وجود

... loading ...

وجود
وجود

آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

جمعرات 23 دسمبر 2021 آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

عمران خان کے خلاف عوام کی تحریک ِ انصاف شروع ہوگئی۔ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخاب نے اس کی ایک جھلک دکھلا دی۔ وزیراعظم پر ہر گزرتا دن اب بھاری پڑتا جائے گا۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے۔ عمران خان کے پاس بیانات اور اعلانات کی صورت میںاب صرف وہ مُکّے ہیں جو جنگ کے بعد یاد آتے ہیں۔ خیبر پختونخوا نے تحریک انصاف پر مسلسل دو مرتبہ عام انتخابات میں اعتماد کیا۔ یہ ماضی قریب کا ”انوکھا” اعتماد تھا، جہاں خیبر پختونخوا نے ہر عام انتخاب میں اپنے رائے اور حکمران تبدیل کیے تھے۔ تحریک انصاف جس گودی میں پلی تھی، وہاں انگلی اُٹھانے کی ہمت کسی کو نہ تھی۔ یہ تحریک انصاف ہی تھی جس نے اپنے پالنہاروں کوبھی عیاں کردیا۔ سب سے پہلے عمران خان کے کنجِ لب سے ”ایمپائر کی اُنگلی” کی وہ مشہور ترکیب پھوٹی جس نے بعد کے سالوں میں طنز کے دفترکے دفتر تیار کیے۔تحریک انصاف کی فتح کے اسباب کرائے کے قلمکاروں اور بھارے کی ز بانوں نے ”وضع” کیے تھے۔ اب نئے انتخابات ہیںاور نئی فضا، بالفاظِ دیگر بغاوت کی فضا!! یہ صرف عمران خان کے خلاف عدم اعتماد نہیں۔ اگلے ماہ وسال میں یہ واضح ہوگا کہ زمیں ، فلک اور فضا طاقت کے اصل مراکز سے بیزار ہیں۔ مسئلہ صرف پلنے والوں کا نہیں پالنے والوں کا بھی ہے۔ قومی سیاست کے حالیہ تجزیوں میں مگر یہ پہلو ابھی غائب ہے۔سو اِسے ناکشادہ ہی رہنے دیں۔
پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ حالات کی غلط تشخیص کرتی ہے اور علاج بھی غلط تجویز کرتی ہے۔ پی ٹی آئی جس طرح اپنی جیت کا درست تجزیہ نہیں کرسکی، اب مسلسل شکست کی بھی درست تفہیم کرنے میں ناکام ہے۔ یہ بلدیاتی انتخاب میں ہونے والی ناکامی سے بڑی ناکامی ہے۔ عمران خان کا پارٹی شکست کے اسباب پر بیان پڑھ لیں، یوں لگتا ہے کہ وہ حالات کو سمجھنے میں نہ صرف مکمل ناکام ہیں بلکہ اُنہیں اس نفرت کا بھی اندازا نہیں جو گلی گلی اُن کے خلاف پھیلتی اور بڑھتی ہی جارہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں شکست کے اسباب میں ٹکٹوں کی غلط تقسیم محض ایک جُزہے۔ شکست کا کُل نہیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی ٹکٹوں کی ایسی ہی غلط تقسیم پر کھڑی ہے، پھر بھی وہ گزشتہ عام انتخاب میں ظفریاب ہوئی۔ اسباب پوشیدہ نہیں۔ ٹکٹوں کی غلط تقسیم سے پاکستانی سیاست میں کبھی کوئی درست تجزیہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کے پاس ہر حلقے میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے عوامی سطح پر اسی نوع کے اعتراضات ہوتے ہیں۔ پھر بھی فتح وشکست کے نتائج الگ الگ نکلتے رہتے ہیں۔ اگر ٹکٹوں کی غلط تقسیم کوئی اتنا معنی خیز عذر ہوتا تو باقی سیاستی جماعتوں کی شکست میں بھی یہ اسی طرح منطبق کیے جانے کے قابل ہوتا۔ تحریک انصاف اس عذر کے پیچھے شکست کی بنیادی وجوہات سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ پھرپی ٹی آئی کے پاس یہی انگرکھنگر اور کاٹھ کباڑ ہے جن کو وہ بدل بدل کر ٹکٹیں دیتے ہیں۔ عمران خان نے ”الیکٹ ایبل” سیاست کا انتخاب کیا تو اُن کے ہاتھ یہی لگا تھا۔ چنانچہ وہ امیدوار بدل بھی لیں تو وہ کسی غلط کے مقابلے میں درست امیدوار کی طرف رجوع نہ کرپائیں گے۔ بلکہ بس ناموں اور چہروں کی تبدیلی ہی کرپائیں گے ۔ یہ جوہڑ سے جوہر کی تلاش کا عمل نہ ہوگا۔
تحریک انصاف نے اب تک اپنی شکست کا سراغ غلط امیدواروں کے انتخاب اور اپنی ہی جماعت کے اندرونی اختلافات میں لگایا ہے۔ مثلاً وزیراعلیٰ محمود خان کے پاس موجود ایک رپورٹ یہ کہتی ہے کہ مہنگائی کے علاوہ جماعت کے اندرونی اختلافات کے باعث پارٹی کے رہنماؤں نے اپنی ہی جماعت کے نامزد امیدواروں کی حمایت نہیں کی۔ اس ضمن میں دوارکانِ قومی اسمبلی اور چار ارکان صوبائی اسمبلی کے کاندھوں پر اس شکست کا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ درحقیقت تحریک انصاف میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کہیں سے سرا پکڑ لیں، مسئلہ نظر آئے گا اورشکست کی وجہ بھی وہی لگے گی۔ علی امین گنڈا پور کو ہی لے لیں۔ اُن سے نفرت صرف ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی نہیں کی جاتی بلکہ وہ ملک بھر میں یکساں طور پر نفرت سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ ڈی آئی خان کے علاوہ ٹانک اور لکی مروت پر بھی اثر انداز ہوئے، اُن کے خلاف عمومی نفرت نے ہر ضلع میںکام دکھایا۔ ڈی آئی خان کی واحد تحصیل کلاچی پی ٹی آئی کے ہاتھ لگ سکی، اُس کی واحد وجہ بھی یہی تھی کہ وہاں پی ٹی آئی کا امیدوار دراصل علی امین گنڈاپور کا شدید مخالف تھا۔ مگر یہ غلط امیدواروں کے انتخاب اور اندرونی اختلافات کا ایک پہلو ہے۔ پی ٹی آئی کی خرابی بلدیاتی انتخابات میںغلط امیدواروں کو نامزد کرنے سے شروع نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ نامزد کرنے والے غلط لوگوں سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں مسئلہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے غلط امیدوار نہیں بلکہ اُنہیں ٹکٹ دلانے والے تحریک انصاف کے سندیافتہ ، شہرت یافتہ نامقبول اور قابل نفرت رہنما ہیں۔ چنانچہ ان نامزد امیدواروں کو تبدیل کربھی دیا جائے تو خیبر پختونخوا اور تحریک انصاف کے اُن کپتانوں کا کیا ہوگا جو اس بدترین ٹیم کو چلارہے ہیں اور خود اُن سے بھی بدترین ہیں۔ اسی طرح مہنگائی کو ایک وجہ ٹہرانے والے یہ نہیں جانتے کہ اس سے بڑھ کر بھی کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے جو عوام کو بُری طرح گھائل رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں مہنگائی کے عمومی تناظر میں عوام کا اصل معاملہ حکمرانوں پر اعتماد کا رہ جاتا ہے۔کیا وہ باقی ہے؟ اصل سوال یہ ہے ۔
درحقیقت تحریک انصاف کو ان تمام وجوہات میں سے جس بدترین وجہ کا سامنا ہے وہ خود عمران خان کی چھوی ہے۔ عوام میں عمران خان کی چھوی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ وہ الفاظ کے خراچ اور عمل کے قلاش کے طور پر بے نقاب ہوئے ۔ مگر یہ وہ وجہ ہے جسے پارٹی کے اندر زیربحث نہیں لایا جارہا۔ اگر ماضی میں عمران خان کی شخصیت کو جیت کی ضمانت کے طور پر پیش کیا گیا، تو اب شکست کا اصل سبب بھی اُن کی ذات کے ہی گرد گھومے گا۔ وزیراعظم کے طور پر عمران خان کی شخصیت مکمل طور پر بے جوڑ ثابت ہوئی۔ وہ پاکستان کے حقیقی مسائل کے ادراک میں مکمل ناکام ہوئے اور حزب اختلاف کی زبان میں ہی کاربارِ اقتدار چلاتے رہے۔چنانچہ ”میں نہیں چھوڑوں گا” سے شروع ہونے والے سیاسی اقتدار کے سفر نے سیاسی حریفوں کا تو کیا بگاڑنا تھا، خود عوام کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔وزیراعظم حزب اختلاف کے رہنماؤں سے اپنی نفرت میں اُس کردار کی طرف توجہ نہیں دے سکیں جو ایک حکمران کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ وہ اپنے بدترین نظم حکمرانی کا سبب بھی وہیں ڈھونڈتے رہے، جبکہ یہ تحریک انصاف کی نااہلی اور ناتجربہ کاری سے جڑا ہوا تھا۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی ساڑھے تین برسوں میں صفر کارکردگی ہے، مگر دعوے ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ اس حکومت نے ملک کے اندر اور باہر اپنے مخالفین پیدا کرنے میںجتنی ”مہارت”دکھائی ہے، اگر اتنی مہارت کا مظاہرہ حکومت کو بہتر کرنے میں دکھایا جاتا تو وہ خیبر پختونخوا میں پشاور کو بھی کھونے سے بچ جاتے جو تحریک انصاف کے لیے سیاسی طور پر لاہورکی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔ ساڑھے تین برسوں میں تحریک انصاف کی حکومت کے بدولت پاکستان سے متوسط طبقہ اس تیزی سے تحلیل ہوتا گیا ہے کہ اس کا ایک سماجی مطالعہ کیا جائے تو پاکستان کی کل تاریخ سے زیادہ ہولناک ، بھیانک اور خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ عوام میں غیض و غضب کی بجلیاں ہیں جو کسی بھی نشیمن پر گرکر اسے خاکستر کرسکتی ہے۔ ابھی تک عمران خان اور اُن کی نالائق ٹیم کو یہ اندازا ہی نہیںہوسکا کہ خیبر پختونخوا کے نتائج درحقیقت خود عمران خان اوراُن کی حکومت کے خلاف ہیں۔ وہ جس قسم کے لوگوں کے ساتھ آسودہ ہیں، وہ عوام میں نفرت سے دیکھے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ خیبر پختونخوا میں کبھی بھی اپنی ناکامی کے اصل اسباب کا سراغ نہیں لگاسکتے۔ ابھی عمران خان اور اُن کی ٹیم عوام میں اُتری نہیں۔ یہ صرف خیبر پختونخوا کا نظارہ ہے، آئندہ دنوں میں جب اُن کے ناکام ارکان اور وزراء عوام کا سامنا کریں گے تو اُنہیں زیادہ بہتر اندازا ہوسکے گا کہ وہ کس حقارت سے دیکھے جانے لگے ہیں۔ وہ عوامی ردِ عمل کی سنگین لہروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ کیونکہ عمران خان اور اُن کی حکومت کے خلاف عوام کی تحریک انصاف شروع ہوگئی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر