وجود

... loading ...

وجود
وجود

جرمنی میں سیاسی عدمِ استحکام کااندیشہ

هفته 09 اکتوبر 2021 جرمنی میں سیاسی عدمِ استحکام کااندیشہ

انتخاب سے قبل ہونے والے تیسرے اور حتمی ٹی وی مباحثے کے بعد مبصرین 26ستمبر کوجرمنی میں ہونے والے عام چنائو میں وزیرِ خزانہ اولاف شلزکی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کی جیت کا امکان ظاہرکرنے لگے تھے اِس ٹی وی مباحثے میں غربت کے مقابلے، ماحولیاتی تحفظ اور داخلی سیکورٹی کے معاملات پر زوردار بحث ہوئی موجودہ حکمران جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے امیدوار آرمین لاشیٹ نے گفتگو میں مزکورہ مسائل کے حوالے سے واضح روڈ میپ دینے کی بجائے دفاعی انداز اپنائے رکھا مگر حریف اولاف شلز نے تابڑ توڑ حملے کیے اور یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ انجیلا مرکل کااحترام ،سادگی اور خلوص اپنی جگہ ، دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جرمن قوم کو موجودہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے اور جارحانہ انداز اپنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے سنجیدہ اور پُرعزم لیڈرشپ ضروری ہے مبصرین کو اسی مباحثے سے اندازہ لگانے میں آسانی ہوئی کہ پارلیمانی انتخابات میں موجودہ جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو برتری ملے گی البتہ جیت اور ہار میں زیادہ فرق نہیں ہوگا نتائج سے مبصرین کے اندازے درست ثابت ہوئے اب انجیلامرکل کی جگہ نئے چانسلرکاانتظارہے جس کے آنے سے موجودہ خاتون چانسلر کے سولہ سالہ اقتدار کا خاتمہ ہو جائے گا۔
چانسلر کے امیدوار اولاف شلزبے داغ شخصیت کے مالک نہیں بلکہ ملک میں اُن کے ناقدین کی کمی نہیں جس کی وجہ مالیاتی کئی الزامات اوراِس حوالے سے تحقیقات ہیں جن کا سلسلہ انتخابی مُہم کے دوران بھی جاری رہا ایک موقع پر تو ایسا دکھائی دینے لگا تھا کہ چانسلر بننے کا خواب شایدہی پورا ہو اور شلز کا سیاسی اختتام بطور وزیرِ خزانہ ہی ہوجائے آغاز میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور اُس کے اتحادی بھی ہونے والی تحقیقات سے پریشان نظر آئے لیکن سیاستدان ہر وقت فائدے کی راہیں تلاش کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں یہاں بھی ایسا ہی ہوا تحقیقات کے دوران قانون سازوں کی طرف سے آڑے ہاتھوں لینے کے باوجودشلز نے اعصاب مضبوط رکھے اور ناکامی پر منتج ہوتی بازی پلٹ کر سب کو حیران کر دیا انھوں نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے ویڈیو لنک کے ذریعے سوالات کے جوابات دینے کی بجائے غیر متوقع طور پردلائل دینے کے لیے پارلیمنٹ کی فنانس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا مشکل راستہ اختیار کیا جس سے انھیں یہ فائدہ ہوا کہ وہ تحقیقات کرنے والوں کوبڑی حد تک مطمئن کرنے میں کامیاب رہے حالانکہ اُن سے تابڑتوڑ سوال ہوئے تاکہ پریشان ہو کر کوئی ایسا نکتہ دے سکیں جس سے تحقیقاتی کمیٹی کو الزامات ثابت کرنے میںمدد ملے لیکن جواب دیتے ہوئے شلز بلکل پُرسکون رہے اور کوشش کی کہ تحقیقاتی کمیٹی سے اُلجھانہ جائے مباداکوئی ایسا کام ہو جس سے انتخابی مُہم متاثر ہواِس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے اور تابڑتوڑ سوال کرنے والے قانون سازوں کو جلد ہی نازک حالات کی بنا پر پسپائی اختیار کرنا پڑی یہ ایسی جیت تھی جو شلز کی گرویدہ حلقے میں قدرومنزلت بڑھانے کا باعث بنی اور ساٹھ ملین سے زائد حقِ رائے دہی رکھنے والے ملک کی عوام کی اکثریت کے دل میں اپنے حق میں ہمدردی کی لہر پیداکرنے میں کامیاب ہونے کے ساتھ میدان میں اُتری کل سینتالیس جماعتوں اورگروپوں کے بھنورسے اپنی جماعت کو پہلی پوزیشن دلانے میں کامیاب ٹھہرے ۔
انجیلا مرکل کی کامیابیوں یا ناکامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اُن کی سادگی نے جرمنوں میں اُنھیں احترام دلایاہے مگر درپیش چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے انھوں نے ذیادہ تر دنیا کی مان کر ساتھ چلنے کی کوشش کی اور کم ہی مواقع پرالگ راہ اپنائی ہے حالانکہ نیٹو جیسے اتحادکے ممبرہونے کے باوجود ترکی اور فرانس نے جب چاہا الگ موقف اپنایا لیکن جرمنی جیسے بڑے ملک ،جس کی معیشت بھی مضبوط ہے کی انجیلا نے وقت گزار پالیسی پر صاد کیے رکھا یہ انداز بھی مرکل کے احترام میں کمی نہ لا سکالیکن حکمران جماعت کرسچین ڈیموکریٹس سے وابستہ سیاستدانوں پر ماسک ڈیل اسکینڈل میں ملوث ہونے متنازعہ ڈیل میں مالی فوائد کے الزام لگے یہ اسکینڈل رائے عامہ بالخصوص نوجوانوں کے زہن متاثر کرنے کاایک سبب بناپھربھی انجیلا کی واجبی سی کار کردگی کے باوجود اُن کا احترام اُن کی جماعت کرسچن ڈیمو کریٹک یونین کوحالیہ چنائو میں اچھے ووٹ دلانے کا باعث بنا یہ قدامت پسند جرمن معاشرے کا مگراب جرمن احترام کے باوجود ایسی شخصیت کو آگے لانے کے متمنی ہیں جو جرمنوں کو ایک بار پھر عالمی سطح کا اہم کھلاڑی بنائے اور ہر وقت افہام و تفہیم کی بجائے طاقتور ملک کے طاقتور لیڈر کی طرح چلے یہ سوچ جرمنوں کے زہنوں میں نمو پارہی ہے اور افہام وتفہیم اور جارحانہ مزاج رکھنے والوں میں جرمن تقسیم ہورہے ہیں۔
کیا نئے جرمن چانسلر کی آمد کے حوالے سے کوئی صد فی صد درست پیش گوئی کی جا سکتی ہے؟ میرے خیال میں ایسی کوئی بات کرنایا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہو گا جوجہ یہ ہے کہ 26ستمبر کے پارلیمانی انتخابات میں کوئی بھی جماعت واضح برتری حاصل نہیں کر سکی حکمران قدامت پسندجماعت کرسچن ڈیمو کریٹک یونین سے سخت مقابلے کے بعدسوشل ڈیموکریٹک پارٹی کومعمولی برتری ہی حاصل ہو ئی ہے ملک میں کُل ڈالے گئے ووٹوں کا سوشل ڈیموکریٹک پارٹی 25.7 اورموجودہ حکمران کرسچن ڈیموکریٹک یونین کو 24.1فی صدووٹ ملے ہیں جبکہ ماحول دوست سیاسی جماعت گرین پہلی بار14.8ووٹ لیکرملک کی تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے موجودہ حکمران جماعت نے گزشتہ الیکشن سے پچیس فیصد ووٹ کم لیے ہیں اِس حوالے سے وجوہات کا زکر کیا جا چکا پارلیمان میں حکمران جماعت196 نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ سوشل ڈیموکریٹک 205نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر آئی ہے اور یہ کوئی ذیادہ نمایاں فرق نہیں کسی بھی مناسب اتحاد کے ساتھ موجودہ حکمران جماعت کم ووٹ لینے کے باوجودسوشل ڈیموکریٹک کی جیت کی کو ختم کر سکتی ہے اِس لیے جیت کے باوجودشلزکے چانسلر بننے کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنے کی بجائے یہ کہنا ذیادہ آسان ہے کہ اتحادی حکومت بننے کا امکان ہے اولاف شلز کی طرف سے جیت کے دعوئوں کے باوجود مناسب اتحادی ملنے کی صورت میں آرمین شیٹ چانسلرکے چانسلر بننے کا امکان ہے مگر بننے والا اتحادکتنی مدت یاآیا چار برس تک قائم رہے گا اِس حوالے سے خدشات ہیںجرمنی کے حالیہ انتخابات نے بائیں بازوکے بنیاد پرستوں کو سخت مایوس کیا ہے عین ممکن ہے موجودہ چانسلر انجیلا مرکل اُس وقت تک منصب پر موجود رہیں جب تک نئے اتحاد کی صسورتحال واضح نہیں ہو جاتی ۔
نئے جرمن چانسلر کے لیے اقتدار آسان نہیں ہوگا مرکل کو فوربز کی طرف سے دس برس تک طاقتور ترین خاتون کا اعزاز ملتا رہا وہ خاموش طبع ضرور تھیں لیکن مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نظر آتیں اب دیکھنا یہ ہے کہ نیا چانسلر جرمنی کو کیسے آگے لیکر چلے گا ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے کتنا سنجیدہ کر دار ادا کرپائے گا ایک بات طے ہے کہ طاقتور معیشت مگر منقسم رائے کے حامل ملک کی قیادت کرنا بہت مشکل تر ہورہا ہے اہلیت اور صلاحیت کے خوب مظاہرے سے ہی انجیلا مرکل کی کمی پوری ہو سکتی ہے دونوں بڑی جماعتیں کر سمس سے پہلے اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہیں مگر کچھ مبصرین تیسرے اور حتمی مباحثے کے فاتح اولاف شلز کے بارے پُر امید ہیں کہ وہ اتحادی حکومت کا ہدف حاصل کر نے میں کامیاب ہوجائیں گے پھر بھی اِس حوالے سے اگلے دو ماہ اہم ہیں اور جرمنی کے آئندہ چانسلر کا انتخاب مشکل ہو سکتا ہے موجودہ حکمران جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور ماحول دوست جماعت گرین اگر اتحاد بناتی ہیں تو جرمنی میں سیاسی عدمِ استحکام کے اندیشے کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر