وجود

... loading ...

وجود
وجود

طالبان کا اصل امتحان

بدھ 01 ستمبر 2021 طالبان کا اصل امتحان

افغان واقعات سے دنیا حیران ہے فروری 2020 دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے امید پیدا ہو ئی کہ اگلے مرحلے میں انٹر افغان مذاکرات سے سب کے لیے قابلِ قبول سیاسی تصفیہ ہوجائے گا مگربات چیت سے مضطرب اشرف غنی حکومت نے ایسی کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے دی اور قیدیوں کی رہائی کے طے شدہ معاہدے سے انحراف کیا جس سے امن کے حوالے سے بے یقینی کے سائے گہرے ہوئے اور یہ خدشہ پیداہوا کہ 1989میں روسی افواج کے انخلا کی طرح افغانستان دوبارہ اندرونی خلفشار کا شکار ہو سکتا ہے حالانکہ امریکا اور نیٹو نے سب کو یقین تھا کہ تین لاکھ تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس فوج نہ صرف دفاع کی اہل بلکہ ساٹھ ستر ہزار طالبان کوبھی آسانی سے کچل دے گی مگر ہفتہ عشرہ کے اندر طالبان کا ملک کے بڑے حصے پر کنٹرول سے دنیا حیران رہ گئی اِس حیرانگی میں اِن واقعات سے مزید اضافہ ہو ا جب ہزاروں کی آبادیوں پر مشتمل شہروں کو چار یا پانچ طالبان لڑے بغیر فتح کر تے گئے پھر امریکا اور نیٹو نے دنیا کو یقین دلایا کہ کابل کا کنٹرول حاصل کرنے میں طالبان کو تین سے چھ ماہ لگ سکتے ہیں مگر یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہواطالبان کے کابل کے نواح میں آنے کی خبریں سن کر ہی مزاحمت کرنے کی بجائے سرکاری فوج اسلحہ چھوڑکر تحلیل ہو گئی اِس فتح سے طالبان کو ہتھیاروں کے بھاری زخائر ملے جس سے اُن کی حربی قوت میں مزید بہتری آئی یہ ایسا حیران کُن واقعہ تھا جودنیا کے لیے قطعی غیر متوقع تھا حیرانگی کے واقعات ابھی تھمے نہیںبلکہ طالبان کے مقابل شدت پسند گروپوں کے متحرک ہونے سے دنیا اتنی حیران وششدر ہے جس سے بیس سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی سوالیہ نشان بنتی دکھائی دیتی ہے ۔
عالمی طاقتوں اور تجزیہ کاروں کے اندازوں کے قطعی بر عکس جب طالبان نے گزشتہ ماہ اگست میں ملک کے 34میں سے 33صوبے اور دارالحکومت کابل تیز رفتار پیش قدمی کرتے ہوئے بغیر کسی بڑی مزاحمت کے فتح کرلیے توسب کو یقین تھا کہ ملک کے دیگر حصوں سے کابل کے حالات مختلف ہوں گے اور طالبان کے سخت گیر رویے پرفوجی ناکامی کے باوجودکابل کے شہری ضرور غم و غصہ اور ناپسندیگی ظاہر کریں گے لیکن ایسا کچھ ہونے کی بجائے ہزاروں شہری اپنا ملک چھوڑنے کے لیے ائرپورٹ پہنچ گئے کابل شہر میںقانون شکنی مکمل طور پر ختم اور امن و سکون بحال ہونے سے دنیا نے یہ پیغام لیا کہ اب طالبان کے اقتدار کوکوئی خطرہ نہیںمگرابتدا میں وادی پنچ شیرسے بغاوت کی خبریں دنیا کوحیران کرنے کا باعث بنیں پھر اچانک امریکی صدر جو بائیڈن نے القائدہ اور داعش کے منظم ہونے اور کابل ائر پورٹ پر ممکنہ حملے کا امکان ظاہر کیاجس کی برطانیا نے بھی تائید کی تائید کے اگلے روز ہی کابل شہر خود کش دھماکوں سے گونج اُٹھا جس میں تیرہ امریکی اورچھ برطانوی فوجیوں سمیت 170 لوگ مارے گئے جن میںطالبان بھی شامل ہیں نائن الیون کے بعدامریکی فوجیوں کی ہلاکت کے حوالے سے نہ صرف یہ سب سے بڑا واقعہ ہے بلکہ یہ ایسا واقعہ ہے جس میں تیسرے فریق نے امریکیوں اور طالبان کوبھی بیک وقت نشانہ بنایاحیران دنیایہ دریافت کرنے میں حق بجانب ہے کہ جدید ہتھیاروں اوروسائل کے ساتھ اطلاعات کے باوجود امریکا و برطانیا حملوں کا سدِ باب کیوں نہیںکر سکے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ حالات اُن کی مرضی و منشا کے عین مطابق ا فغانستان میں فوجی موجودگی کا جواز دیتے ہیں اسی لیے ردِ عمل میں جوش و جذبے کا فقدان ہے خود کش دھماکوں کی زمہ داری داعش خراسان گروپ نے قبول کرتے ہوئے حملہ آور کی نشاندہی بھی کی ہے انخلا کی تاریخ سے چند روزقبل یہ تخریبی کاروائی اِس امر کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ کچھ قوتوں کی پوری کوشش ہے کہ خطے میں امن و امان قائم نہ ہو۔ حملوں سے یہ بھی تاثر پختہ ہوا ہے کہ پُر امن اور محفوظ انخلا کے لیے صرف طالبان پر انحصار غلط ہے بلکہ خطے میں کچھ اور قوتیں بھی ہیں جونقصان کا موجب بن سکتی ہیں ۔
دیگر حیران کُن واقعات کی طرح ششدر کرنے والی پاک فوج کے ترجمان جنرل بابر افتخار کی27 اگست کی پریس کانفرنس ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ افغان سرحد بالکل محفوظ اور صورتحال پوری طرح کنٹرول میں ہے ابھی پریس کانفرنس کی بازگشت بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ 29اگست کوافغان سرزمین سے دہشت گردوں نے باجوڑ فوجی چوکی کو نشانہ بنا کر پاک فوج کے دو جوان شہید کر دیے حالانکہ طالبان نے ہمسایہ ممالک کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کسی ہمسائے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن محفوظ سرحد اور صورتحال کے کنٹرول کے دعوے اور طالبان کی یقین دہانی کے باوجود ایسا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوابلکہ ابھی بھی کچھ گروہ سرگرم ہیں جو خطے کو برامنی کا مرکز بنانے کے متمنی ہیںمزید یہ کہ مسئلہ افغان کے حل کی کلید اکیلے طالبان کے پاس نہیں بلکہ مزید فریق بھی ہیں جو دہشت گردی کے بل بوتے پر دنیا سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانا چاہتے ہیں خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کو خدشہ ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) افغان طالبان سے راہیں جداکر نے اور داعش و القائدہ جیسے شدت پسندوں کے ساتھ مل کر جنگ و جدل کی طرف جانے لگی ہے عراق وشام میں ایسا ہو چکا حیرانگی کی بات یہ ہے کہ شدت پسند گروہ تباہی کے لیے مسلم ممالک کاہی کیوں انتخاب کرتے ہیں ؟ اِس کا کسی کے پاس شافی جواب نہیں ۔
افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا آخری دن گزرچکا اب حکومت بنانے کے لیے طالبان کی اہلیت وصلاحیت کا اصل امتحان شروع ہو گیا ہے اُنھیں نہ صرف ماضی کے حریفوں کو ساتھ ملانا ہوگا بلکہ خواتین اور انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی برادری کے خدشات دور کرنا ہوں گے تاکہ نہ صرف جامع سیاسی حل کی منزل حاصل ہو سکے بلکہ عالمی برادری کا تعاون بھی ملے القائدہ اور داعش جیسی شدت پسندوں تنظیموں کاخاتمہ بھی اتحاد واتفاق سے ہی ممکن ہے انخلا کا یہ مطلب نہیں کہ امریکا اور عالمی طاقتیں افغان امور سے لاتعلق ہوجائیں بلکہ محفوظ اور پُرامن افغانستان کے لیے سب کوفوجی کی بجائے سیاسی حل کے لیے اپنا کردار ادا کرناچاہیے تاکہ تشدد پر یقین رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی اوربات چیت سے امن قائم کرنے کے لیے کوشاں قوتوں کوتقویت ملے القائدہ، داعش اور ٹی ٹی پی کی طرف سے بدامنی پھیلانے کے منصوبوں کا پوری قوت سے جواب دینے سے کسی کو انکار نہیںلیکن اِس سے قبل طالبان کو اعتماد میں لیناچاہیے ننگر ہار میںکابل حملوں کے ماسٹر مائنڈ اور سہولت کار کو ڈرون سے نشانہ بناکر ہلاک کرنا اور کابل میں ڈرون سے داعش کے دوکارکنوں کی ہلاکت کی کاروائیاں محدودسہی مگر طالبان کا نکتہ چینی یامذمت نہ کرناامن کی خواہشمند قوتوں کے لیے کافی حوصلہ افزاہے اور اِن واقعات سے امید پیداہوئی ہے کہ عام افراد کی جانوں کو نقصان پہنچائے بغیر عالمی برادری کاروائی کرے توآئندہ بھی طالبان کی طرف سے تعاون مل سکتاہے اگرماضی کی طرح دنیا لاتعلق ہو گئی تو نہ صرف سیاسی تصفیے کی راہیں مسدود ہوں گی بلکہ پُرتشدد واقعات کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر