وجود

... loading ...

وجود
وجود

ویکسین لاک ڈائون سے زیادہ موثر ہے

جمعه 30 جولائی 2021 ویکسین لاک ڈائون سے زیادہ موثر ہے

(مہمان کالم)

بیتھنی مینڈل

میں قدامت پسند انسان ہونے کے ناتے یہ بات زیادہ نہیں کرتا مگر نیویارک کے میئر بل ڈی بلیسیو کا موقف بالکل درست ہے کہ وہ اِن ڈور ماسک کو لازمی قرار دینے اور ڈیلٹا ویری اینٹ کے پھیلنے کی وجہ سے لاک ڈائون کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ڈی بلیسیو نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ کس طرح سائنس کی پیروی کرنے کی وجہ سے وہ گزشتہ ہفتے ماسک کو لازمی قرار دینے کے فیصلے سے گریز کر تے رہے‘ یہ کہا کہ ’’ماسک اس ویری اینٹ کے پھیلنے کو نہیں روکتا‘‘۔
یہ بات صرف نیویارک شہر پر ہی صادق نہیں آتی بلکہ ماسک پہننا اور لا ک ڈائون کرنا ہماری قومی سطح کی غلطی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ 2020ء کا موسم بہار نہیں ہے۔ پچھلے مارچ میں کووڈ ایک پْراسرار چیز تھی۔ یہاں واشنگٹن کے مضافات میں ہم کلوراکس کی مدد سے اشیائے خورو نوش کی صفائیاں کر رہے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم کندھے سے کندھا ملا کر بغیر ماسک پہنے سپر مارکیٹ جیسی پْرہجوم جگہوں پر شاپنگ بھی کر رہے تھے۔2021ء کے موسم گرما میں ہمیں ایک انتہائی موثر ویکسین دستیاب ہو چکی تھی اور اب ہر ٹین ایجر اور بالغ فردکے لیے کووڈ کی ویکسین لگوانا ایک آپشن ہے۔
آپریشن وارپ ا سپیڈ ایک سائنسی کرشمے سے کم نہیں ہے مگر ہم پھر بھی ابھی تک اسی طرح کے رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں جیسے کہ یہ کووڈ کے ابتدائی ایام ہوں۔ حالانکہ خدا کی مہربانی سے شرح اموات میں بہت کمی آچکی ہے۔ اعداد وشما رکو پیش نظر رکھیں تو اس مرحلے پر وہی لوگ بیمار ہو کر ہسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں جنہوں نے ابھی تک ویکسین کا انتخاب کرنا ہے۔ انہوں نے ابھی تک تو اس فیصلے کے رسک کو قبول کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مزید لاک ڈائون کا خطرہ موجود ہے اور ان کی قیمت ہم سب کو ادا کرنا پڑے گی۔ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کووڈ کے خلاف جنگ میں کیا چیز سب سے زیادہ کارگر ہے‘ وہ چیز ہے ویکسین۔ ہم نے لاک ڈائون کو آزما کر دیکھ لیا۔ ہم نے ماسک پہننے کو لازمی قرار دے کر بھی دیکھ لیا مگر کووڈ کے کیسز میں کمی صرف اسی وقت آئی جب بڑے پیمانے پر عوام کو ویکسین لگائی گئی۔ ہماری سوسائٹی کو یہ ترغیب دی گئی کہ اگر ہم نارمل حالات کی طرف جانا چاہتے ہیں تو ہمیں ویکسین لازمی لگوانا ہو گی؛ چنانچہ کروڑوں امریکی شہریوں نے اس نئے عمرانی معاہدے پر دستخط کیے۔ کووڈ کو دور رکھنے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگانا ہو گی اور اس معاہدے سے اتفاق کرتے ہوئے ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنا کر معمول کے حالات کی طر ف آنا ہو گا اور اس کے مختلف اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔
اب ہمیں پوری ایمانداری سے اس سماجی اور معاشی قیمت کا تعین کرنا ہو گا جو ہم لاک ڈائون پر عمل کرنے کی وجہ سے ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اب نہ صرف یہ کہ کووڈ کے بارے میں ہم 2020ء کے موسم بہار کے مقابلے میں زیادہ آگاہی رکھتے ہیں بلکہ لاک ڈائون کی تباہ کاریوں کے بارے میں بھی بہت کچھ جانتے ہیں۔ اب ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کی ذہنی صحت کس طرح تباہ ہوئی، تنہائی کا شکار ہونے اور ذہنی دبائو کی وجہ سے منشیات کے استعمال میں کس قدر اضافہ ہوا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق 2 لاکھ سے زائد چھوٹے کاروبار بھی بند ہو گئے تھے۔ مزید یہ کہ ہم ایک طرف امریکا اور دنیا بھر میں ڈیلٹا ویری اینٹ کے پھیلنے کی باتیں سن رہے ہیں تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور پہلے کہاں کھڑے تھے۔ جنوری میں روزانہ 2 لاکھ کیسز منظر عام پر آ رہے تھے مگر اب ان کا عشر عشیر بھی دیکھنے میں نہیں آرہا۔ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق پچھلے ہفتے ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں 32 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ہسپتال میں داخل ہونے والے ان مریضوں میں سے 97 فیصد کو ویکسین نہیں لگائی گئی۔
لاک ڈائون اور ماسک کی لازمی پابندی کرتے ہوئے اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہم امریکا میں سیلف رول اور فرد کی آزادی کے کلچر میں رہ رہے ہیں۔ ہم لوگوں کو گھروں پر مقیم رہنے یا ماسک پہننے کے لیے کہہ تو سکتے ہیں مگر ضروری نہیں ہے کہ ان حکومتی احکامات پر مکمل عمل درآمد بھی ہو۔ اگر ماسک لازمی پہننے اور لاک ڈائون کے احکامات ہی جاری کرنا تھے تو ان پر عمل درآمد کا انحصار عوام کی اپنی مرضی پر ہو گا کہ وہ ایسا کرتے ہیں یا نہیں۔ اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اب بھی صرف وہی شہر دوبارہ لاک ڈائون کے لیے تیار ہیں جنہیں اس کی اتنی ضرورت نہیں ہے مثلاً وہ علاقے جہاں سب سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگائی جا چکی ہے اور اب ان علاقوں میں ہسپتال میں داخل ہونے یا مرنے والوں کی شرح بہت کم رہ گئی ہے۔ گزشتہ موسم بہار میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ حکومت نے گورنرز اور مقامی حکام کے اختیارات بڑھانے کے لیے جو ایمرجنسی ا?رڈرز جاری کیے تھے اس کی اہم وجہ کووڈ کا غیر معمولی خطرہ تھا۔ ابتدائی طور پر ان احکامات کو دو ہفتے کے لیے اس لیے لاگو کیا گیا تھا تاکہ کووڈ کو پھیلنے اور ہمارے ہسپتالوں کے سسٹم کو تبا ہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ کئی شہروں میں یہ دو ہفتے کی مدت ایک سال تک چلی گئی کیونکہ کئی ریاستوں میں ایمرجنسی ایک معمول کی ضرورت بن گئی تھی۔ کئی ریاستوں میں یہ ہنگامی صورت حال اب ختم کر دی گئی ہے اور ہم اب ایک نئے معمول کی صورتِ حال کی طرف گامزن ہیں۔
لہٰذا اب ہمیں یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں وائرس کے اس تبدیل شدہ ویری اینٹ کے خلاف اقدامات کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟ ہمیں اس طرح کے مشکل سوالات کے لیے تیار رہنا چاہئے کہ جب ہسپتال معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں تو دوبارہ ایمرجنسی لگانے کے بعد جب اسے ختم کیا جائے گا تو اس سے ہمیں کیا ملے گا؟ یہ وہی سوالات ہیں جو آج سے ایک سال قبل پوچھے جانے چاہئے تھے۔ ہمیں اس وقت تک ہنگامی اختیارا ت دینے پر اتفاق نہیں کرنا چاہئے جب تک یہ طے نہ ہو جائے کہ ایمرجنسی کو کب ہٹایا جائے گا۔ حقیقت ایک ہی ہے وہ یہ کہ ایک بڑی اکثریت اس بات کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کووڈ یہاں پھیلا ہوا ہے اور مزید پھیلتا رہے گا۔ نئے ویری اینٹ بھی آتے رہیں گے اور ختم ہو جائیں گے۔ بہرحال زندگی کو یونہی رواں رہنا چاہئے۔ ماسک کو لازمی قرار دینے اور تباہ کن لاک ڈائون لگانے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو ایسی ترغیبات دے جن پر عمل کرنے سے زندگی جلد از جلد اپنے معمول کی طرف لوٹ آئے اور وہ ترغیب ایک ہی ہے، ویکسین اور صرف ویکسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر