وجود

... loading ...

وجود
وجود

نسلہ ٹاور کی مسماری کیوں ضروری ہے؟

منگل 02 نومبر 2021 نسلہ ٹاور کی مسماری کیوں ضروری ہے؟

بالآخر سپریم کورٹ نے ایک ہفتے کے اندر،اندر نسلہ ٹاور کی فلک فوس عمارت کو بارودی مواد کے دھماکے سے گرانے کا حتمی حکم صادر کردیا ہے۔ یوں نسلہ ٹاور کو مسمار ہونے سے بچانے کی آخری’’قانونی اُمید ‘‘بھی دم توڑ گئی ۔ یادر ہے کہ نسلہ ٹاور کراچی شہر کی اُن تجارتی و رہائشی عمارات میں سے ایک ہے، جسے قبضہ مافیا نے حکومتی اداروں کی ساز باز سے غیر قانونی طور پر تعمیر کیا تھا۔نسلہ ٹاور گزشتہ 40 برسوں میں کراچی میں ہونے والی چائنہ کٹنگ کے سبب وجود میں آنی والی عمارات میں سب سے نمایاں اور بد ترین مثال ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نسلہ ٹاور کو بہرصورت مسمار کروا کر ایک عبرت ناک مثال بنانا چاہتی ہے ۔اُن لوگوں کے لیے جو اس طرح کے غیر قانونی رہائشی و تجارتی منصوبے بناتے ہیں جبکہ ساتھ ہی اُن لالچی لوگوں کو بھی سبق سکھانا چاہتی ہے جو بلاسوچے سمجھے اِس قبیل کے غیر قانونی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیئے فوری طور پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ بظاہر نسلہ ٹاور کو گرانے کا فیصلہ انتہائی سخت ’’قانونی فیصلہ ‘‘ لگتاہے، خاص طورپر اُس وقت ،جب اس عمارت میں 40 ہنستے ،بستے خاندان بھی رہائش پذیر ہوں۔ لیکن اگر بادی النظر میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور کو زمین بوس کرنے کا فیصلہ جاری کرکے بالکل ایک راست قانونی اقدام اُٹھایا ہے۔
کیونکہ اگر سپریم کورٹ اس عمارت میں آباد رہائش پذیر خاندانوں کی بے سروسامانی کا لحاظ کرتے ہوئے نسلہ ٹاور کو گرانے کے فیصلہ سے ذرا سا بھی پیچھے ہٹتی تو پھر اسے کراچی شہر میں موجود دیگر غیرقانونی عمارتوں کی مسماری سے بھی کئی قدم پیچھے ہٹنا پڑتا۔یعنی قبضہ مافیہ نسلہ ٹاور کو مستقبل میں اپنے لیئے ایک جواز، یا بہانہ بناکراپنی دیگر غیر قانونی تجاوزات کو بھی قانونی بنوانے کے لیے جوق در جوق عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے نکل پڑتے۔ ایک عام تاثر یہ بھی ہے پایا جاتاہے کہ نسلہ ٹاور کو گرانے سے بچانے کے لیے سب سے زیادہ متحرک بھی قبضہ مافیا ہی ہے، جس کی روزِ اول سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کے بے گھرہونے کا میڈیا میں شورو غوغا کرکے سپریم کورٹ سے نسلہ ٹاور کو قانونی طور پر بدستور اپنی برقرار رکھنے کا فیصلہ حاصل کرلیا جائے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور کو گرانے کا واضح اور آخری حکم نامہ جاری کرکے قبضہ مافیا کا سارا مذموم منصوبہ چوپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ جہاں تک نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کے بے گھر یا بے چھت ہونے کا مسئلہ ہے تو اُس کے لیے سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو پابند کیا ہے کہ نسلہ ٹاور میں آباد تمام خاندانوں کو نسلہ ٹاور کے مالکان سے اُن کی رقوم کی واپسی فور طور پر یقینی بنائے اور انہیں متبادل اور بہتر رہائش کا سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی بندوبست فرمایا جائے۔
یقینا نسلہ ٹاور میں برس ہا برس سے رہائش پذیر افراد کے لیے اچانک سے کسی نئی اور متبادل جگہ پر آباد ہونا ایک مشکل اور کٹھن کام توہوگا ، مگراگر اِن باہمت اور حوصلہ مند افراد نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مکمل پاس داری کی تو عین ممکن ہے کہ اُن کے آج اُٹھائے گئے اس مشکلات بھرے اقدام کی بدولت کل نہ جانے کتنے خاندان نسلہ ٹاور جیسی غیر قانونی عمارتوں سے اچانک بے گھر اور بے دخل ہونے کے عذاب اور دُکھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ و مامون ہوجائیںگے۔ واضح رہے قبضہ مافیا اور چائنا کٹنگ کرنے والوں کا تمام تر کاروبار چل ہی اُن لوگوں کی وجہ سے رہا ہے ، جو یہ سوچ کر غیر قانونی اور تجاوزات پر بننے والی رہائشی و تجارتی اسکیموں میں اپنی عمر بھر کی جمع پونجی ،سرمایہ کاری کی آگ میں جھونک دیتے ہیں کہ ’’پاکستان میں تو سب چلتاہے‘‘۔ نسلہ ٹاور کے گرائے جانے کے بعد کم ازکم عام آدمی کو تو یہ پیغام ضرور جا سکے گا کہ ’’اس ملک میں غیر قانونی طور پر بنایا گیا ہوا ،بہت کچھ گرایا بھی جاسکتا ہے‘‘۔جب قبضہ مافیا اور چائنہ کٹنگ کرنے والوں کو غیر قانونی پلاٹ ،تجارتی دُکانیں اور رہائشی عمارتیں خریدنے والے ہی نہیں ملیں گے تو تب ہی اُن کا دھندا ،صحیح معنوں میں مندا ہوگا۔ علاوہ ازیں غیرقانونی تجاوزات کی مسماری سے قبضہ مافیا اور ان کے سہولت کاروں کی زبردست حوصلہ شکنی بھی ہوگی۔
جب یہ طے ہوگیا کہ سپریم کورٹ کے حکم روشنی میں نسلہ ٹاور کی مسماری سے ہماری آنے والی نسلوں کو خاطر خواہ فائدہ ہونے کا قوی امکان ہے تو یہاں اَب اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا نسلہ ٹاور کو کنٹرول بلاسٹنگ کے ذریعے مسمار کیا جاسکتا ہے؟۔جیسا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں ہدایت جاری کی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ تر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ’’نسلہ ٹاور کو بارودی مواد کے دھماکے سے اُڑا ناعین ممکن ہے اور بلند و بالا عمارت کو بلاسٹ کے ذریعے گرانے کی ٹیکنالوجی کو کنڑولڈ ڈیمولیشن یا امپلوشن کہتے ہیں۔اس ٹیکنالوجی میں دھماکا خیر مواد کو عمارت کے بیم، پلرز اور سلیب کے ساتھ خاص ترتیب اور مقدار میں نصب کیا جاتا ہے۔جس کے بعد دھماکا خیر مواد ترتیب وار مرحلے کے ساتھ پھاڑا جاتا ہے۔ اس سائنسی عمل کے ذریعے عمارت کو دھماکے سے ایکسپلوڈ نہیں بلکہ امپلوڈ کیا جاتا ہے‘‘۔یاد رہے کہ ایکسپلوڈ ہونے والی عمارت کا ملبہ چاروں طرف دور ،دور تک بکھر جاتاہے ۔ اس کے مقابلہ میں امپلوڈ کی جانے والی عمارت سیدھی نیچے کی جانب آتی ہے اوراس کا ملبہ بھی ادھر ،اُدھر زیادہ دور تک نہیں بکھرتا۔ پاکستان میں کنٹرول بلاسٹنگ کی اجازت ایف ڈبلیو او کے پاس ہے۔ ایف ڈبلیو او پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹرک ڈرائیوروں اور پاکستانی فوج کے زیر انتظام کام کرنے والا ایک بڑا تعمیراتی ادارہ ہے۔سپریم کورٹ کے حکم کی تکمیل کے لئے ایف ڈبلیو او کی خدمات لی جاسکتی ہیں۔کیونکہ ماضی میں ایف ڈبلیو او، نادرن بائی پاس کی کنٹرول بلاسٹنگ کا تجربہ انتہائی کامیابی کے ساتھ انجام دے چکا ہے۔
دوسری جانب ہم یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ ، اس کیس کی آئندہ کی سماعتوں میں نسلہ ٹاور کے متاثرین کو اُن کی ڈوبی ہوئی رقوم دلوانے کے لیئے سندھ حکومت پر خصوصی نظر رکھے گی ۔ کیونکہ نسلہ ٹاور جیسی عمارات کی تعمیر میں ایک بڑا بہت کردار ماضی کی تمام صوبائی حکومتوں کا بھی رہا ہے اور ویسے بھی گزشتہ 40 برسوں میںپاکستان پیپلزپارٹی کو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ سندھ پر حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس لیئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نسلہ ٹاور کے متاثرین کی دامے ،ورمے ،سخنے پوری انتظامی دل جمعی کے ساتھ دل جوئی فرمائیں ۔ نسلہ ٹاور کے متاثرین کے لیے سندھ حکومت بہت کچھ کرسکتی ہے ،اگر کرنا چاہے تو۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر