وجود

... loading ...

وجود
وجود

غلامی پسندہے

اتوار 20 جون 2021 غلامی پسندہے

وہ بہت پریشان تھا اب تلک دو تین لوگوںکے پاس جانے کے باوجود اس کا مسئلہ حل نہیںہورہاتھا آبادی میں گنتی کے گھر تھے طبیب کااصرارتھا کہ علاج کے لیے شہد ضروری ہے ورنہ دوا اثرنہیں کرے گی وہ سوچنے لگا پیدل چل چل کر برا حال ہوگیاہے اولادبھی کیا چیزہے انسان اس کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا پھربیٹیاں تو بہت پیاری ہوتی ہیں اسے عائشہ سے بڑی محبت تھی جب وہ رنگ برنگے کپڑے پہن کر آنگن میں دوڑتی پھرتی تو اسے محسوس ہوتا جیسے کوئی تتلی باغ میں اپنے رنگ بکھیررہی ہو ویسے غربت بھی کتنی نامراد ہوتی ہے مسائل زیادہ ہوںتو تنگدستی میں پریشانی بڑھ جاتی ہے۔۔ کم ازکم ایک پائو شہد اس کے دل و دماغ ایک ہی گردان ہورہی تھی چندسکوں میں ایک پائو شہد وہ کیسے خرید پائے گا اچانک اس کی نظر ایک پنساری کی دکان پرپڑی خالد لپک کر وہاں پہنچا اور درازداڑھی والے دکاندار سے ترنت کہنے لگا
’’بھائی مجھے شہد کی شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بہت بیمار ہے ا س کا علاج شہد سے ممکن ہے کم ازکم ایک پائو شہد ۔ افسوس ! میرے پاس اس وقت پیسے بھی کم ہیں۔
’’ میرے پاس شہد نہیں ہے دکاندارنے کہا پیسے کم ہیں تو کوئی بات نہیں تھی پھر آجاتے آ پ کی ضرورت کے سامنے پیسوں کی کچھ اہمیت نہیں۔۔۔خالد اس کی بات سنی ان سنی کرکے مایوسی کے عالم میں جانے لگا تو دکاندارنے کہا جناب ٹھہرئیے ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے لیکن اس کے لیے آپ کو کچھ دور جانا پڑے گا
’’ جہاں کہتے ہو میں وہاں جانے کے لیے تیارہوں خالد نے خوشی سے تمتماتے ہوئے کہا
’’ ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے دکاندارنے بتایا وہ تاجر انتہائی نفیس انسان ہیں مجھے یقین ہے ان سے مل کرآپ کی ضرورت پوری ہوجائے گی ۔
خالد شکریہ ادا کرکے اس جگہ جا پہنچا جہاںقافلے نے پڑائو کرنا تھا وہاں تو جیسے جنگل میں منگل کا سماں تھا شہر کے بڑے بڑے تاجر بھی قافلے کے انتظارمیں تھے خالد کادل دھک دھک کرنے لگا اتنے بڑے بڑے تاجروں کے سامنے اس کی کیا حیثیت تھی وہ سوچنے لگا قافلے والے منہ مانگے داموں چیزیں بیچیں گے میرے پاس تو پیسے بھی کم ہیں پتہ نہیں بیٹی کے علاج کے لیے شہد ملے گا بھی یانہیں یقین اوربے یقینی کی کشمکش کے دوران اس کی آنکھوںمیں آنسو آگئے۔
آخر دور سے گرد اٹھتی دکھائی دی تاجر پر جوش ہوگئے کہ قافلہ آیا ہی چاہتاہے۔ وہ فوراً اٹھا اور تاجروں کے ہجوم میں شامل ہوگیا قافلے نے پڑائو ڈال دیا تھا اجناس، کپڑے کے تھان اور مختلف چیزیں اتاری جانے لگیں خالد نے قافلے کے امیر کی بابت پوچھا۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور نورانی چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا خالد نے ان کے روبرو جاکر عرض کیا کہ میری چھوٹی بیٹی بیمار ہے اس کے علاج کے لیے مجھے شہد کی ضرورت ہے لیکن میرے پاس پیسے کم ہیں مجھے کم از کم۔۔۔
نورانی چہرے والے نے اس کی بات کاٹتے ہوئے بڑ ی نرمی سے کہا آپ فکرنہ کریں بیٹیاں توہ سب کی سانجھی ہوتی ہیں پھر انہوں نے فوراً اپنے غلام سے کہا: جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہوئے ہیں ان میں سے ایک مٹکا میرے اس بھائی کو دے دیں۔
غلام نے یہ سن کر کہا : آقا ! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا گیا تو اونٹ پر وزن کا توازن بگڑجائے گا ۔ یہ سن کر نورانی چہرے والے نے تبسم فرمایا اور غلام سے کہا تب پھر ایسا کرودونوں مٹکے انھیں دے دئیے جائیں۔
یہ سن کر غلام گھبرا گیا اورحیرت سے بول اٹھا : آقا ! یہ ناتواں اتنا وزن کیسے اٹھائے گا؟۔ اس پر نورانی چہرے والے نے مسکراتے ہوئے کہا : تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو۔ خالد کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن الفاظ سینے میں ہی دم توڑ گئے ادھرغلام نے یہ سنتے ہی دوڑ لگادی ا س نے اونٹ کو شہد کے 2 مٹکوں سمیت خالدکے حوالے کر دیا۔ وہ ان کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا خا لدحیران بھی تھا اور پریشان بھی اس کے دل و دماغ میں ایک ہیجان برپا تھااس کا لوں لوں نورانی چہرے والے کو بے تحاشہ دعائیں دے رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا ، یہ شخص کس قدر سخی ہے ، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دئیے دو مٹکوںپر ہی موقوف نہیں بلکہ وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے۔ خالد کا تجسس فطری تھا اس نے ایک شخص سے پوچھ ہی لیا کہ نورانی چہرے والا کون ہے ؟
’’کمال ہے تم کیسے تاجرہو؟ اس نے سامان سے لدے اونٹ کی مہا رتھامے شخص کی لاعلمی پر تعجب کااظہارکرتے ہوئے کہا
’’یہ حضرت عثمان غنیؓ ہیں مدینے کے سب سے بڑے تاجر اللہ کے نبی ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے
خالد نے اثبات میں سرہلایا اور کہا میں نے آپ کی سخاوت کے کئی قصے ،کہانیاں سن رکھی ہیں جو سنا تھا آپ تو اس سے بڑھ کر ہیں۔
اِدھر غلام اپنے آقا حضرت عثمان غنیؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے پوچھا جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے ، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو تاویلیں تراشتے ہوئے پھر بھی نہیں گئے ، پھر جب میں نے یہ کہا کہ مٹکوں کے ساتھ ساتھ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟
غلام نے جواب دیا : آقا ! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہیگا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا ، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا : اونٹ بھی اسے دے دو۔ اب میں ڈرگیا کہ اگر اب میں نے کوئی بات کی تو یہ نہ ہو کہیں آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم نہ صادرفرما دیں اس خوف سے میں نے جلدی سے دوڑ لگادی۔
’’ اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو حضرت عثمان غنیؓ نے مسکراتے ہوئے کہا اس غلامی سے آزاد ہو جاتے یہ کتنا اچھا ہوتا۔
’’آقا ! میں اس غلامی سے آزادی نہیں چاہتا تھا غلام آبدیدہ ہوگیا آپ کو تو مجھ جیسے سینکڑوں غلام مل جائیں گے ، لیکن بخدا مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملے گا میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ ترجیح دیتا ہوں۔ مجھے تو آپ کی غلامی پسندہے۔
’’تم ہم سے اتنی محبت کرتے ہو حضرت عثمان غنیؓ نے پوچھا
’’ آقا کاش میں آپ کو اپنا دل چیرکردکھا سکتا غلام کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تو آقا نے آگے بڑھ کر غلام کو گلے لگالیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر