وجود

... loading ...

وجود
وجود

تکبرکے بت

بدھ 07 جولائی 2021 تکبرکے بت

درویش خلاف ِ معمول دیرسے اپنی کٹیا سے باہر آئے وہ انتہائی تعلیم یافتہ اور صاحب ِ نصاب تھے کئی شہروںمیں ان کی متعدد فیکٹریاں تھیںوہ شروع ہی سے اپنا الگ مزاج رکھنے کی وجہ سے عام لوگوںجیسے نہیں تھے ہنس مکھ، ہمدرداور چپکے سے انسانیت کی خدمت کرنے والے۔انہیں کچھ اللہ والوںکی صحبت ایسی ملی کہ وہ ان کے رنگ میں رنگتے چلے گئے تو شہرسے دور کئی ایکڑ جگہ خریدی اور دنیا کے بکھیروںسے بے نیازہوکر ایک دو دن وہاںعبادت کے لیے چلے جاتے انہوںنے اپنے لیے ایک کٹیا بنوائی جو سادگی کامظہرتھی ابتدا میں سارے کام خود کرتے تھے ماہ ِ صیام میںکئی کئی روز وہاں قیام کرتے انہیں دیکھ کر اب بھی عام آدمی اندازہ نہیں لگاسکتاکہ وہ شہرکے ایک بڑے صنعتکارہیں شہرسے دور کھیتوں کے آس پاس سڑک کنارے ایک کٹیا اور چھوٹی سی مسجد دیکھ کر پہلے پہل لوگ بہت حیران پریشان ہوتے کبھی اکا دکا مسافرروایتی نلکے سے پانی پیتے کچھ دیر سستاکراپنی اپنی منزل کی طرف بڑھ جاتے کچھ چور بھی واردات کے لیے آئے لیکن درویش بابا کے پاس کھانے پینے کے سوا کچھ بھی نہ ملتا تو مایوس ہوکر چلے جاتے پھر کچھ مقامی لوگوںکا فطری تجسس جاگا تو بڑے بوڑھوںنے آناشروع کردیا جو بھی ان کو ملنے آتا درویش کی حکمت سے لبریز باتیں ان کادل موہ لیتیں۔
پھر نہ جانے کہاں سے ایک حالات کا ماراشخص سکندر وہاں آن نکلا وہ فقط نام کا ہی سکندر تھا ورنہ حالات نے اسے پریشان کرکے رکھ دیا تھا اس نے کہا اگر آپ مجھے یہاں رہنے کی اجازت دیدیں تو میں مسجدکی خدمت کرتارہوں گا انہیں بھلاکیا اعتراض ہوسکتا تھا اب مسجد میں اذان کی سرمدی آوازبھی گونجنے لگی تو درویش نے مستقل امام صاحب کو بھی رکھ لیا جو باجماعت امامت کے فرائض انجام دینے لگا پھر مہمان خانہ بنا درویش کی ہدایت تھی کہ وہاں آنے والے ہرشخص کی ضروریات کا خیال رکھا جائے اسی دوران درویش کی شہرت پھیلتی چلی گئی تو ہفتہ وار نشست میں کبھی کچھ دل کی باتیں ، کبھی معرفت کے رموز اسرار تو کبھی امت ِ مسلمہ کے حالات کی منظرکشی اس اندازسے کرتے کہ ان کی باتیں دل میں ترازو ہوجاتیں انہوںنے عبادات پر زوردینے کی بجائے عملی طورپر تربیت دینے کا عزم کررکھا تھا درویش نے بارہا کہا باتیں تو ہرکوئی دلفریب کرنا جانتاہے اورسننا بھی چاہتاہے لیکن عملاً قول و فعل کے تضاد کے باعث کسی پر باتیں اثرانداز اس لیے نہیں ہوتیں کہ وہ روح سے عاری ہوتیں ہیں۔
اس روزجمعتہ المبارک کی نمازسے ادا کرنے بعد کسی نے درویش سے سوال کرڈالا حضرت ! آپ کے خیال میںآج کا سب سے بڑا مسئلہ کیاہے؟ ۔۔انہوںنے ایک لمحہ توقف کیے بغیر جواب دیا دور ِ حاضرکے مسلمانوںمیں حرام و حلال کی تمیزختم ہوگئی ہے حالانکہ مذہب اسلام کا حرام اور حلال کے بارے میں بڑا واضح حکم ہے اگر رشوت ،شراب ،سود حرام ہیں تو حرام کی کمائی سے خریدا گیابکرے،گائے ،مرغی کاگوشت حلال کیسے ہوگیا جناب وہ بھی حرام ہے اور حرام کی کمائی کا ایک لقمہ برسوںکے اعمال کو غارت کردیتاہے لیکن لوگوںکو اس کا خیال ہے نہ احساس ۔ اور اگر غورکریں تو روشن ضمیروں پر حلال و حرام کے معانی کاایک دفترہے جو کھلتا چلا جاتاہے جس طرح نماز کی ادائیگی کے لیے وضو شرط ہے بعینہ‘ آخری الہامی کتاب سے صرف اس کو ہدایت ملتی ہے جو متقی اور پرہیزگارہے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ قرآن حکیم سے ہدایت لینی ہے تو آپ کو متقی بننا پڑے گا یعنی ہرشخص اس سے ہدایت نہیں پاسکتا متقی ہونے کی شرط پوری کرنا لازمی ہے اس کے بغیراللہ کے احکامات کی گہرائی تک نہیں پہنچاجاسکتا اس لیے اس کتاب ِ مقدس کو اپنی اپنی زبان میں ترجمہ کے ساتھ پڑھا کریں تاکہ احکام ِربانی سمجھ میں آسکیں پھر مطالب پر غورکریں کہ قرآن ہم سے کیا تقاضا کرتاہے اس کا ادراک ہوگیا تو پھر سمجھ لیں بندگی کا حق اداہوگیا۔
درویش نے کہا دنیا بھر کے علماء کرام،مفتی اور لوگوںکی اکثریت عبادات پر زور دیتی ہے عبادات بھی ضروری ہیں لیکن اس سے بھی ضروری حقوق العباد ہیں آخری الہامی کتاب، نبی آخرالزماں ﷺ کی پوری زندگی اور تعلیمات کااگراحاطہ کیا جائے تو انہوںنے صلہ رحمی کی تلقین کی ہے، حقوق العباد کا خیال رکھنے پرزوردیاہے، ہمسائے کے ساتھ بہترین سلوک کا حکم دیاہے ،غورکریں سارے کا سارا
پور کا پوراا قرآن انسان کو مخاطب کرتاہے ا نسان کو زندگی گذارنے کے طریقے وضاحت سے کھول کھول کربیان کرتاہے، وراثت،والدین کے حقوق، تہذیب و تمدن کے ضوابط، جنگ کے اصول ، امن، سماجی ،سیاسی،ثقافتی سرگرمیوںکا محور ،تعلیم الغرض کہ ہر شعبہ ٔ زندگی سے متعلق احکامات کی تشریح قرآن میں موجود ہے ۔ دنیا کی سب سے عظیم شخصیت آں حضرت ﷺ کی حیات ِ طیبہ ہماری قدم قدم پررہنمائی کے لیے موجودہے کوئی شخص پوری پوری رات عبادت کرتارہے صوم کا پابند،صلواۃ و تہجد گذارہی کیوں نہ ہو اگر لوگوںکے ساتھ اس کا رویہ بہترنہیں اس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرے محفوظ نہیں،بیوی پرتشدد کرتاہو، بچے بھی اس سے خوفزدہ رہتے ہوںیاصلہ رحمی کرنے والانہیںتوجان لیجئے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺایسے کسی فرد سے خوش نہیں ہیں حیات ِ طیبہ ﷺکا ورق ورق کھنگال لیںنبی ٔ پاک نے کبھی اپنی کسی اہلیہ پرہاتھ نہیں اٹھایاکبھی گالی گلوچ نہیں کی ہمیشہ حسنِ سلوک کا عملی مظاہر کیا یہ بھی تو ہمارے پیارے نبی کی سنت ہے بیشتر کیوں غورنہیں کرتے دوسروںکی زندگیاں تلخ کرکے جنت کے طالب کیوںنہیں سوچتے،معاملات میں بہتری، کمزور وںسے صلہ رحمی،پڑوسیوں،راہگیروں،بچوں،گاہکوں سے خوش اخلاقی،خواتین کااحترام بھی تو نبی پاک ﷺ کی سنتیں ہیں یادکرو فتح مکہ کے روزکیا ہوا تھا اللہ کے آخری نبی ﷺ نے غالب آنے کے باوجود اپنے دشمنوںکو معاف فرمادیا تھا ہم ایسا کیوںنہیں کرتے آپ سرکار ﷺ نے تو ماحول کو بتوں سے پاک کردیا تھا ہمارے اندر تکبرکے کتنے بت براجمان ہیں یہ ہم بھی نہیں جانتے،تکبر،انا،خود ستائشی،لالچ ،نفرت ،ظلم،اختیارات اور طاقت کے بتوںنے ہماری پوری شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیاہے پھر بھی کمال حیرت ہے کسی کو اس کا مطلق احساس ہے نہ ادراک یہ ہوکیا رہاہے؟
حضرت محمد ﷺ کو اپنانبی تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ان کے اسوہ ٔ حسنہ کو رہبرمان کر معاملات ِ زندگی کو معمول بنالیں تو بات بن سکتی ہے ورنہ دعوے اور عمل میں کوئی تال میل نہیں یہ حقیقت جانے بغیرمسلمان ہونے کا حق ادانہیں ہوسکتا۔یقین جانو انسان ہروقت اللہ کا شکر اداکرے تب بھی اس کی دی ہوئی نعمتوںکا شکرانہ ادا نہیں ہوسکتا جو لوگ احساسات سے عاری ہورہے ہیںیا جن کے دلوںمیں اضطراب دم توڑرہاہے ان کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے وہ اپنے معامالات پر ازسرنو غورکریں وہ اپنے آپ کو مصروف کرلیں اس کا آسان حل یہ ہے کہ اپنی ذات کو سماجی کاموںکے
لیے وقف کردیں جس کے پاس وسائل نہیں ہے پھر بھی وہ انسانیت کی خدمت کرسکتاہے اپنی گلی محلے میںلوگوںکے چھوٹے موٹے مسائل حل کرنے کے لیے کوشش کریں یا کسی سماجی تنظیم میںشامل ہوجائیں بہت سے لوگ آ پ کی توجہ کے منتظرہیں اس کے ساتھ ساتھ عبادات میں اپنا دل لگانے کی کوشش کریں اورخودکو ایک اچھا انسان بنانے کی تحریک پیداکریں اس ضمن میں ایک نسخہ یہ ہے کہ وعظ و تلقین کی بجائے اپنے کردار سے دوسروںکے لیے مثال بنیں یقین کریں یہی ایک طریقہ سے جس سے تکبرکے بت پاش پاش ہوسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر