وجود

... loading ...

وجود
وجود

مسلم امہ کے نام یورپی یونین کا فیصلہ

جمعرات 06 مئی 2021 مسلم امہ کے نام یورپی یونین کا فیصلہ

ہمارے پاس میڈیا پر، سول سوسائٹی و سیاسی جماعتوں میں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مغرب کے جتنے وکیل موجود ہیں اتنے خود مغرب کے ہاں بھی نہیں، ان کا ہر قسم کا تعصب، ظلم و زیادتی برداشت کرینگے، توہین رسالتﷺ و توہین قرآن کو آزادء اظہار کا نام دینگے، ہر قسم کے اسلام مخالف ایجنڈے کو روشن خیالی کا نام دیکر مغرب کی غلامی اور احسانات کا دم بھرینگے۔ ہمارے میڈیا، سول سوسائٹی و سیاستدانوں کی طرف سے یورپی یونین کی پاکستان مخالف قراردار کو تحریک لبّیک کے تحفظ ناموس رسالتﷺ احتجاج کا ردعمل بتاکر ڈرایا دھمکایا جارہا ہے کہ یورپ پابندیاں لگادے گا اور ہم بھوکے مرجائیں گے گویا رازق و قادر اہالیان مغرب ہیں۔ حقیقتاً یہ کہانی محض اس احتجاج سے شروع نہیں ہوئی اور نہ ہی اتنی پیچیدہ ہے کہ سمجھ نہ آسکے۔ یورپی یونین پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ کیتھالک ریاستوں کا اتحاد ہے جسے خود مغربی حلقے مقدس رومی سلطنت کی بحالی کا نام دے رہے ہیں۔ یورپی یونین نے قرارداد نمبر 2647/2021 پاس کرکے بظاہر تو پاکستان پر الزامات و دباؤ بڑھانے کی کوشش کی ہے مگر حقیقتاً ناموس رسالتﷺ پر وار کرتے ہوے امت مسلمہ کو اپنا فیصلہ سنادیا ہے کہ وہ ہر حال میں اسلام دشمن ہیں۔ بالکل وہی دشمنی جو قرآن ہمیں سمجھاتا ہے لیکن ہم بالخصوص مسلمان حکمران سمجھنے کو تیار نہیں۔ باوجود یکہ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے، باوجود یکہ قانون پاکستان کا جو پاکستانی جغرافیائی حدود اور شہریوں پر لاگو ہوتا ہے، باوجود یکہ یو این منشور اور آئی سی سی پی آر کے مطابق کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتا لیکن یورپی یونین کو محمد عربی ﷺ کی ناموس قبول نہیں اور اس نے سیاسی و معاشی ضابطوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوے پاکستان کو بلیک میل کرتے ہوے دباؤ بڑھایا ہے کہ تحفظ ناموس رسالتﷺ سے باز رہے۔
یہ معاملہ پاکستان کی حد تک نہیں ہے نہ ہی آزادی اظہار کا ہے 2005 میں جب ڈنمارک کے پیپرز نے توہین رسالت کرتے ہوے گستاخانہ خاکے شایع کیے تو مسلم دنیا کی شدید دل آزاری ہوئی اور اس کے خلاف احتجاج کیے تو جرمنی کی ریاست باویریا نے مسلمانوں کے خلاف بدترین کریک ڈاؤن کیا اور گورنر ایڈمنڈ اسٹوئبر نے اسے آزادء اظہار قرار دیا لیکن اگلے ہی سال اسی پیپر نے جب پاپ جان پال دوم اور حضرت عیسیٰؑ کے کارٹون شایع کیے تو باویریا گورنر اسٹوئبر سے لیکر جرمن کونسل تک اور میونخ کے میئر سے لیکر کیتھالک یونیورسٹی تک بلاسفیمی قانون کے لیے اٹھ کھڑے ہوے۔ اسے دوہرا معیار کہا جائے یا دشمنی پاپ جان پال کے کارٹون بلاسفیمی لیکن توہین رسالتﷺ آزادء اظہار۔ یہ وہی یورپی یونین کو لیڈ کرنے والے جرمنی و فرانس تھے جن کو پرو مسلم ترکش فلم قبول نہیں تھی اور سینماؤں پر اس کے چلانے پر پابندی عائد کی گئی اس کے علاوہ ڈرامہ ارطغرل تو قدامت پرستی لیکن ٹیری جونز و ایلن ایریرا کی کتاب دی کروسیڈز پر مبنی سیریز BBC ٹیلیویژن پر نشر ہو تو عظیم شاہکار و یورپ کی عظمت کی تاریخ۔ روہنگیا مسلمانوں کے خون میں دھنسی آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹے تو جمہوریت پر شب خون لیکن فرانس و مغرب چاڈ کے آمر ادرس ڈوبے کو اس لیے بھاتے رہے کہ وہ ان کے اسلام مخالف ایجنڈے پر کاربند رہا جسکے ذریعے نہ صرف چاڈ بلکہ مالی، موریطانیہ، وسطی افریقہ، سوڈان، صومالیہ میں آپریشن برخانے کے نام پر مسلمانوں کا خون بہایا جاتا آرہا ہے، مصر میں محمد مرسی کی جمہوری حکومت اسی لیے قبول نہ ہوئی کہ وہ اسلام کا داعی تھا، ترکی میں فتح گولن کی ایما پر فوجی بغاوت کی کوشش پر مغرب کو تشویش کیوں نہ ہوئی بلکہ اس تحریک کے مفرور مغرب میں ہی پناہ گزین ہیں۔
مشہور کرسچن مبلغ مسٹر فری 2004 میں اپنے مضمون Coming War between Catholicism and Islam میں لکھتے ہیں کہ یورپ ایک بار پھر قدیم ہولی رومن امپائر کی طرف گامزن ہے جس کے نتیجے میں دنیا ایک بار پھر انسانی لاشوں کا ڈھیر بن جائیگی وہ مزید لکھتے ہیں کہ پاپ رجیم کا ماضی نہتے مسلمانوں کے خون سے رنگا ہوا ہے اور ایک بار پھر یورپ اسی کیتھالک ریاست کے لیے پر تول رہی ہے جس کے ہاتھ پر 50 ملین انسانوں کا خون ہے شاید انہیں اس تعداد میں مزید اضافہ چاہئے۔ یقیناً دنیا نے دیکھا کہ عراق میں جمہوریت کے نام پر 2 ملین مسلمانوں کی بلی چڑہادی گئی۔ اس حوالے سے اب یورپ میں شدت دکھی جارہی ہے اور فرانس اس میں پیش پیش ہے جس کی پشت پر پورا کیتھالک یورپ کھڑا ہے۔ 2018 میں میکرون نے کیتھالک یونیورسٹی میں خطاب کیا جس پر کیتھالک ہیرالڈ نے لکھا میکرون ہولی رومن امپائر کی بحالی کی طرف جارہا ہے۔ ترکی یونان معاملے میں مداخلت اور ترکی کی مخالفت کے جواب طیب اردگان نے جب میکرون کو نفسیاتی قرار دیا تو جرمنی سے ہالینڈ تک میکرون بن کر کھڑے ہوگئے۔ فرانس کی اسلام پر پابندیاں کسی سے مخفی نہیں اور اب جرمنی نے بھی متعدد مسلم تنظیموں اور تبلیغی جماعتوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ آسٹریا، ہالینڈ، ہنگری، سلواکیہ بھی اب کھل کر اس کا اظہار کررہے ہیں۔ گزشتہ ماہ اپریل میں 20 فرانسیسی جنرلز اور 1500 سیکیورٹی اہلکاروں نے میکرون کو اسلام مخالف کاروائی اور سخت پابندیوں کے لیے دھمکی آمیز خط لکھ کر ثابت کردیا ہے کہ قدامت پسندی و شدت پسندی مسلمانوں میں نہیں بلکہ اہالیان مغرب میں رچی بسی ہے۔ گزشتہ برس اگست کے اوائل میں لبنانی داراحکومت بیروت میں ہولناک دھماکہ ہوا نتیجتاً لبنان معاشی طور پر مفلوج ہوگیا جس کے بعد میکرون نے لبنان کو ایڈ کے عیوض اسلام مخالف ریفارمز پر مجبور کیا بالکل اسی طرح اب پاکستان پر معاشی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیکر دباؤ بڑھایا جارہا ہے کہ اسلام مخالف قوانین لائے جائیں۔ گزشتہ دو دہائیوں پر نگاہ ڈالی جائے تو واقعات کا ہر موڑ اس کی گواہی دے رہا ہے کہ انسانی حقوق چارٹر، جمہوریت، آزادء اظہار، معاشی و سماجی امداد فقط و فقط اسلام مخالف یتھیار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں پوری مسلم دنیا اس وقت آگ و خون کی لپیٹ میں ہے اب وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ مسلم حکمران قرآن کی بات کو سمجھ لیں ورنہ تاریخی و معروضی حقائق بتاتے ہیں کہ عنقریب وہ وقت آئیگا جب نہ وہ خود محفوظ ہونگے نہ ہی بیرون دنیا میں انکے کاروبار محفوظ رہیںگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر