وجود

... loading ...

وجود
وجود

موت کی دعا

اتوار 03 اکتوبر 2021 موت کی دعا

وہ ہمیں جب پہلی بار ملا تو سردی سے کانپ رہا تھا اس کے منہ سے بے جملے خارج ہورہے تھے ،حالت انتہائی خستہ۔پائوں گھسیٹ گھسیٹ کر چلنے کی وجہ سے جوتوںکی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی تھی۔بال گرد و غبارسے اٹے ہوئے شکل و صورت سے بھکاری نہیں لگ رہا تھا مگر تھا بھکاری۔۔۔ یقینا پروفیشنل نہیں تھا اس بوڑھے کو دیکھ کر ہم ٹھہر گئے اس کی آنکھوں میں ایک لحظے کے لیے امید کی ایک کرن ٹمٹمائی پھر وہ دور کہیں خلائوں میں گھورنے لگا ہمیں لگا شاید وہ بھوکا ہے۔دوستانہ انداز میں مسکراکراس کے شانے پرہاتھ رکھ کر پوچھا آپ کھانا کھائیں گے پہلے اس نے انکارکے اندازمیں سرکو ہلایا پھر جلدی سے بولا ہاں۔ہم نے انہیں گھر کے اندر آنے کو کہا وہ بمشکل چلتا چلتا پورچ تک آیا اور وہیں بیٹھ گیاہم نے اشارے سے اندر آنے کہ کہا ۔۔اس نے ہاتھ اٹھاکر گویا اعلان کیا میں یہیں ٹھیک ہوں بے رغبتی سے کھانا کھاکر چائے کا آدھا کپ پی کر بقایا وہیں انڈیل دی ہم نے اسے کچھ روپے دئیے اس نے ججھکتے ہوئے ہاتھ بڑھایا اب اس کی حالت پہلے کی نسبتاً قدرے بہتر تھی بوڑھے نے کہا م ۔۔مم۔۔میرے لیے دعا کرنا ہم نے تفہیمی انداز میں سر ہلایا وہ پھر بولا میرے لیے موت کی دعا کرنا۔۔۔اللہ مجھے پردہ دیدے ۔ہم اس کی بات سن کر ’’سن’’ ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ہم نے کہا ایسا نہیں کہتے۔ آپ اکیلے ہیں ۔بچے نہیں کیا؟ بیوی ہے کیا؟ گھر۔۔ ہم نے ایک ہی سانس میں کتنے سوال کرڈالے۔۔۔ نکال دیا وہ انتہائی کرب سے بولا جیسے اس کی روح میں زخم ہی رخم ہوں ۔کچھ کہا تو بدنامی۔وہ اٹھ کھڑا ہوا منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا اور بے ربط الفاظ کہتا چلا گیا۔ ایسے کردار ہمارے معاشرہ میں قدم قدم پر دکھائی دیں گے جو بڑھاپے میں بھیک مانگتے ہیں یا ٹھیلہ لگاکر شدید محنت کرتے پھرتے ہیں ۔
جن کے آرام کے دن ہیں مجبوریاں انہیں گلی گلی صدا لگا کر چیزیں بیچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔۔ حالات انہیں اس موڑ پر لے آتے ہیں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی زندگی کے آخری ایام مفلسی، بے بسی اور بیماری کے عالم کے باوجود محنت مزدوری کرکے اپنا اور گھروالوںکا پیٹ پالتے ہیں یقینا ایسے بوڑھوں کے پاس کوئی سیکنڈ آپشن بھی نہیں ہوتا یہ لوگ ہماری ہمدردی کے حقدارہیں۔ ہماری توجہ کے مستحق ہیں اور ہماری محبت کے لائق بھی۔ کوئی ہم سے پوچھے آپ کو کس چیز سے زیادہ ڈر لگتاہے ہم بلاتامل کہہ دیں گے بڑھاپے سے۔۔واقعی بڑھایا دنیا کی سب سے خوفناک چیزہے محسوس کریں ایک جیتا جاگتا انسان اپنے ہی بدن کے اعضاء اپنی مرضی کے مطابق ہلانے جلانے پرقادر نہ رہے دوسروںکا محتاج ہوکررہ جائے کس قدرلاچاری ہے کہتے ہیں بڑھاپا سو بیماریوںکی ایک بیماری ہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں جاویداقبال بھٹی وہ بوڑھے دکانداروں،ادھیڑ عمر پھیری والوں یا معذوروں سے سودا سلف اور فروٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں ان کا کہنا ہے اس طرح ہم سب سینئر سٹیزن کی کفالت کرسکتے ہیں یہ بھی ہمدردی کی ایک شکل ہے مدد کرنے کا ایک انداز بھی۔ جس سے انہیں بھیک مانگنے سے بچایا جا سکتاہے ان کی انا مجروح نہیں ہوتی جن کے گھر والے بھی انہیں’’ فالتو ‘‘ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔یقین جانئے ہیں ہمیں خود بڑھاپے سے بہت خوف آتاہے ہمارے معاشرے میں جتنی تیزی سے اخلاقی اقدار اپنی قدر کھوتی جارہی ہیں اتنی ہی تیزی سے رشتوں کااحترام بھی دن بہ دن کم ہوتا جاتاہے کسی کا خون سفید ہوگیاہے کسی کو مہنگائی اور غربت نے جینا دوبھر کررکھاہے ادویات ،ڈاکٹر اور اچھی خورک اتنی مہنگی ہے کہ افورڈ نہیں ہوتی کسی کے پاس وسائل ہیں تو ان کے پاس اپنے پیاروں کے لیے وقت نہیں ہے یہاں حکومتی سطح پر یا کسی اور انداز میں سینئر سٹیزن کی کفالت کا کوئی مؤثر انتظام نہیںیہی وجہ سے کہ بیشتر بوڑھوںکو فالتو سمجھ کر ان کے پیارے ہی ان سے منہ موڑ لیتے ہیں یہ رویہ بوڑھے والدین کے لیے انتہائی کرب اور اذیت کا سبب بنتاہے اورمایوسی کے عالم میں وہ خود اپنی موت کی دعا کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ اسلا م نے واضح کہاہے کہ مایوسی گنا ہ ہے بندے کو اپنے رب سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے لیکن جب بوڑھوں کو ان کے گھر والے بوجھ جان کر کچھ خیال نہ کریں تو پھر ان کی شخصیت پر گہرااثر پڑتاہے یہ سب جانتے ،مانتے اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بوڑھے والدین کی طرف محبت سے دیکھنا عبادت قراردیاہے افسوس ہم پھر بھی نہیں سمجھتے اکثر لوگ یہ دعا کیا کرتے ہیں کہ اللہ کسی کا محتاج نہ کرے ہم چلتے پھرتے اس دنیاسے رخصت ہو جائیں لیکن یہ نظام ِ قدرت ہے ۔۔اللہ تعالیٰ کا اپنا سسٹم ہے ضروری نہیں کہ انسان جیسے سوچتاہے ویسے ہی ہو جائے بہرحال بڑھاپا ایک فطری امرہے اس سے انکار کرنا بھی چاہیں تو ممکن نہیں ۔ اف خدایا وہ انسان کتنا بے بس ہوگا جو اپنے مرنے کی دعا کرتاہو یقینا اس کیفیت کو بے بسی اور مایوسی کی انتا ہی کہا جا سکتاہے۔ درحقیقت اس حقیقت سے نظر بھی نہیں چرائی جا سکتی کہ بچپن، جوانی کے بعدپھر بڑھاپا بھی آنا ہے لاکھ اچھی خوراک کھانے سے بچپن اور جوانی لوٹ کر نہیں آسکتی اپنے پیاروں کی محبت کی خاطرکوشش کرنی چاہیے ان کا بڑھاپا آرام سے گذرے یہ ہم پرفرض بھی ہے اپنے بزرگوںکا قرض بھی کہ ہم ان کااحساس کریں اس وقت ہمیں وہ بوڑھا شخص رہ رہ کر یاد آرہاہے جس نے کہا تھا م ۔۔مم۔۔میرے لیے دعا کرنا ۔ موت کی دعا کرنا۔۔اللہ مجھے پردہ دیدے ۔ لیکن ہماری تو اللہ کے حضور اتنی دعاہے کہ انسان اتنا عاجز۔۔اتنا بے بس اور اتنا بھی مجبور نہ ہو کہ وہ اپنی موت کی دعا کرتا پھرے۔جب حیات بوجھ اورزندگی وبال بن جائے تو
خاک ایسے جینے پر یہ بھی کوئی جیناہے
والا معاملہ اور کیفیت بن جاتی ہے اللہ ہم سب کو اتنی خوشیاںعطا کرے کہ کوئی اپنے لیے مرنے کی دعا نہ مانگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر