وجود

... loading ...

وجود
وجود

شہدائے کارساز‘‘ کے لواحقین کو چارہ گر کی تلاش ہے

جمعرات 21 اکتوبر 2021 شہدائے کارساز‘‘ کے لواحقین کو چارہ گر کی تلاش ہے

 

بلاشک و شبہ سانحہ کارساز کے شہدا کی یا دمیں پیپلزپارٹی کراچی میں ایک فقید المثال اور تاریخ ساز’’سیاسی جلسہ‘‘ منعقد کرنے میں کامیاب رہی ۔ اس جلسے میں صوبے بھر سے پاکستان پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکنان اور عہدیداران نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی چھوٹی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری کے علاوہ وزیرا علی سید مراد علی شاہ ،نثار کھوڑو، سعید غنی، ناصر حسین شاہ،، وقار مہدی، عاجز دھامرا، آصف خان، شازیہ مری، فیصل کریم کنڈی، علی مدد جتک اور دیگر مرکزی قائدین بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ لیکن اتنے بڑے اسٹیج پر اگر نہیں تھے تو بس! وہ بے چارے مظلوم لوگ ، جن کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی نے یہ عظیم الشان تعزیتی جلسہ منعقد کیا تھا۔ یعنی 180 شہداء کے وہ بدقسمت لواحقین ،جن کے پیارے ،راج دلارے آج سے ٹھیک 14 برس قبل اپنی عظیم قائد بے نظیر بھٹو شہید کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے ، یکے بعد دیگرے ہونے والے دو خود کش بم دھماکو ں میں شہید ہوگئے تھے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر سانحہ کارساز کے شہدائے کی یاد میں منعقد ہونے والے مذکورہ ’’تعزیتی جلسے ‘‘ میں اسٹیج پر 180 شہدا کے لواحقین میں سے کم ازکم چند افراد، اسٹیج پر کھڑے ہوکر اپنے پیاروں کی پاکستان پیپلزپارٹی اور اس قیادت کے ساتھ بے لوث محبت کا تذکرہ کرتے اور پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنماو قائدین خاموشی کے ساتھ پارٹی پر جان نچھاور کرنے والوں کی گفتگو سنتے ۔
پاکستانی سیاست کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو بھی یہ بات تسلیم کرنے میں قطعاً کوئی عار نہیں ہونی چاہیئے کہ جمہوری جدوجہد کی راہ میں جس ایک سیاسی جماعت کے کارکنان نے سب سے زیادہ جانیں قربان کی ہیں ۔ وہ سیاسی جماعت یقینا پاکستان پیپلزپارٹی ہی ہے۔ لیکن کیا پیپلزپارٹی نے اپنے خونِ شہیداں سے وفا کرتے ہوئے شہدا کے لواحقین کی داد رسی کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کاوش کی ہے ؟۔یہ ایک ایسا تلخ اور مشکل سوال ہے ، جس کا تسلی بخش جواب پیپلزپارٹی کے کارکنان کو آج تک نہیں مل سکا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مذکورہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو اپنا وعدہ پورا کرتی ہے، پیپلز پارٹی عوام دوست منصوبے بناتی ہے، عوامی معیشت کو بحال کرتی ہے اور غریبوں کو نوکریاں دیتی ہے‘‘۔ کتنا اچھا ہوتا اگر بلاول بھٹو اپنی اسی تقریر میں سننے والوں کو ساتھ ہی یہ بھی بتادیتے کہ سانحہ کارساز کے 180 شہدا کے لواحقین میں سے کتنوں کو گزشتہ 14 برس کے دوران، سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری نوکریاں فراہم کی گئی ہیں۔ یاد رہے کے گزرے 14 میں سے 12 سال سے تو پیپلزپارٹی سندھ میں بلاشرکت غیرے واحد برسراقتدار سیاسی جماعت ہے۔
دوسری جانب دوماہ بعد 27 دسمبر کو شہید بے نظیر بھٹو کی برسی منائی جائے گی ،یاد رہے کہ بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ ،راولپنڈی میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے بے شمار کارکنان شہید اور زخمی ہوئے تھے۔ لیکن افسوس صد افسوس سانحہ لیاقت باغ کے شہدا کے لواحقین بھی ہنوز اپنی سیاسی جماعت کی جانب سے سرکاری نوکریوں اور مالی امداد کے منتظر ہیں ۔ دراصل پاکستان میں سیاسی جماعت کے کارکنان کا کبھی کوئی پرسان ِ حال نہیں رہاہے ۔جبکہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں تو مذہبی جماعتیں ہی قدرے بہتر رہی ہیں جو کم ازکم اپنے شہدا کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ گاہے بہ گاہے شہد ا کے لواحقین کی دامے ، ورمے ،سخنے امداد بھی کرتی رہتی ہیں ۔ مثال کے طورپر 17 جون 2014 میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں تحریک منہاج القرآن کے کم و بیش 100 کارکنان شہید ہوگئے تھے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن نہ صرف آج تک اپنے شہدا کے لواحقین کو گزر بسر کے لیے باقاعدگی سے مالی امداد فراہم کررہی ہے بلکہ ہر برس 17 جون کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کو الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر خصوصی انٹرویوز اور خبریں بھی نشر کرواتی ہے۔ شایدیہ ہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کا ہر کارکن شہدائے ماڈل ٹاؤن اور اُن کے لواحقین سے بخوبی آگاہ ،اور واقف ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کا یہ حال ہے کہ پیپلزپارٹی کے اکثر رہنماؤں کو تو سانحہ کارساز کے 180 شہدا کا درست نام و پتا بھی نہیں معلوم ہوگا۔
حد تو یہ ہے کہ شہدائے سانحہ کارساز کی یاد میں منعقد ہونے والے جلسے میں مقررین کی تقاریر کا مرکز و محور بھی سانحہ کارساز سے کہیں زیادہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی ذات با برکات رہی اور اگر بلاول بھٹو زرداری سمیت کسی مقرر نے سانحہ کارساز کا اپنی تقریر میں تذکرہ بھی کیا تو وہ بھی بس آٹے میں نمک کے برابر ۔ حالانکہ ہماری دانست میں ’’شہدائے کارساز ‘‘ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کیے جانے سے کہیں زیادہ مذکورہ جلسہ میں یاد کیے جانے کا استحقاق رکھتے تھے۔ جہاں تک عمران خان اور اُن کی حکومت پر تنقید کے نشتر چلانے کی بات تھی تو وہ پیپلزپارٹی کے مقررین دیگر بے شمار سیاسی و غیر سیاسی مواقعوں پر خوب دل کھول کر چلاسکتے تھے۔ واضح رہے کہ ’’شہدائے کارساز ‘‘ کے لواحقین کو اس بات سے کیا غرض ہوگی کہ عمران خان کی حکومت درست خطوط پر چل رہی ہے یا غلط سمت میں ۔انہیں تو اگر دلچسپی ہوگی تو صرف اس بات سے کہ اُن کے پیاروں نے جن کے لیے اپنی جان، جانِ آفرین سپرد کی ،کیا اُن کے جانشین ،آ ج کے دن انہیں یاد بھی کرتے ہیں یا نہیں ؟۔
یاد رہے کہ سانحہ کارساز میں 180 شہدا کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینکڑوں جیالے شہید بے نظیر بھٹو کے قافلے کا تحفظ کرتے ہوئے شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔ جن میں سے بے شمار تو عمر بھر کے لیے جسمانی معذوری کا بھی شکار ہوگئے تھے۔ بدقسمتی سے ان جیالے کارکنان کو بھی پیپلزپارٹی ابھی تک سرکاری نوکریاں فراہم نہیں کرسکی ہے۔ حالانکہ اِن سب جیالوں کی اکثریت سندھ کا ڈومیسائل رکھتی ہے ،اس لیے انہیں سندھ حکومت چاہے تو باآسانی اور کچھ نہیں تو کم ازکم معمولی سرکاری نوکریاں تو فراہم کر ہی سکتی ہے۔ دراصل ’’شہدائے کارساز‘‘ کے لواحقین کو سیاسی برزجمہروں کے بجائے اپنے چارہ گروں کی تلاش ہے۔ کیا پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سانحہ کارساز کے متاثرین کی چارہ گرئی فرمائیں گے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر