وجود

... loading ...

وجود
وجود

انسانیت کی معراج

اتوار 28 نومبر 2021 انسانیت کی معراج

انسان کا انسانوںکے ساتھ ایک ہی رشتہ ہوتاہے۔ ایک ہی رشتہ ہونا چاہیے دردکارشتہ۔ یہی انسانیت کی معراج ہے۔کسی کے ساتھ ہمدردی کے دو بول بول کر دیکھئے ایک خوشگوار تعلق کی بنیاد بن جائے گی ایک دوسرے کے دکھ دردمیں شراکت دلوںمیں قربت کاموجب بن جاتی ہے انسانیت سے پیاراسلام کا ابدی پیغام ہے ۔ تعلیم کے فروغ ،جہالت ،غربت،افلاس ختم کرنے کے لیے بھی جو ہو سکے ضرورکریں۔ محبت ِ رسول ﷺ کے تقاضے یہ بھی ہیں کہ ہم معاشرے کے کمزور،کم وسائل،کچلے اور سسکتے طبقات کو طاقت بخشیں۔ جھنڈیاں لگانا ،چراغاں کرنا، میلاد ﷺ کی محافل کا انعقاد بھی اہم ہے اس سے دلوں کو نیا ولولہ نیا جوش ملتاہے۔ لیکن اصراف کو ترک کرکے کچھ وسائل غریبوں، بیوائوں کی کفالت کے لیے بھی خرچ کریں ۔کسی بیروزگار کی چھوٹا کاروبار کروانے کے لیے معاونت کریں۔۔صدقات و خیرات بھی کریں۔کسی یتیم بچی کی شادی ۔کسی مجبور طالبعلم کی ا سکول کالج کی فیس دیدیں، کتابیں یا یونیفارم لے دیں ۔کسی بیمارکا علاج کروادیںالغرض جس میں جتنی استطاعت ہے اس کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور کرے۔ ان طریقوں کو اپنے محبوب نبی ﷺ کی خوشنودی کے لیے مروج کریں۔۔ دوسروں کو ترغیب دیں ۔ عشق مصطفے ٰ ﷺ کو اپنی طاقت ،قوت اور جرأت بنائیں حالات بدل جائیں گے بدنصیبی کے اندھیرے چھٹ جائیں گے مقدر کا رونا رونے والوں پر مقدر ناز کرے گا آزمائش شرط ہے ۔ یقین کریں صدق ِ دل سے بے لوث کام آنا ایسی نیکی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔کسی مجبور کی مدد، کفالت، قرض ِ حسنہ،کسی یتیم بچی کی شادی ،کسی کو باعزت روزگار کی فراہمی سے اللہ اور اس کے حبیب پاک ﷺ کو راضی کرنا ہے۔چراغ سے چراغ جلانے کی روایت ہے صدقہ ٔ جاریہ ہے اسی میں ہمارے نبی ﷺکی خوشی ہے ۔
ہمیں یقین ہے انسان کا انسانوںکے ساتھ ایک ہی رشتہ ہوتاہے۔یقین ِ کامل کا تقاضاہے کہ ایک ہی رشتہ ہونا چاہیے دردکارشتہ۔ یہی انسانیت کی معراج ہے۔کسی کے ساتھ ہمدردی کے دو بول بول کر دیکھئے ایک خوشگوار تعلق کی بنیاد بن جائے گی ایک دوسرے کے دکھ دردمیں شراکت دلوںمیں قربت کاموجب بن جاتی ہے انسانیت سے پیاراسلام کا ابدی پیغام ہے یقینا دکھی انسانیت کی خدمت ہی انسانیت کی معراج ہے۔ امید۔خوش فہمی ۔یقین اور جاگتی آنکھوں کے سپنے ہمیں مسلسل حوصلہ دیتے رہتے ہیں شاید اسی لیے یہ کہاوت ضرب المثل بن گئی ہے امید پر دنیا قائم ہے۔ جس کا تقاضا ہے کہ وہ ملک میں امن وامان کے قیام، مہنگائی کے خاتمہ ،سماجی انصاف اور ہر سطح پر ظلم کی حکومت ختم کرنے کے لیے اپنا بھرپور سیاسی کردار ادا کریں حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ کفرکی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظلم کی حکومت نہیں دنیا بھرمیں سینیٹ اور پارلیمنٹ کے اجلاس ہوتے رہتے ہیںلیکن یہ عوام کی کتنی بد نصیبی ہے کہ کوئی عوام کے کسی مسائل پر بات کرنا پسند نہیں کرتا جس کی وجہ سے غریبوںکو بہت سے مسائل درپیش ہیں، قیامت خیز مہنگائی سے عام آدمی کا جینا عذاب بن گیا ہے ،بیروزگاری اورغربت نے عوام کی خوشیاں چھین لی ہیں لگتاہے سب وسائل اشرافیہ کے لیے مختص ہوکررہ گئے ہیں اور غریبوںکو وہی محرومیاں مل رہی ہیں حالانکہ تیسری دنیا کے ممالک میں بہت سے کام صرف حکمرانوں کی تھوڑی سی توجہ۔بہتر انتظامی حکمت ِ عملی،ٹھوس منصوبہ بندی سے ہی ہو سکتے ہیں ۔اداروں میں روایتی لاپرواہی ۔ارباب ِ اختیارکی بے حسی اور ہربات پر مٹی پائو کی صورت ِ حال نے مسائل کو مزید گھمبیر کرکے رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہرحکمران نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے کچھ نہیں کیا شاید اسی پالیسی پر آج بھی عمل ہورہا ہے حالانکہ حکومت کا اصل کام عوام کا معیار ِ زندگی بلند کرنا اورغربت کم کرنا ہے عوام تو مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں اس بارے حکمرانوں کوسوچنا چاہیے ۔
ایک بات قابل ِ غور ہے کہ جب تک جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی سارک تنظیم میں شامل ممالک میں غربت کی شرح میں خوفناک اضافہ تشویش ناک ہے اس نازک ترین صورت حال پر حکمرانوںکا جوکردار ہونا چاہیے وہ نظر نہیں آرہا کرپشن،اقربا پروری اور اشرافیہ کا اختیارات سے تجاوز بھی سنگین مسائل بن چکے ہیںجس سے لوگ مایوس کیوں ہوتے جارہے ہیں ؟ حکمرانوں کو یہ بھی احساس کرنا ہوگا کہ معاشی چکی میںپسے عوام موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہیں ہیںحکمران عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں تیار کریں جس سے عوام کو ریلیف مل سکے لوڈشیڈنگ،مہنگائی اور کرپشن جیسی لعنتوںسے پاک،خوشحال ،پر امن اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط پاکستان بنانے کے لیے پہلے سے زیادہ غور،فکر اور محنت کرنی چاہیے۔ امید۔خوش فہمی ۔یقین اور جاگتی آنکھوں کے سپنے ہمیں مسلسل حوصلہ دیتے رہتے ہیں شاید اسی لیے یہ کہاوت ضرب المثل بن گئی ہے امید پر دنیا قائم ہے۔ اللہ کرے ہماری سب کی امید قائم رہے زبانی جمع خرچ کے دلفریب اعدادوشمار سے تو عوام کی حالت بہتر نہیں بنائی جا سکتی لگتاہے حکمرانوںکو عام آدمی کا کوئی احساس نہیں اس لیے مخیر حضرات،سماجی تنظیموں اور درد ِ دل رکھنے والوںکو میڈان میں آناہوگا سسکتے،کچلے طبقات ،کم وسائل،غریب اور محرومیوں کے مارے لوگوں سے درد کا رشتہ قائم کرنا کوئی مشکل نہیں کچھ عملی اقدامات،نوجوانوں کی مناسب رہنمائی اور مالی معاونت ،روزگار کے وسائل مہیا کرنا،تعلیمی ضروریات کی فراہمی سے بہت کچھ کیا جا جاسکتاہے یقین جانئے نئی نسل کا مستقبل روشن کیا جاسکتاہے شرط یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں دردکا رشتہ ایک تواناں شجر بن کر پھل دینے لگے جس کا سایہ صدقہ ٔ جاریہ بنا تو عاقبت سنور جائے گی یادکھیںحکمرانوں کی طرف نہ دیکھیں اپنے آپ کو اس عظیم کام کے لیے تیارکریں ہم پہلا قدم اٹھانے سے ہی منزل کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر