وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہمارے بچوں کی معصومیت کہاں گئی؟

بدھ 15 ستمبر 2021 ہمارے بچوں کی معصومیت کہاں گئی؟

(مہمان کالم)

چارلس بلو

جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا تو امریکی خصوصاً نیویارک کے شہریوں سے کہا گیا کہ آپ سب نے بالکل نارمل زندگی گزارنی ہے تاکہ ہم دہشت گردوںکو دکھا سکیں کہ فتح ان کی نہیں‘ ہماری ہوئی ہے۔ حکام نے ہمیں کہا کہ اپنی شاپنگ جاری رکھو، باہر کھانا کھائو، بے فکر ہوکر سفر کرو۔ حملوں کے چند ہفتے بعد ہمارے میئر روڈی جولیانی نے اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران کہا تھا ’’آپ شہریوں کی بحالی کے لیے جو موثر ترین لائحہ عمل اختیار کر سکتے ہیں وہ یہ کہ پْرعزم انداز میں آگے بڑھتے رہیں ورنہ وہ جیت جائیں گے۔ ایک لحاظ سے نیویارک شہر میں زندگی کی بحالی دہشت گردوں کے لیے ایک کھلاچیلنج ہے‘‘۔ ان کا مقصد ہمیں ڈرانا اور تبدیل کرنا تھا۔ ہم نے انہیں دکھانا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ ہمیں یہی ثابت کرنا تھا۔
نائن الیون کے حملوں کے ایک ہفتے بعد میںمیٹ پیکنگ ڈسٹرکٹ کے ایک ریستوران میں ڈنر کے لیے گیا جو گرائونڈ زیرو سے‘ جہاں کبھی ٹوئن ٹاورز کھڑے تھے‘ محض ایک دو میل دور ہی واقع ہے۔ یہاں ابھی تک ملبے کا ڈھیر موجود تھا۔ ابھی تک فضا سے جلی ہوئی دھاتوں کی بو آرہی تھی۔ اس رات ہیو ہیفنر بھی خواتین کے جھرمٹ میں ریستوران میں موجود تھا۔ سب خواتین لگ بھگ ایک جیسی ہی نظر ا? رہی تھیں۔ دوسرے میزوں پر بیٹھی خواتین بھی مسکراتی ہوئی بار بار اس کی میز پر آ جا رہی تھیں اور تصاویر بنوانے کے لیے پوز بنا رہی تھیں۔ مجھے ایک لمحے کے لیے خیال آیا کہ کیا خواتین سے بھرے اس ڈنر میںکوئی دوسرا شخص ہیو ہیفنر سے بہتر بھی امریکی نمائندگی کر سکتا تھا؟ کیا یہ ایسا منظر نہیں تھا کہ جو دہشت گردوں کو دکھا رہا تھا کہ تم فاتح نہیں ہو؟
نہیں! ایسی بات نہیں ہے۔ دکھاوے کی یہ ساری جنگ محض فکشن ہے۔ بلاشبہ دہشت گرد ہمیں ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنے کا اپنا ہدف حاصل کر چکے ہیں۔ دوسرے امریکیوں کی طرح‘ میں بھی یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ہم دائمی طور پر بدل چکے ہیں۔ نائن الیون نے ہمارے اندر تحفظ کا احساس ختم کر دیا تھا۔ ہمارا تو خیال تھا کہ ہمارے اردگرد موجود سمندر ہر طرح کی بیرونی جارحیت کی راہ میں رکاوٹ بن کر حائل ہے۔ ہم تو ایک ا?زاد معاشرے کے باسی تھے اور شاید اسی آزادی کی وجہ سے ہی ہمیں نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان حملوں نے ہمارے اندر بھی بدترین جذبات بیدار کر دیے۔ میں اکثر ان حملوں کے بعد کے دنوں کو یاد کرتا ہوں کہ کس طرح ہمارے اندر بھی انتقام کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ ہمارے اندر چھپی انتقام کی یہ لہر ہی تھی جس نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ جنگجو فطرت رکھنے والوںکو انتقام کی یہ آگ ہم سب کے اندر نظر آئی اور سب بدلے کے لیے بے تاب تھے۔ اب ان کی جنگ لڑنے کی باری تھی۔ وہی جنگ جو ابھی ابھی اپنے انجام کو پہنچی ہے۔ مگر ان حملوں نے بہت سے امریکیوںکو اپنے ہمسایوں خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والوں سے اتنا خوفزدہ کر دیا کہ ہم پہلے کبھی ان سے اتنا نہیں ڈرے تھے۔ ہم پر صرف 19 ہائی جیکرز نے ہی حملہ نہیں کیا تھا بلکہ ایک کلچر اور ایک فکر نے یہ وار کیا تھا۔ معصوم امریکیوں کو محض ایک تعلق (اسرائیل) کی وجہ سے ہی قصوروار بنا دیا گیا؛ چنانچہ مشرق وسطیٰ کے شہریوں پر نظر رکھی جانے لگی، سب ان سے محتاط رہنا شرو ع ہو گئے بلکہ ان کا پیچھا ہونے لگا۔ لوگ خوفزدہ تھے بلکہ اس خوف کی بدترین انداز میں عکاسی بھی ہوتی تھی۔ اسامہ بن لادن ابھی زندہ تھا۔ امریکی عوام کی اکثریت اس خوف میں مبتلا تھی کہ مستقبل قریب میں ان پر مزید حملے ہونے والے ہیں۔ ہم اس انداز میں زندگی گزار رہے تھے کہ ایک مستقل خوف ہر وقت ہمیں گھیرے رکھتا تھا۔
جس دن امریکا پر نائن الیون حملے ہوئے تھے‘ میرے دونوں بچوں کی عمریں بالترتیب 7 اور 4 سال تھیں۔ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے کی کوئی بات یاد نہیں ہے مگر ان حملوں کے بعد ہمیں جس خوفناک دنیا میں پھینک دیا گیا تھا‘ اس کے بعد انہیں جن حقائق کا سامنا کرنا پڑا وہ سب کچھ ان کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ جو لوگ ان حملوں میں مارے گئے اور ہمارے کلاس فیلوز‘ جنہوں نے ان حملوں میں اپنے والدین کھو دیے تھے‘ سب پر ایک مسلسل خاموشی طاری تھی۔ ان میں سے اکثریت کی زندگیاں ان جنگوں میں ہی گزر گئیں، وہ جنگیں جو اس ایک دن کے حملوںکے بطن سے پھوٹی تھیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ان حملوں نے ہماری بنیادیں ہلا ڈالیں۔
سفوک یونیورسٹی نے ’’امریکا جیسا آج ہے‘‘ کے حوالے سے پولز کرائے تھے جس کے نتائج پچھلے ہفتے جاری کیے گئے ہیں، ان میں بتایا گیا ہے ’’امریکی عوام میں یہ احساس کم ہونے کے بجائے مزید تقویت پکڑ گیا ہے کہ نائن الیون حملوں نے امریکا میں زندگی کو مستقل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت‘ جب ان حملوں کو ہوئے 20 سال بیت چکے ہیں، ہماری قوم کے ذہنوں پر ایک نئے حملے کا خوف سوار ہے‘‘۔ ہم ابھی تک اپنے ماضی میں کھوئے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیںکہ آج سے 20 سال پہلے حقیقت میں ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا؟ جب ہم نے دیکھا کہ کس طرح لوگ آگ کے شعلوںسے بچنے کے لیے موت کی وادی میں چھلانگیں لگا رہے تھے، ہمیں آج اس بات کی پوری طرح سمجھ آ رہی ہے کہ لزرتی ہوئی عمارتوں کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ کس طرح لوگ پلوں پر سے گزرتے ہوئے اپنے گھروں تک پہنچ رہے تھے۔ ان کے جسم اور چہرے راکھ سے اس طرح اٹے ہوئے تھے کہ انہیں دیکھ کر کسی بھوت پریت کا گمان ہوتا تھا۔ نائن الیون حملوں کے دن ہی نیویارک ٹائمز کے نیوز روم میں ایک میٹنگ ہو رہی تھی، میں نے ایک ایڈیٹرکو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ٹوئن ٹاورز کے گرنے سے ایسے لگتا ہے کہ اس شہر کے دونوں بازو کاٹ دیے گئے ہوں مگر اس کی یہ بات پوری طرح درست نہیں تھی۔ یہ محض جسم کے کسی حصے پر حملہ نہیں تھا بلکہ یہ تو ہماری زندگی پر حملہ تھا‘ ایک ملک اور ایک شہرکے دل پر حملہ تھا۔ دہشت گردوں نے‘ القاعدہ نے اس دن یہ دکھایا تھا کہ وہ ہم تک پہنچ سکتے ہیں، ہمیں چھو سکتے ہیں، ہمارے طاقت کے مرکز پر زخم لگا سکتے ہیں۔ باکس کٹر چاقوئوں سے مسلح محض 19 لوگ‘ جو اپنی جانیں دینے کے لیے تیار تھے‘ ہمیں یکسر بدلنے اور ہمیں ایک ایسی جنگ میں دھکیلنے کی صلاحیت رکھتے تھے جس کی قیمت ہمیں کھربوں ڈالرز اور ہزاروں انسانی جانوں کی قربانی کی شکل میں چکانا پڑی۔
میری نسل کے لوگ شاید دوبارہ یہ کچھ کبھی نہیں جان پائیںگے جو کچھ ہمارے بچوں کی نسل نے دیکھا ہے؛ معصومیت اور خطرات سے غفلت۔ میرا چہرہ بلکہ ہم سب کے چہرے ٹوئن ٹاورز کی راکھ سے ہمیشہ اٹے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر