وجود

... loading ...

وجود
وجود

طالبان کی دوبارہ آمد اور خدشات

بدھ 18 اگست 2021 طالبان کی دوبارہ آمد اور خدشات

طالبان کا افغانستان پر غلبہ حیران کُن نہیں کیونکہ ملک کی داخلی صورتحال اور امریکا و نیٹو کی عجلت میں روانگی سے امکان تھا کہ طالبان دوبارہ آسکتے ہیں مگر اتنی جلدی تین لاکھ سے زائد فوج پسپا ہو جائے گی توقع سے بڑھ کر تیزی سے ایسی ناکامی پھربھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھی اسی لیے دنیا ششدر ہے صدر اشرف غنی ،امر اللہ صالح اور حمداللہ محب جیسے لوگ فرار ہو چکے ہیں اور فرار کی وجہ ملک کو قتل وغارت سے بچانابتاتے ہیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ کابل کے نواح میں طالبان کے آنے کی خبر سنتے ہی فوج تتر بتر ہو گئی تھی کیونکہ لڑائی سے قبل ہی طالبان نے نفسیاتی کامیابی حاصل کر لی تھی حملہ آوروں سے کچھ سرداروں کی ساز بازکابھی پسپائی میں اہم کردار ہے اِس لیے قتل وغارت سے بچنے کی بات میں صداقت نہیں کچھ واقفان حلقوںکا کہنا ہے کہ کابل میں داخلہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ہے ایسا بعید ازقیاس بھی نہیں کیونکہ فوجیوں کی طرف سے طالبان کو اسلحہ بیچنے کی پاداش میں ہونے والی گرفتاریوں کے واقعات ہوتے رہتے ہیں فوج اور حکومت میں شامل طالبان کے ہمدرد عناصرکی طرف سے سہولت کاری ممکن ہے علاوہ ازیں طالبان کے خوف کا بھی فوج کی پسپائی میں اہم حصہ ہے مگر بے یقینی اور بے چینی ملک کو مستقبل میں بدامنی کی طرف دھکیل سکتی ہے قبل ازیںامریکی و نیٹو افواج کے حملوں سے بچنے کے لیے طالبان نے بھی عارضی طور پر پسپائی اختیار کی تھی لیکن جو نہی موقع ملا چڑھائی کرنے میں تاخیر نہیں کی اس لیے مسقتبل میں خونریزی کے خدشات مکمل طور پر رَد نہیں کیے جا سکتے۔
کابل سمیت ملک کے 34میں سے32صوبوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے مکمل فتح کا اعلان کرتے ہوئے مبارکبادی پیغام جاری کر دیا ہے امن و امان یقینی بنانے کے لیے کچھ تعیناتیاں کرتے ہوئے اسلحہ کی واپسی بھی شروع کر دی ہے اورطالبان پر گھروں میں داخل ہونے پر پابندی لگادی ہے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے لیکن کابل میں بے چینی ختم نہیں ہو رہی ائرپورٹ پر ملک سے نکلنے کے لیے لوگوں کا ہجوم ہے جوطیاروں میں سوار ہونے کے لیے گولیاں کھارہے ہیں اور سوار ہونے کے لیے موقع نہ ملنے پر طیاروں سے لٹک کر بیرونِ ملک جانے جیسے خطرات مول لینے سے دریغ نہیں کر رہے حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومت کا ساتھ دینے والے طالبان کے آنے سے متوحش ہیں اور عام معافی کے اعلان کے باوجود مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں بینکوں سے رقوم نکلوانے کے لیے لمبی قطاریں، ائرپورٹ پر بیرونِ ملک جانے کے لیے دھکم پیل اور ہجوم کو منشتر کرنے کے لیے امریکی فوجیوں کی فائرنگ سے ہونے والی پانچ ہلاکتیں اور طیاروں سے گرنے کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح کابل کی فضا طالبان کے لیے ناہمواراورخدشات برقرار ہیں لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے انھیں رویہ تبدیل کرنا ہوگا ۔
قومی فوج کے منظر نامے سے غیاب پر امریکی خاصے تلملائے ہوئے ہیں تربیت واسلحہ سے لیس کرنے پر ہونے والے اخراجات کا تذکرہ جاری ہے اِس میں شک نہیں کہ بیس سالہ افغان جنگ کے دوران امریکا نے کم ازکم دو ہزار ارب ڈالر خرچ کیے جبکہ بھارت جیسا جنونی ملک بھی تعمیر وترقی کے نام پر چار سوارب روپے جھونک چکا ہے مگر دونوں کی تمنا افغانستان کی بہتری نہیںتھی اسلامی نظام کے نفازسے روکنے کے علاوہ اول الذکر کا مقصد افغان معدنیات پر ہاتھ صاف کرنااور چین پر نظر رکھنا تھا جبکہ ثانی الذکرکو محض پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے محفوظ سرزمین درکار تھی بیرونی حملہ آوروں کو افغانستان سے مفاد پرستوں کا ساتھ مل گیا کچھ وارلارڈز نے افرادی قوت مہیاکر دی لیکن متحارب فریق کے ساتھ عام سویلین آبادی کو بمباری کا نشانہ بنانے سے موجود نفرت میں اضافہ ہوتا رہا نیز طالبان اسلامی نظام کے نفاذ اور ملک آزاد کرنے کے عملبردار جبکہ مقابلے پر حملہ آور اور اغیار کے رفقا محض مال ودولت کے آرزومند ۔ جب طالبان کی پیش قدمی پر حکومتی صفوں میں سراسمیگی پھیلی تو فوج نے کرپٹ عناصر کی حفاظت کرتے ہوئے جان دینے کی بجائے جان بچانے کو ترجیح دی لیکن یہ نہیں بھولناچاہیے کہ ملک کی حد تک طالبان کا کنٹرول درست مگرکابل ائرپورٹ بددستور امریکی وبرطانوی افواج کے پاس ہے جو محفوظ انخلا میں رکاوٹ بننے کی صورت میں سخت ردِ عمل کا عندیہ دے رہی ہیں اِس لیے ناخوشگوار صورتحال کاامکان موجود ہے۔
اشرف غنی کے فرار کے بعد افغان رہنمائوں نے عبداللہ عبداللہ ،حامد کرزئی اور حکمت یار پر مشتمل رابطہ کونسل بنا کر سنبھلنے کی کوشش کی جسے طالبان نے تسلیم نہیں کیا احمد الجلالی کو عبوری حکومت کا سربراہ بنانے کی تجویز پر بھی غور ہو رہا ہے مگرایک اور کٹھ پتلی سربراہ بنانے پرطالبان رضا مند نہیں ہو سکتے حقیقی امن کے لیے تمام لسانی و سیاسی گروپوں کی شمولیت سے جامع سیاسی تصفیہ ناگزیر ہے لیکن بیس برس میں بوجہ ایسا نہیں ہو سکا کبھی حامد کرزئی نے رکاوٹ ڈال دی کبھی بھارت نے مذاکرات کے دوران ملا عمر کی وفات کا اعلان کرکے جاری بات چیت ختم کرادی کبھی ڈرون سے طالبان کے امیر کو نشانہ بنا کر تصفیے کے امکانات ختم کردیے اب توطالبان فاتح ہیں وہ شکست خوردہ عناصر سے کیونکر برابری کی سطح پر بات کریں گے؟ زیادہ امکان یہی ہے کہ امارت الاسلامی کو تسلیم کرنے پرہی زور دیں گے جب ستر ہزار طالبان لاکھوں پر مشتمل فوج ودیگر قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے اہلکاروں کو دھول چٹا چکے تو اب انھیں کسی اور کی کیا پرواہ ہے؟۔
طالبان کی دوبارہ آمد سے مختلف افغان طبقات کو ہی خدشات لاحق نہیں بلکہ اقوامِ عالم کے بھی تحفظات ہیں خواتین کی تعلیم اور سفارتکاروں کے تحفظ کی یقین دہانی کے باوجود خدشات و اندیشے ختم نہیں ہو سکے ۔طالبان قیادت سے راہ و رسم بڑھانے کے لیے کچھ ممالک کی طرف سے روابط کا آغاز ہو چکا ہے روس نے سفارتخانہ بند کرنے کی بجائے طالبان کی نئی حکومت سے اپنے سفیر کو ملاقات کرنی کی ہدایت کی ہے کسی دہشت گرد تنظیم کو سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی یقین دہانی کرانے پر چین بھی تعلقات قائم کرنے کا آرزو مندہے جبکہ پاکستان محتاط ہے وجہ شایدماضی میں بھارتی ایما پر تحریکِ طالبان کے پاکستان کو لگائے چرکے ہیں ملا عبدالغنی برادر سے پاکستان میں ہونے والا سلوک بھی شاید گرمجوشی کی راہ میں رکاوٹ ہے باخبر حلقوں کے مطابق بائیڈن انتظامیہ بھی طالبان سے رابطے میں ہے اور القائدہ و داعش کو افغانستان میں ٹھکانہ نہ دینے کے عوض کسی مشترکہ مسودے کی تیاری پر کام کر رہی ہے کیونکہ ذیادہ تاخیر اُسے افغان معاملات میں غیر اہم بنا سکتی ہے اِس لیے برطانیا لاکھ تسلیم کرنے سے انکار پر زور دے مجبوراََ ہی سہی طالبان کو تسلیم کرنے کی طرف دنیا کو آنا پڑے گا ۔
عالمی برادری اور افغانوں کا اعتماد بحال کرنے ، انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات کو دور کرنے اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اور نیتجہ خیز اقدامات ناگزیر ہیںطویل خانہ جنگی کے شکار ملک میں اگر طالبان امن قائم کر لیتے ہیں تو نہ صرف عالمی برادری کااعتماد بڑھے گا بلکہ سی پیک کا اگلہ مرکز بھی افغانستان ہو سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ ایک وسیع البنیاد اور جامع سیاسی حل سے اجتناب نہ کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر