وجود

... loading ...

وجود
وجود

کووڈ اور امریکی عوام میں ذہنی دبائو

منگل 11 مئی 2021 کووڈ اور امریکی عوام میں ذہنی دبائو

(مہمان کالم)

رچرڈفریڈمین
کووڈ کے دنوں میں امریکی عوام کی ذہنی صحت کے حوالے سے ملنے والے ڈیٹاسے اندازہ ہو رہا ہے کہ آنے والے دن زیادہ اچھے نہیں ہوں گے۔سرویز سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی شہری زیادہ ڈپریس ہوچکے ہیں اور مختلف ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ نے سماج کو بالکل ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔کووڈ غیر معمولی دبائو اور افسردگی کا باعث بنا ہے‘انسانی فطرت کے ماہرین کا خیال ہے کہ لوگ کووڈ کے ٹراما سے ہمارے اندازوں سے کہیں پہلے باہر نکل ا?ئیں گے۔اگرچہ بعض گروپس کو زیادہ مدت کے لیے ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت پڑے گی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی المیے سے باہر نکلنے کے حوالے سے اکثر انسانوں کے ساتھ کم توقعات وابستہ کی جاتی ہیں اور جو لوگ کسی ٹراماکا سامنا کررہے ہوتے ہیں ان کی اکثریت میں بھی ذہنی بیماری زیادہ حاوی نہیں ہوتی بلکہ وہ حقیقت میں جلد بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ایک سائیکاٹرسٹ کے طور پر میں اپنے کولیگز اور مریضوں کو بہت قریب سے دیکھتا ہوں۔میرے اکثر مریضوں میں جو کووڈ سے پہلے ہی کلینکل ڈپریشن اور اضطراب کا شکار تھے کووڈکے دنوں میں ان کی حالت میں کوئی منفی تبدیلی نہیں ا?ئی۔ہاں ان میں دبائو اور تشویش پائی جاتی تھی مگر میں یہ دیکھ کر حیران تھا کہ اس عرصے میں انسانوں کا یہ گروپ غیر معمولی طور پر مستحکم رہا۔کوو ڈکے ابتدائی دنوں سے میں اپنے ہسپتال میں ایک سپورٹ گروپ بھی چلا رہا ہوں۔خواتین و حضرات پرمشتمل یہ گروپ روزانہ کووڈ سے متاثرہ بہت سے لوگوں میں ٹیوبز ڈالتا ہے اس لیے انہیں براہ راست وائرس اور مریضوں سے واسطہ پڑتا ہے مگر اب یہ گروپ ٹوٹ گیا ہے کیونکہ گروپ کے ارکان سمجھتے ہیں کہ وہ میرے بغیر بھی معاملے کو بہتر انداز میں ڈیل کر سکتے ہیں۔تاہم میں یہ کہوں گا کہ کووڈ کا ذہنی صحت پر اثر حقیقی نہیں ہوتا اور نہ ہی بعض کیسز میں یہ زیادہ عرصے کے لیے ہوگا۔یہ حقیقت ہے اور یہ عرصے تک جاری رہے گا۔تاہم یہ یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ وہ لوگ جنہیں سٹریس اور ٹراماکا سامنا کرنا پڑ اہے ضروری نہیں کہ ان میں کلینکل ڈپریشن یا پوسٹ ٹرامیٹک ڈس آرڈر پیدا ہو۔ یقینا انہیں اینگزائٹی او ر افسردگی سے واسطہ پڑتا ہے مگر جب سٹریس ختم ہو جاتا ہے تو یہ شکایات بھی زائل ہو جاتی ہیں۔سٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ 90فیصدسے زائد امریکی شہریوں کو ٹراما میں سے گزرنا پڑاہے مگر ان میں سے صرف 6.8فیصدامریکی ہی پی ایس ٹی ڈی کا شکار ہوئے ہیں لہٰذا جہاں ٹراما کی کیفیت سے دوچار ہونا عام بات ہے وہیں ان میں سے بہت کم لوگوں میں ٹراما کے نتائج دیکھنے میں آتے ہیں۔
پی ایس ٹی ڈی کی وجہ سے ٹرامامتاثرین کی فالو اپ ا سٹڈیز سے معلوم ہوا ہے کہ ٹراما ختم ہونے کے تین مہینے کے اندر اندر اس کی علامات میں بھی کمی آگئی اور پی ایس ٹی ڈی کے 66فیصدمریض بالکل صحت یا ب ہو گئے۔ضروری نہیں ہے کہ ٹراما بیماری پیدا ہونے کا سبب بنے اور اس بات کو اس وقت یاد رکھنا بہت ضروری ہے جب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ جب کووڈ پھیلتی ہے تو لوگ اپنا رد عمل کس طرح ظاہر کرتے ہیں۔سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی ایک ا سٹڈی میں انکشاف کیا گیاہے کہ اگست 2020ء سے لے کر فروری 2021ء کے دوران بالغ افراد میں انگزائٹی اور ڈپریشن کی علامات 36.4فیصدسے بڑھ کر 41.5فیصدہوگئیں مگر اس طرح کے سرویز میں علامات کا تعین ایک خاص موقع پر ہی کیا جاتا ہے جوکہ بعد میں تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔یہ سروے عام طور پر آن لائن ہی کیے جاتے ہیں اور ان کے لیے ریٹنگ سکیلز استعمال ہوتے ہیں جو قابلِ اعتبار قسم کی کلینکل تشخیص نہیں کر سکتے۔ دیگر ریسرچر ز جو ذہنی بیماریوں کے شکار لوگوں کی ٹریکنگ کر رہے تھے انہیں بھی ان لوگوں میں کووڈ کے دنوں میں ڈپریشن کی سنگین علامات نہیں ملیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے ایسے مریض یہ جان کر بہت اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ٹراما سے گزرنے والے اکثرافرا دمیں سائیکوپتھالوجی کی علامات نہیں ملتیں۔مشکلات کا سامناکرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد میں لچک دار رویہ ہی ان کی خوبی ہوتی ہے مگرہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے اندر نفسیاتی عارضہ موجود ہی نہیں ہوتا۔اس کے برعکس انگزائٹی اور افسردگی دو عام ردعمل یا رویے ہوتے ہیں مگر یہ عارضی اور قابلِ برداشت ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ جو شدید دبائو اور ٹراما میں سے گزرتے ہیں ایک صحت مند اور مثبت زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ہر طرح کے دبائو ہمارے دماغ کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتے۔ لوگوں کی اکثریت جو کووڈ کے دوران گھروں میں قید رہی ہے ایک قابل علاج عارضی دبائو کا سامنا کررہی ہے۔جونہی نارمل زندگی شرو ع ہو گی وہ بہتر محسوس کرنا شروع کر دیں گے۔کووڈ کے دوران سیاہ فام اور رنگدار لوگ کووڈ کے ذہنی دبائو سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور 2020ء میں کووڈ کے دوران ان کے ہاں خودکشی کے زیادہ واقعات ہوئے ہیں مگر امریکامیں مجموعی طور پر خودکشی کے واقعا ت میںکمی واقع ہوئی ہے۔ ان لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ہیلتھ کیئر تک مناسب رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
ماہرین عرصے سے اس بات میں دلچسپی لے رہے ہیں کہ بعض لوگوں میں ذہنی دبائو کا سامنا کرنے کی زیادہ صلاحیت کیوں ہوتی ہے۔مستقل ذرائع ا?مدنی ‘فیملی سپورٹ ‘اور ہیلتھ کیئر تک رسائی ایسے عوامل ہیں جو لوگوں کو ٹراما کے اثرات کا سامنا کرنے کے قابل بناتے ہیں۔مگر کچھ ایسے کام بھی ہوتے ہیں جو کسی انسان کی جذباتی اور جسمانی قوت برداشت کو تقویت دینے کا باعث بنتے ہیں مثلاًاپنے سماجی رابطے برقرار رکھنا ‘باقاعدہ جسمانی ایکسر سائز کرنا ‘اور اپنا ذہنی دبائو کم کرنے کے نئے نئے طریقے تلاش کرنا۔مثال کے طور پر سماجی سپورٹ ہمارے اندر ذاتی نوعیت کا احساس تکریم اور کنٹرول پید اکرکے ہماری قوت برداشت میں استحکام پیدا کرتی ہے۔سماج سے جڑت ہمارے دماغ کے خوف اور اینگزائٹی کے سرکٹ سے رابطے کو منقطع کردیتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ایک جابر اور وحشی دور سے گزر رہے ہیں جو ناقابلِ بیان نقصان اور غم سے بھرا پڑا ہے۔میں کووڈ کی وجہ سے اپنی ماں سے محروم ہوا ہوں اور میں آج بھی افسردہ رہتا ہوںمگر لوگوں کو یہ سوچ کر اطمینان ہونا چاہئے کہ ہم کووڈ کو اس پوائنٹ تک لے ا?ئے ہیں اور کبھی یہ بات فراموش نہ کریں کہ انسان ہمارے اندازے سے زیادہ قوت برداشت رکھتے ہیں اور وہ بہت جلدبائونس بیک کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر