وجود

... loading ...

وجود
وجود

کُہسار باقی ہے اور افغان بھی!

منگل 22 جون 2021 کُہسار باقی ہے اور افغان بھی!

اگر کچھ عرصے کے لیے ہم اپنا منہ بند رکھ سکیں، شاہ محمود قریشی صاحب آپ سُن رہے ہیں!
یہ افغانستان ہے، اور اس کی کچھ سفاک حقیقتیں!
احمد شاہ ابدالی کا افغانستان جدید لفنگوں کے لیے نہیں۔تہذیب کے نام پر دھوکا دینے والے درندوں کا نہیں۔ بُشوں، اُباموں ، ٹرمپوں اور بائیڈنوں کا نہیں۔یہ حضرت علامہ اقبال کے خواب کا تسلسل ہے۔ یہ افغانوں کا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اگر گوش ہوش رکھتے ہو، اور سنیں تو یہ وقت خاموشی کاہے، سکوت ِ حکیمانہ!کُہسار باقی ہے اور افغان بھی۔ فیصلہ افغان کریں گے، جن کا اعلان ہے کہ میدان بھی یہیں ہے اور گھوڑا بھی۔ وزیر خارجہ نے یہ کیا فرمادیا:طالبان کے افغانستان پر اسلحہ کے زور پر قبضے کے حامی نہیں”۔سوال یہ ہے کہ افغانستان پر موجودہ قبضہ کیسے ہوا؟ کیا امریکا کے بی ۔ 52 بمبار طیاروں نے اپنی ابتدائی 57 ہزار اڑانوں سے گلاب، موگرا اور موتیا کے پھول برسائے تھے؟کیا امریکا نے طالبان کی جائز حکومت کو اسلحہ کے زور اور دنیا کی تاریخ کی بھاری جنگی مشنری کے ساتھ نہیں ہٹایا؟ تب ہم تاریخ کے غلط موڑ پر کھڑے تھے۔ گھگیائے ہوئے، امریکا کی ہیبت سے دم بخود اور پرویز مشرف کی سرگرمیوں میں بیخود۔ یہ وقت تھا جب ہم مسئلے کا حل نہیں حصہ تھے۔ اب شاہ محمود قریشی ایسے لوگوں کی حاشیہ بردار نفسیات پر انحصار کیا گیا تو ایک مرتبہ پھر ہم تاریخ کے غلط موڑ پر مسئلے کا حصہ بن کرکھڑے ہوں گے۔ براہ کرم چپ رہیں۔

حاشیہ برداروں کی نفسیات ہی ایسی ہوتی ہے۔ ہم استعمار کے خمار سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ ابھی امریکا کے چنگل سے پورے نکلے نہیں کہ خطے کے نئے مراکز ِ طاقت کے ساتھ فدویانہ انداز اپنا لیے۔ پاکستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر اُبھرنا اور چمکنا ہے۔ افغانستان سے ہمارے تعلقات کی بنیاد استعماری سیاست کے ردوقبول کی بنیاد پر نہیں، بلکہ دو برادر ممالک کی حقیقی مساوات و مواخات کے اُصول پر قائم رہے گی۔ افغانستان کے باب میںپاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ عسکری ادارے ، سیاسی حکومت کے نمائندے اور وزارت خارجہ کے بابے تینوں ہی فیصلہ سازی کے عمل میں اکثر غلط ثابت ہوئے۔ ہماری کمزور سیاست نے ہماری طاقت کو کمزوری بنایا، ہماری ہاتھ کی رسیوں کو دوسروں کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ہمارے دوستوں کو دشمنوں میں بدل دیا۔ پندار کا صنم کدہ پہلے بھی آباد نہیں تھا،مگر دل دوبارہ کوئے ملامت کے طواف کو بے چین ہے۔ وہی کا وہی زُنار پوش ۔ شاہ محمود قریشی صاحب احتیاط کریں۔

ذرا وزیر خارجہ کے الفاظ دُہرائیں: اسلام آباد کا پڑوسی کے بارے میں نقطہ نظر بدل گیا ہے اور وہ مستقبل کے ایسے انتظام کی حمایت کرے گا جو تمام افغانوں کے لیے قابل قبول ہے ۔ پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہ نہیں۔طالبان کے افغانستان پر اسلحہ کے زور پر قبضہ کے حامی نہیں”۔کیا یہ کوئی درست اور قابل عمل موقف ہے؟وزیر خارجہ کو اگر زحمت نہ ہو تو فرمائیں کہ کیا جس موجودہ افغان حکومت کو ہم قبول کرتے ہیں، وہ تمام افغانوں کے لیے قابلِ قبول ہے ؟کیا ماضی میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت کے حوالے سے ہم نے یہ موقف کبھی اپنایا؟ امریکا بہادر ، جناب امریکا بہادر!!! وزیر خارجہ کو شاید اندازا بھی نہ ہو،وہ جب یہ فرما رہے تھے تو کابل کے صدارتی محل میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی۔ امریکا کے زیر سایہ نام نہاد انتخابی انتظامات سے افغانستان پر مسلط اشرف غنی اپنی پوری کابینہ کو اُدھیڑ رہے تھے۔ شاہ محمود قریشی کے الفاظ ابھی فضاء میں گونج ہی رہے تھے کہ کٹھ پتلی اشرف غنی نے اپنے فوجی سربراہ اور دواہم ترین وزراء تبدیل کردیے۔ سب سے پہلے جنرل یاسین ضیا کو تبدیل کرکے جنرل ولی محمد احمدزئی کو افغانستان کا نیا چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کیا ۔ پھر افغان وزیر دفاع اسد اللہ خالد کو برطرف کرکے بسم اللہ خان محمدی کی بطور وزیر عبوری تقرری ہوئی ، ساتھ ہی حیات اللہ حیات کو گھر بھیج کر عبدالستار مرزا کوال کو وزیرداخلہ بناد یا گیا۔ اشرف غنی کو یہ فوری تبدیلیاں کیوں کرنی پڑیں؟ طالبان ، جناب والا طالبان!!امریکا بھاگ رہا ہے۔ طالبان نے نئی حکمت عملی کے تحت اشرف غنی کے ماتحت انتظام کی مشکیں کسنا شروع کردی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں افغانستان کے کل 34 میں سے 28 صوبوں میں طالبان کے ساتھ جاری لڑائی میں افغان سیکورٹی فورسز اپنے زیر قبضہ تمام علاقوں سے محروم ہوتے چلے گئے ہیں۔ یہ تصور ہی اشرف غنی کے لیے لرزہ خیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ میدان طالبان کے ہاتھ میں ہے تو حکومت کسی اور کے ہاتھ میں کیسے رہ سکتی ہے؟

افغانستان میں کٹھ پتلی کبھی برقرار نہیں رہ سکے۔ تاریخ یہی ہے۔ برطانوی فوج نے 1839 کے ماہِ اپریل میں قندھار اور اگست میں کابل فتح کرلیا۔ افغانی ایسے ہی ہیں ۔ حکومت دینے میں دیر نہیں لگاتے مگر لینے میں دیر کرتے ہیں اور تب تک دشمن کو مارتے رہتے ہیں۔ برطانیا نے یہ سبق جلدی سیکھ لیا تھا، صرف پونے تین سال میں۔ اس لیے شاہ شجاع کی کٹھ پتلی حکومت سے ہاتھ بھی فوراً اُٹھا لیا ۔ یہ 1841ء کا ماہِ دسمبر تھا ! برطانیا نے شکست تسلیم کی اور افغانستان کے تب کے جائز حکمران امیر دوست محمد خان کے بیٹے اکبر خان سے معاہدہ کرکے اپنی جان چھڑا لی۔ سفارت کاری لومڑی کی چالاکی و مکاری کا نام ہے۔ مگر افغانستان میں یہ کام نہیں آتی۔ برطانوی سفارت کاری لومڑی کی مثیل ہے۔برطانوی معاہدے کے بعدافغانستان میں تاخیری حربے اختیار کررہے تھے۔ تب اکبر خان کھڑا ہوا اور انگریز ریزیڈنٹ کا سر اُتار دیا۔ ساڑھے سولہ ہزار برطانوی فوج پر مبنی قافلہ خوف سے لرزتا چوروں کی طرح کابل سے بھاگا۔ مگر دیر ہو چکی تھی، افغان معاہدے کی عدم پاسداری میں لومڑی کے چلن پر ناراض ہوگئے ۔ سب کے سب مارے گئے۔ برطانوی مقبوضات تک پہنچنے کے لیے صرف ایک فرد کو زندہ چھوڑا گیا ۔ تاکہ یاد رہے اور بطور سند کام آسکے۔افغانستان میں برطانیا کی تین جنگوں میں انجام کی تاریخ مختلف نہیں۔ برطانیوں کا ہی نہیں سوویٹ یونین کا بھی کوئی ”شاہ شجاع” یا ”بچہ سقہ ”یہاں نہیں چل سکا۔ نجیب اللہ کے انجام سے کون واقف نہیں؟پھر امریکا کے بھی کسی بچہ سقہ کی یہاں حفاظت کیسے ہو سکے گی؟

افغانوں کی سیاسی بصیرت کو ہر جنگ کے بعد معاہدوں سے باندھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جنگ میں شکست ِفاش کے بعد سفارت کاری کی لومڑی سے نتائج کو بدلنے کی روش طالبان کو اب غصہ دلاتی ہے۔ افغان ان حرکتوں سے خوب خوب واقف ہیں۔ ہمیں بھی محتاط ہی رہنا چاہئے۔ جنیوا معاہدہ(14 اپریل 1988)،معاہدہ پشاور (اپریل 1992)اور معاہدہ اسلام آباد (مارچ 1993) کے عواقب و نتائج کو دھیان میں رکھنا چاہئے۔جنرل ضیاء کے عہد میں بھی جنیوامعاہدہ کے آس پاس افغانوں کو اُس حل کی طرف لانے کی کوشش میں پاکستان بہت عجلت دکھا رہا تھا، جس حل کی جانب اب شاہ محمود قریشی اشارہ کررہے ہیں۔ تب غلام اسحق خان زیادہ جانتے تھے۔ افغانوں کے قومی مزاج کی تہہ داریوں سے آگاہ غلام اسحق خان نے جنرل ضیاء کو باور کرانے کی کوشش کی کہ افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑدیں۔ وہ جانتے تھے افغان خود پر کسی کو اثر انداز ہونے نہیں دینا چاہتے ۔ جنیوا معاہدہ پاکستان کے لیے بہت سی مصیبتیں لایا۔ افغانستان پر حل مسلط کرنے کی روش نے اسے نراجیت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ طالبان اس بکھیڑے سے ہی برآمد ہوئے تھے۔ وہ جنگ کے بعد کے حالات کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اب بھی طالبان تاریخ کے فطری عمل سے گزررہے ہیں، وہ مستقبل کی سرگوشی سن سکتے ہیں۔ یاد رکھیں!افغان جنگجو ہی نہیں پیدائشی سیاست دان بھی ہوتا ہے۔ یہ وقت زیادہ بولنے کا نہیں بلکہ چپ رہنے کا ہے۔ افغانستان میں غیر معمولی تاریخ بنانے والی قوت حکومت جیسی معمولی چیز بھی بنا ہی لے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر