... loading ...
افغانستان میں پرامن انتقالِ اقتدار کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن افغانستان کی سربراہی کے لیے کس طالبان لیڈر کا انتخاب کیا جاتا ہے اس بارے میں ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے ۔افغان طالبان نے جس برق رفتاری سے کابل پر قبضہ کیا ہے اس نے عالمی سطح پر مبصرین کو حیران کر دیا ہے ۔ طالبان نے جو سفر قندھار سے لگ بھگ ایک ماہ پہلے شروع کیا تھا وہ گذشتہ روز کابل پر قبضے تک پہنچ چکا ہے ۔افغان فوج کی پسپائی کے بعد فغانستان کے دارالحکومت کابل کا کنٹرول حاصل کرنے والے طالبان کی تاریخ اور نظریے کے بارے میں کچھ اہم حقائق یہ ہیں:پشتو زبان میں طالبان کا مطلب طلبا ہے جو 1994 میں جنوبی افغان شہر قندھار سے ابھرے ۔ یہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے لڑنے والے افغان جنگجو گروپوں میں سے ایک تھے ۔طالبان میں شامل اکثریت ان مجاہدین کی تھی جنہوں نے امریکا کی مدد سے 1980 کی دہائی میں سوویت افواج کو افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کیا۔1994 میں سامنے آنے کے بعد دو سال کے اندر طالبان نے کابل سمیت ملک کے بیشتر حصوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ۔ 1996 میں اسلامی قوانین کی تشریح کے ساتھ خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا جب کہ اقتدار کے لیے لڑنے والے دوسرے مجاہدین گروہ ملک کے شمال میں چلے گئے اور پھر وہیں تک محدود رہے ۔11 ستمبر 2001 کو امریکا میں القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکی افواج، شمالی اتحاد اور دیگر طالبان مخالف جنگجو نومبر میں بھاری امریکی فضائی حملوں کی آڑ میں کابل میں داخل ہوئے ۔جب کہ طالبان دور دراز علاقوں میں روپوش ہوگئے ، جہاں سے انہوں نے افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف 20 سالہ طویل جنگ شروع کی۔طالبان کے بانی اور رہنما ملا محمد عمر تھے جو طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد روپوش ہوگئے تھے ۔ ملا عمر کے ٹھکانے اتنے خفیہ تھے کہ 2013 میں ان کی موت کی تصدیق بھی ان کے بیٹے نے انتقال کے دو سال بعد کی۔اپنے پانچ سال کے اقتدار کے دوران طالبان نے سخت شرعی قوانین نافذ کیے ۔ انہوں نے خواتین کو بنیادی طور پر کام کرنے سے روک دیا تھا اور مرد سرپرست کی غیرموجودگی میں انہیں گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ان کے دور میں سرعام پھانسی اور کوڑے مارنے کی سزائیں عام تھیں جب کہ مغربی فلموں اور کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔مخالفین اور مغربی ممالک طالبان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے کنٹرول والے علاقوں میں حکمرانی کی پرانی طرز پر واپس آنا چاہتے ہیں مگر طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔تاہم، طالبان نے رواں سال کے شروع میں کہا تھا کہ وہ افغانستان کے لیے ایک حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں جس میں ثقافتی روایات اور مذہبی قوانین کے مطابق خواتین اور اقلیتوں کو ان کے حقوق فراہم کرے ۔90 کی دہائی میں بننے والی طالبان حکومت کوپاکستان سمیت صرف چار ممالک نے تسلیم کیا۔جب کہ دیگر ممالک کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کابل کے شمالی صوبوں میں اقتدار رکھنے والے گروہ کو حکومت کا حقدار قرار دیا۔ امریکا اور اقوام متحدہ نے طالبان پر پابندیاں عائد کیں اور بیشتر ممالک نے طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے میں بہت کم دلچسپی دکھائی۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ اگر طالبان نے اقتدار سنبھالا اور وہاں مظالم ڈھائے تو افغانستان کو عالمی سطح پر بہت ہی ناپسندیدہ ریاست بننے کا خطرہ ہے ۔تاہم ، دوسرے ممالک جیسے چین نے محتاط انداز میں اشارہ دیا ہے کہ وہ طالبان کو ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم کر سکتاہے ،اب افغان طالبان کو اصل چیلنج کا سامنا ہے اور وہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد گورننس کرنا ہے ۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ کیا افغان طالبان کے پاس ایسی قیادت اور ٹیم موجود ہے جو نظامِ حکومت بہتر انداز میں چلا سکے ۔اس سوال کا جواب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ طالبان کے تنظیمی ڈھانچے میں ذمہ داران کون ہیں اور کن صلاحیتوں کے حامل ہیں۔طالبان کے تنظیمی ڈھانچے میں اب بھی ایسے رہنما موجود ہیں جو ماضی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔اس وقت طالبان کے اہم قائدین میں تنظیم کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ اور ان کے تین نائبین ملا عبدالغنی برادر، ملا محمد یعقوب اور سراج الدین حقانی شامل ہیں۔اس وقت افغان طالبان یا امارت اسلامی افغانستان کے امیر یا سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ ہیں۔ملا اختر منصور کی سنہ 2016 میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد افغان طالبان کے امیر مقرر کیے جانے والے ملا ہیبت اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان تحریک کے قیام کے بہت بعد اس کا حصہ بنے تھے ۔ملا ہیبت اللہ طالبان کی جنگی کارروائیوں کے حق میں فتوے جاری کرتے رہے ہیں۔ وہ سنہ 2001 سے قبل افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت میں عدالتوں کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ہبت اللہ کی عمر 45 سے 50 سال کے درمیان ہے اور وہ قندھار کے علاقے پنجوائی میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کا تعلق نور زئی قبیلے سے ہے ۔ہیبت اللہ اخونزادہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے طالبان کی سمت و رفتار کو تبدیل کیا اور اس تنظیم کو اِس کی موجودہ حالت میں لانے میں ان کا بڑا کردار ہے ۔طالبان کے گڑھ قندھار سے تعلق رکھنے کی بنا پر انھیں طالبان پر گرفت مضبوط کرنے میں مدد دی۔سنہ 1980 کی دہائی میں انھوں نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی جنگ میں کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں تھیں، لیکن وہ فوجی کمانڈر سے زیادہ مذہبی سکالر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔وہ افغان طالبان کے سربراہ بننے سے پہلے ہی طالبان کے سرکردہ رہنماوں میں سے ایک رہے ہیں اور مذہبی امور کے متعلق طالبان کی جانب سے وہی احکامات جاری کرتے رہے ہیں۔انھوں نے قاتلوں اور ناجائز جنسی تعلقات رکھنے والوں کا سر قلم کرنے اور چوری کرنے والوں کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم دیا تھا۔ہیبت اللہ طالبان کے سابق سربراہ اختر محمد منصور کے نائب بھی رہے ۔ منصور مئی سنہ 2016 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے ۔ منصور نے اپنی وصیت میں ہیبت اللہ کو اپنا جانشین قرار دیا تھا۔وصیت نامہ ان کی تقرری کو قانونی حیثیت دینے کے لیے تھا۔لیکن طالبان نے ان کے انتخاب کو متفقہ طور پر کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا تھا۔امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں طالبان کی جانب سے اگرچہ ایک مکمل ٹیم شامل تھی لیکن فروری 2020 کو قطر کے شہر دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے پر دستخط ملا عبدالغنی برادر نے کیے تھے اور اس وقت وہ عالمی سطح پر نمایاں طور پر سامنے آئے تھے ۔ملا عبدالغنی برادر امارت اسلامی افغانستان کے نائب امیر ہیں اور ان کے پاس طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے انچارج کا عہدہ بھی ہے ۔ملا عبدالغنی برادر، ملا برادر کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ملا برادر کا تعلق پوپلزئی قبیلے سے بتایا جاتا ہے ۔ یہ قبیلہ افغانستان میں انتہائی بااثر سمجھا جاتا ہے اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے ۔ اس قبیلے کے افراد سرحد کے دونوں جانب یعنی پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور پشاور میں بھی آباد ہیں۔ان کا تعلق بنیادی طور پر افغانستان کے جنوبی ضلع اورزگان سے بتایا جاتا ہے لیکن وہ کئی سال طالبان کے مرکز کے طور پر مشہور افغان صوبہ قندھار میں مقیم رہ چکے ہیں۔ملا عبد الغنی برادر افغانستان میں طالبان کارروائیوں کی نگرانی کے علاوہ تنظیم کے رہنماوں کی کونسل اور تنظیم کے مالی امور چلاتے تھے ۔افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے افغان طالبان کے سابق امیر ملا عمر اور ملا برادر ایک ہی مدرسے میں درس دیتے تھے اور سنہ 1994 میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی قائدین میں سے تھے ۔ملا برادر طالبان دور میں ہرات صوبے کے گورنر اور طالبان کی فوج کے سربراہ رہے ہیں۔افغانستان پر کام کرنے والے اکثر صحافیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملا محمد عمر نے جب افغانستان میں طالبان تحریک کا آغاز کیا تو ملا برادر ان چند افراد میں شامل تھے جنھوں نے بندوق اٹھا کر طالبان سربراہ کا ہر لحاظ سے ساتھ دیا اور تحریک کی کامیابی تک وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے ۔تاہم جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے پاس کوئی خاص عہدہ نہیں تھا۔ بعد میں انھیں ہرات کا گورنر بنا دیا گیا۔سنہ 2001 میں جب امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر کیے جانے والے حملے میں طالبان کو اقتدار سے بیدخل کیا گیا تو وہ نیٹو افواج کے خلاف جنگ کے سربراہ بن گئے ۔بعد ازاں فروری سنہ 2010 میں انھیں پاکستان کے شہر کراچی سے امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا گیا۔اس وقت افغان حکومت سے امن مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے طالبان کی جانب سے جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جاتا تھا اس فہرست میں ملا عبدالغنی برادر کا نام سرفہرست ہوتا تھا۔انھیں ستمبر 2013 میں پاکستانی حکومت نے رہا کر دیا تھا۔ لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ پاکستان میں ہی رہے یا کہیں اور چلے گئے ۔ ملا برادر طالبان رہنما ملا محمد عمر کے سب سے قابل اعتماد سپاہی اور نائب رہے ۔افغان انتظامیہ کے سینیئر عہدیداروں کو ہمیشہ ہی اس بات پر یقین تھا کہ برادر کے قد کا رہنما طالبان کو امن مذاکرات کے لیے آمادہ کر سکتا ہے ۔جب طالبان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو وہ طالبان کے نائب وزیر دفاع تھے ،دیگر طالبان رہنماں کی طرح ملا برادر پر بھی اقوام متحدہ نے پابندیاں عائد کی تھی۔ ان کے سفر کرنے اور ہتھیاروں کی خریداری پر پابندی تھی۔ افغانستان میں طالبان تحریک کے سابق امیر ملا محمد عمر کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے مولوی محمد یعقوب افغان طالبان کی امارت کے امیدوار بھی رہے ہیں۔ طالبان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دوران جو افغانستان میں تشدد کے کارروائیوں کو روکنے کا حکم دینا پڑا تو اس وقت مولوی محمد یعقوب کو تحریک کے عسکری کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا ۔مولوی محمد یعقوب افغان طالبان کے نائب امیر بھی ہیں جبکہ انھیں اس سال مئی کے مہینے میں سکیورٹی چیف کا اضافی عہدہ بھی دیا گیا ہے ۔ ان کی تعیناتی پہلے افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ نے کی تھی۔طالبان ذرائع نے بتایا ہے کہ مولوی محمد یعقوب نے ابتدائی تعلیم پاکستان کے بڑے شہر کراچی کے مدرسے سے حاصل کی ہے ۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مولوی محمد یعقوب بظاہر ایک سیاسی اور عسکری سوچ کی نوجوان شخصیت ہیں اور وہ اس عہدے پر عسکری ونگ اور سیاسی ونگ کے درمیان رابطے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔افغان امور کے ماہر سابق سفارتکار رستم شاہ مہند کا کہنا ہے کہ مولوی محمد یعقوب طالبان تحریک میں اہم شخصیت سمجھے جاتے ہیں اور ان سے اکثر معاملات میں مشاورت کی جاتی ہے ۔سینیئر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ مولوی یعقوب کا نام اس وجہ سے زیادہ معتبر ہے کیونکہ وہ ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں اور اس وجہ سے طالبان کے اندر انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ مولوی یعقوب عسکری ونگ میں بھی شامل رہے ہیں جب طالبان اور ملا عمر کے خاندان کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے تو اس وقت ملا عمر کے بھائی عبدالمنان اخوند اور مولوی یعقوب کو عہدے دیے گئے تھے ۔ملا عمر کے بھائی کواس وقت جب تحریک کی امارت کے لیے کچھ نام سامنے آئے تھے اس پر تحفظا ت تھے ۔ مولوی یعقوب کو کچھ صوبوں کے عسکری ونگ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ افغان طالبان کے دوسرے نائب امیر سراج الدین حقانی ہیں اور ان کے تعلق ان کے والد جلال الدین حقانی کے حقانی نیٹ ورک سے ہے ۔ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے ہے اور ان کی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جائیدادیں ہیں۔انھوں نے سنہ 1980 کی دہائی میں شمالی وزیرستان سے سابقہ سویت یونین کے افغانستان میں قبضے کے دوران منظم کارروائیاں کیں۔یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ افغانستان کی قیادت کون سنبھالے گا،افغان طالبان کے اہم رہنما اور سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں سیاسی سطح پر جوڑ توڑ جاری ہے اور افغانستان سے ایک کمیشن نے پیر کو قطر پہنچنا تھا لیکن گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران حالات اچانک کافی بدل گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ یہ کمیشن صدر اشرف غنی کا استعفی اور مکمل اختیار کے ساتھ پہنچے گا تاکہ انتقالِ اقتدار کا مرحلہ مکمل ہو سکے ۔انھوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ جب تک معاہدہ مکمل نہ ہو جائے افغان طالبان کابل میں داخل نہیں ہوں گے لیکن اچانک حالات نے نیا رخ اختیار کیا جس کی وجہ سے طالبان کابل میں داخل ہونے پر مجبور ہوئے کیونکہ کابل میں امن قائم کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام نظر آ رہے تھے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کون سا طالبان لیڈر افغانستان میں قیادت سنبھالے گا۔ جب تک بات چیت جاری ہے اور پرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل نہیں ہو جاتا اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سربراہ مملکت ہو سکتا ہے۔
ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...
سندھ کابینہ نے رینجرز کی کراچی میں تعیناتی کی مدت میں 180 دن کے اضافے کی منظوری دے دی۔ترجمان حکومت سندھ نے بتایا کہ رینجرز کی کراچی میں تعیناتی 13 جون 2024 سے 9 دسمبر 2024 تک ہے ، جس دوران رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت اختیارات حاصل رہیں گے ۔کابینہ نے گزشتہ کابینہ ا...
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی دے رہے ہیں ۔ دی وائر کے مطابق بی جے پی نے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کے ذریعے مودی کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں مودی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندؤں کی جائیداد اور دولت م...
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کسی بھی صورت غزہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا معاہدہ تسلیم نہیں جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ ...
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر شرقی نے بتایا کہ جے یو آئی کو ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بڑے عوامی اجت...
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...
فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...
غزہ میں مظالم کے خلاف اسرائیل کی مبینہ حمایت کرنے والی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ معروف امریکی فوڈ چین کے ایف سی نے ملائیشیا میں اپنے 100 سے زائد ریستوران عارضی طور پر بند کرنیکا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملائیشیا میں امریکی فوڈ چین کی فرنچائز کم...
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔لاہور میں فلسطین کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ یہاں بلاوجہ شہباز شریف کی شکایت کی گئی اس بیچارے کی حکومت ہی...
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، ہم سب مل کر پاکستان کو انشااللہ اس کا جائز مقام دلوائیں گے اور جلد پاکستان اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔لاہور میں عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ ا...
غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رہنما راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سنگھ پریوار کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق 1947میں جموں خطے میں ہن...
پی ٹی آئی نے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ، جے یو آئی ف کے سربراہ کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی ک...