیس بک کے چیف ایگزیٹو آفیسرمارک زیوکربرگ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اپنی کمپنی کا نام تبدیل کرکے میٹا پلیٹ فارم انک رکھ رہے ہیںجسے مختصراً میٹا کے نام سے بھی منسوب کیا جائے گا۔شایدمارک زیوکر برگ اور ان کے رفقا ئے کارکی جانب سے ٹیکنالوجی کے مستقبل کی آگہی اور استعمال میں پہل کاری نے ٹیکنالوجی کی دنیا کے دو سرے ما ہرین اور دیگر محققین میں تشویش پیدا کردی ہے کہ نیا زمانہ اب سوشل میڈیا کے ایک ایسے بہت ہی بڑے پلیٹ فارم سے منسلک ہو جائے گا جس میں انسانوں کی نجی زندگی کا کوئی بھی راز ،معلومات اور اعدادوشمار محفوظ نہیں ہونگے ۔
ٹیکنالوجی کی یہ جدت اور ورچوئل(مجازی)طریقہ کار لوگوں کی زندگیوں پر حاوی ہوگا، حقیقت کی دنیا سے یہ دوری نئے مسائل کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ آخر یہ میٹا ورس کیا ہے تصور کریں کہ انٹرنیٹ نہ صرف تھری ڈی میں بدل گیا ہے بلکہ اب آپ صرف اسکرین کو دیکھ ہی نہیں سکتے بلکہ اس کے اندر بھی جا سکتے ہیں، کسی اسٹور یا شاپنگ مال میں گھوم سکتے ہیں، وہاں موجود چیزو ں کو نکال سکتے ہیںجس طرح وڈیو گیم میں آپ خود ایک کردار بن کر کام کرتے ہیں، اسی طرح آپ ایک کردار ہونگے اور ہر جگہ جا سکیں گے۔ یہ اس سے بھی جدید ہوگا جو وڈیو گیم میں ہے۔ اس طرح سے انسان اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے دُہری زندگی گزارے گا جیسے کہ ایک طرف آپ انسان بھی ہیں اور بھوت بھی جو اچانک ہر جگہ نمودار ہو سکے گا۔ میٹاورس کے ذریعے آپ کسی تقریب ،گانا گانے کے کنسرٹ وغیرہ میں شریک ہو سکتے ہیں۔اپنے دفتر میں جا سکتے ہیں۔گھربیٹھ کر تمام دفتری امور انجام دے سکتے ہیں۔دفتر کو ورچوئل دفتر بنا سکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر اکثر دفتر گھر تک محدود ہو جائیں گے۔ فیس بک کمپنیوں کی میٹنگ کے لیے ایک نیا سافٹ ویئر ہوریزون ورک رومزمتعارف کرارہی ہے۔ ابتدائی طور پر اس کی زیادہ پزیرائی نہیں ہوئی، اس کے لیے استعمال ہونے والے ہیڈ سیٹ کی قیمت تین سو امریکی ڈالرہے جبکہ مزید لوازمات پر مزید اخراجات ہونگے جو بے شمار لوگوں کی پہنچ سے باہر ہونگے۔ عمومی طور پرابتدا میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال محدود ہوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کا استعمال وسیع پیمانے پر ہونے لگتا ہے۔ مائیکرو سافٹ اور کمپیوٹرچپ بنانے والی کمپنی این ویڈیابھی اس ٹیکنالوجی کواپنانے پر غور کر رہی ہے۔
این ویڈیا کے نائب صدررچرڈ کیرس کا کہنا ہے کہ بے شمار کمپنیاں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والی ہیں۔فیس بک اس کے لیے دس ارب ڈالر یعنی قریباًــسترہ کھرب اسی ار ب ر وپے کی سرمایہ کاری کررہی ہے۔ معیشت ، ٹیکنالوجی،اورسیاست کے موضوعات پر مشتمل ممتاز امریکی جریدے فروبس میں شائع ہونے والے مارک ویناکے مضمون کے مطابق میٹاورس موجودہ وقت کا سب سے اہم موضوع ہے۔ اس موضوع پر بلا تحقیق خیال آرائی کو ایک طرف رکھ کر اس کی عملی صورت کو پرکھا جائے ۔ورچوئل دنیا میں اپنے ہمزاد، اپنی پرچھائیں یا بھوت بن کر ہرجگہ پہنچ جا نا ایک خوشگوار حیرت کی بات ضرور ہے لیکن یہ کس طرح ہماری زندگیوں اور طرز زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دے گی ،اس پر غوروفکراور تحقیق انتہائی ضروری ہے۔ یہ ہی آج کا اہم ترین مسئلہ بھی ہے ،اس کا اچھا پہلو یہ ہے کہ اب بڑے پیمانے پربہترین نوعیت کے عالمی اور مقامی کاروبار ی اور دیگر روابط عام ہونگے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم ایک نئی اور عجائب پر مشتمل دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ہر شعبے پر اثر انداز ہوگی۔
امریکی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ مستقبل میںمائکرو سافٹ کے ہولو لینس کا استعمال کرے گی جو اس ٹیکنالوجی کا ایک حصہ ہے۔ اسٹور میں چیزوں کی خریداری میں مصنوعات کی ایسی تفصیل میسرہونگیںجیسے وہ سامنے موجود ہوں۔دوسری جانب یہ ٹیکنالوجی طب، تعلیم، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لے کر آئے گی۔ میٹا ورس کی اپنی کرنسی اور سکے بھی ہونگے جبکہ کریپٹو کرنسی کے سکے بھی اس میں استعمال ہونگے ۔ایک خیال یہ ہے کہ اس کے منفی اثرات کی وجہ سے لو گ مصنوعی دنیا کے عادی ہو جائیں گے اور حقیقی دنیا سے دور ہو جائیںگے ۔ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو ہر نئی ٹیکنالوجی کو جلد اپنانا چاہتا ہے اور اس کی دلچسپی کی وجہ سے پاکستان میں بھی اس پر محدود پیمانے پر آگہی کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال پاکستان میں تاخیر سے ہو لیکن دنیا میں آنے والی تبدیلی سے زیادہ عرصے تک علیحدہ رہنا مشکل ہے۔ پاکستان کے تعلیم یافتہ طبقے کے وہ افراد جو اس ٹیکنالوجی میں دلچسپی لے رہے ہیں وہ پہلے مرحلے میں اسے پاکستان میں متعارف کرا سکتے ہیںلیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ادارے اس سلسلے میں کس حد تک تیار ہیں، اس کا اندازہ فی ا لحال نہیں ہے، اس کے لیے رفتہ رفتہ وقت گزرنے کے ساتھ معلومات سامنے آتی جائیں گی۔ البتہ آنے والے دور میں یہ ٹیکنالوجی پاکستان کی معیشت کے علاوہ دیگر شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے ۔وقت گزنے کے ساتھ دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی کااستعمال بڑھتا چلا جائے گا۔ اس کے لیے جوادارے یا ممالک پہلے سے تیاری کریں گے، وہ ہی زیادہ فوائد حاصل کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر