وجود

... loading ...

وجود
وجود

میڈیکل طلبا کے امتحان ،جانے کب ہوں گے ختم

جمعرات 07 اکتوبر 2021 میڈیکل طلبا کے امتحان ،جانے کب ہوں گے ختم

پاکستان میں نظام تعلیم کا معیار بلند ہوتے،ہوتے اَب اس نازک مقام پر جاپہنچا ہے کہ طلبا وطالبات کو میڈیکل کالجز میں داخلہ کے لیے درکار پاسنگ مارکس حاصل کرنے کے لیے بھی شہرشہر ،گلی گلی احتجاج کرنا پڑرہاہے۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ ایک طالب علم کو ڈاکٹر بننے کے لیے کتنے امتحانات سے گزرنا ضروری ہے؟۔اس سوال کا درست جواب آج تک کوئی نہیں جان سکا۔ ابتداء میں طلباء سمجھتے ہیں کہ اگر انٹر میڈیٹ سائنس کا امتحان انہوںنے امتیازی نمبروںسے پاس کرلیا تو وہ باآسانی ڈاکٹر بن جائیں گے ۔لیکن انٹر میڈیٹ کے امتحان میں پورے تعلیمی بورڈ میں ٹاپ کرنے والے طالب علم کو پہلا دھچکہ اُس وقت لگتا ہے ۔جب اُسے معلوم ہوتاہے کہ میڈیکل کالج میں داخل ہونے کے لیے’’ٹاپ پوزیشن‘‘ کا طوق گلے میں پہن کر انٹری ٹیسٹ کے پل صراط سے گزرنا ابھی باقی ہے۔اور اس شاہراہ پر چلنے کے لیے طالب علم کو اپنی گزشتہ 12 سال کی اعلیٰ تعلیمی کارکردگی پر تکیہ کرنے کے بجائے ازسرِ نو ’’نجی اکیڈمی‘‘ میں بھاری فیس کی ادائیگی کر کے چند ماہ مزید انٹری ٹیسٹ حل کرنے کے خفیہ اسرار و رموز سیکھنے ہوں گے۔ کتنے بدقسمتی کی بات ہے کہ انٹری ٹیسٹ جسے آج کل ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے، میں طالب علم کو 60 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے کے باوجود بھی میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے کے لیے فقط اس لیے نااہل قرار دے دیاجائے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے رواں برس نام نہاد ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ کے امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے درکار پاسنگ مارکس کی شرح میں اٖضافہ کردیا گیا ہے۔
یقینا پاکستان میڈیکل کمیشن نے پاسنگ مارکس کی شرح میں اضافہ کا بندوبست اس لیے فرمایاہوگا کہ طلبا و طالبات کی تعلیمی کارکردگی کئی برسوں سے امتحانات میں کھلم کھلا نقل بازی ، رٹہ بازی اور ٹیوشن سینٹرزکی بھینٹ چڑھ کر روبہ زوال ہوچکی ہے۔ لہٰذا پی ایم سی نے طلباو طالبات کو کھڑے اور کھوٹے کی چھلنی میں چھاننے کے لیے ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ کے امتحان میں پاس ہونے کے لیے مارکس کی شرح میں اضافہ کردیاہے۔ یہ بالکل ایک ایسی ہی مثال ہے کہ اگر کرکٹ کا ایک کھلاڑی ڈومیسٹک مقابلوں میں چھوٹی، موٹی مقامی ٹیموں کے خلاف مسلسل بہت بری کارکردگی کا مظاہر ہ کررہا ہو،تو اُس کا کوچ مذکورہ کھلاڑی کے کھیل میں موجود تیکنیکی نقص، کمی،کجی اور کمزوری کو ٹھیک کروانے کے بجائے، اُلٹا اُسے ہلہ شیری دے کر براہ راست انٹرنیشنل میچ میں بڑی اور تجربہ کار ٹیموں کے خلاف میدان میں اُتار دے۔ کیا ایسا کرنے سے کھلاڑی کا کیرئیر تباہ نہیں ہوگا؟۔
بالکل کچھ ایسے ہی پاکستان میڈیکل کمیشن، ملک بھر کے طلباء و طالبات کو ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ امتحانات کی سولی پر چڑھا کر اُن کا سارا کیرئیر برباد کرنا چاہتاہے۔ چونکہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کے طلباء و طالبات اپنی صوبائی حکومتوں کی تعلیم دشمن پالیسیوں کی باعث تعلیمی میدان میں دیگر صوبوں کے طلبا کے مقابلے میں کافی کمزور واقع ہوئے ہیں ۔ اس لیے اِن دونوں صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کی اکثریت حالیہ ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ امتحانات میں بُرے طریقے سے فیل ہوگئی ہے۔ یعنی ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ کے نتائج کو من و عن تسلیم کرلیا جائے تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوگا کہ رواں برس سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 90 فیصد طلباو طالبات میڈیکل کالجز میں داخل ہی نہیں ہوں سکیں گے۔
شاید مسئلہ کی اسی سنگینی کو سمجھتے ہوئے ہی سندھ کی صوبائی وزیر صحت و بہبود آبادی ڈاکٹر عذرا پیچوہونے بھی ’’ایم ڈی کیٹ‘‘ کے نتائج کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ ہمیں تو پی ایم سی پر پہلے سے ہی سخت تحفظات لاحق تھے کہ اس ادارے کے قیام سے طلبائو طالبات کو فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان ہوگا اور ہمارا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا ۔اَب ہمارے پاس دو آپشن ہیں پہلا یہ کہ ہم اپنے طلباء کا انٹری ٹیسٹ ، از سرِ نو خود لے لیں اور دوسرا آپشن ہم سندھ کے میڈیکل کالجز میں نشستوں پر داخلہ کے لیے درکار پاسنگ مارک کی شرح کو کم کردیں ‘‘۔پی ایم سی کی انتظامہ کی ہٹ دھرمی اور ضد کو دیکھتے ہوئے صوبائی وزیر صحت سندھ کی تجویز پر عمل پیرا، ہوکر ہی ہزاروں طلباء و طالبات کے روشن کیرئیر کو تاریک ہونے سے بچایا جاسکتاہے۔ واضح رہے کہ پی ایم سی کے قیام سے قبل ہر صوبے کے اپنے کورسز اور اپنے بورڈ کے امتحان اور کالجز میں داخلے کے لیے ٹیسٹ ہوتے تھے اور یہ ٹیسٹ اسی کورس میں لیے جاتے تھے،جو طلبانے پڑھا ہوتا تھا۔ پی ایم سی کے قیام کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب تمام صوبوں کے طلبا اور طالبات کے لیے یکساں کورس ہونا چاہئے ۔ بظاہر یہ ایک اچھا اقدام تھا لیکن رواں برس ہونے والے ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ کا امتحانی پرچہ میں کورس کا زیادہ تر حصہ وفاقی بورڈ اور پنجاب بورڈ سے مستعار لیا گیا ہے۔ اب یہ اُن طلبا کے لیے کٹھن مرحلہ تھا،جنہوں نے مذکورہ نافذ العمل کورس سرے سے پڑھا ہی نہیں تھا۔اس مشکل سے سرخروہونے کے لیے سندھ ،بلوچستان کے طلباو طالبات نے صوبہ پنجاب اور وفاق کی آن لائن اکیڈمیز کو بھاری فیسیں دے کر رجسٹریشن کروائی اورآن لائن ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘امتحان کی تیاری شروع کردی ۔
دوسری جانب یہ امتحان آن لائن تھا جہاں طالب عملوں کو پرچہ حل کرنے کے لیے ٹیبلٹ کمپیوٹرز فراہم کیے گئے تھے۔ میڈیاکی زینت بننے والی خبروں کے مطابق بعض امتحانی مراکز میں ایسی صورتحال بھی پیش آئی کہ وہاں کا انٹرنیٹ معطل ہو گیا۔نیز بعض طالب علموں کے ٹیبلٹ کمپیوٹرز کے اچانک ’’ہینگ‘‘ ہوگئے ۔ یعنی اگر کسی طالبعلم نے 50 سوال حل کر دیے ہیں اور اس کا ٹیبلٹ کمپیوٹر ہینگ ہو گیا ہے تو بس پھر اس کو ان 50 سوالات کے جوابات کے نمبر ہی ملیں گے۔ان ٹیبلیٹ کمپیوٹرز کے سافٹ ویئر پر تنقید کرتے ہوئے ان طالبعلموں کا کہنا تھا کہ اس میں بھی چند نقائص تھے مثلاً اگر کسی طالبعلم نے پرچے میں شامل کل 210 سوالات میں سے آخری 50 سوالات کو پہلے حل کرنے کا انتخاب کیا تو اس کے پاس باقی ماندہ سوالات کو حل کرنے لیے پرچے کے شروع میں واپس آنے کی سہولت دستیاب نہیں تھی۔اس لیے یہ امکان بھی خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ کئی طالب علم تو ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ کے امتحان میں صرف سافٹ وئیر کی خرابی کے باعث فیل ہوئے ہوں گے۔
بہرحال قصہ کوتاہ، اگر مذکورہ بالا بے قاعدگیوں کی شکایات میں سے آدھی بھی درست ہوں تو ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ امتحان کی ساری شفافیت اور غیر جانب داری ہی صرف مشکوک ہو کر نہیں رہ جاتی ہے بلکہ پاکستان میڈیکل کمیشن کی انتظامی صلاحیتوں پر بھی سنگین نوعیت کے سوالات اُٹھتے ہیں ۔ واضح رہے کہ ہمیشہ سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں یہ چلن عام رہا ہے کہ اگر میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا کوئی طالب علم اپنے تعلیمی بورڈ کے امتحانی نتائج سے مطمئن نہ ہوتو وہ اپنے امتحانی پرچوں کی جانچ کے لیے ری کاؤنٹنگ ،ری چیکنگ جیسے آپشن استعمال کرسکتاہے مگر یہاں تو پاکستان میڈیکل کمیشن ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ کے نتائج کی حقانیت اور شفافیت پر ایسے بضد ہے ، جیسے اُن کے جاری کردہ نتائج آسمانی صحیفہ ہوں ۔
بہرکیف چونکہ معاملہ ہزاروں طلباء وطالبات کے تعلیمی مستقبل کا ہے۔ اس لیے مقتدر حکومتی حلقوں کو طلبا و طالبات کے ملک گیر احتجاج کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے ۔کیونکہ مسئلہ تو صرف ’’ایم ڈی کیٹ‘‘ کے نتائج پر طلباو طالبات کو مطمئن کرنے کا ہے ناکہ اُن سب کو میڈیکل کالجز میں داخلہ دینے کا ۔ مثلاً ری چیکنگ ،ری کاؤنٹنگ یا پاسنگ مارکس کی شرح کم کرکے معاملہ کو خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکتاہے۔ یاد رہے کہ ملک بھر سے ایک لاکھ 75 ہزار طلبا و طالبات نے ’’ایم ڈی کیٹ ‘‘ کے امتحان کے لیے رجسٹریشن کروائی تھی ،جبکہ میڈیکل کالجز میں نشستیں فقط20 ہزار ہیں ۔اس لیے حکومت سے گزارش ہے کہ وہ طلبا و نتائج پر مطمئن کرنے کے لیے انتظامی بندوبست فرمائے تاکہ20 ہزار محنتی طلبا و طالبات میڈیکل کالجز اور باقی اپنے اپنے گھروں میں جاکر اگلے تعلیمی مرحلے میں شریک ہونے کی تیاری کرسکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر