... loading ...
سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن نے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف مبینہ سازش سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان قاضی فائز عیسی کے خلاف ایف آئی اے میں کیس کا اندراج چاہتے تھے ،عمران خان کے علاوہ شہزاد اکبر، اعظم خان، فروغ نسیم اور ایف بی آر کے کے اشفاق احمد اس سارے معاملے میں ملوث تھے ،ایک انٹرویو میں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن نے انکشاف کیا کہ وزیر اعظم کے سٹاف کے ایک سینئر رکن نے مجھے و ٹیلی فون کرکے کہا وزیر اعظم نے آپ کو بلایا ہے ،میں پنی سرکاری گاڑی میں کچھ دیر بعدوزیر اعظم آفس پہنچاجہاں انہیں سیدھا وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے دفتر میں بھجوادیا گیا جہان ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ اور وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر پہلے سے موجود تھے ،اعظم خان اور شہزاد اکبر انہیں لیکر وزیر اعظم عمران خان کے دفتر میں چلے گئے ،جہاں وزیر اعظم عمران خان نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کیا حال ہے بشیر!تم ہمت کرنا، تم بڑے اچھے افسر ہواور ٹیم کو چلا لو گے ۔ تم پہلے بھی بڑے اچھے کیس بناتے ہو اس کیس میں بھی ہمت کرنا اور اچھا کیس بنانا ۔ بشیر احمد میمن نے کہا کہ بتایا کہ وزیر اعظم کے ساتھ ان کی یہ ملاقات کوئی دو یا تین منٹس کی ہی تھی جس کے بعد ہم تینوں وہاں سے اٹھے ،بشیر احمد میمن نے دعوی کیا کہ شہزاد اکبر کے دفتر میں جاکر انہیں پہلی مرتبہ پتا چلا کہ وزیر اعظم اندر کس کیس اور شخصیت کے متعلق تحقیقات کی بات کر رہے تھے ۔ بشیر احمد میمن نے کہاکہ میں نے حیرانی کے عالم میں شہزاد اکبر اور اعظم خان دونوں سے سوال کیاکہ آپ سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی اور انکی اہلیہ کے خلاف ایف آئی اے کی تحقیقات کی بات کر رہے ہیں، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ مجھے فورا جواب دیا گیا کہ ہمارے پاس کافی چیزیں ہیں، ریکارڈ موجود ہے آپ بس بسم اللہ کریں ۔بشیراحمد میمن کے بقول انھوں نے دونوں اشخاص کو بتایا کہ ایف آئی اے اعلی عدلیہ سمیت کسی جج کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکتی۔ جب بات قانونی نکتے پرپھنسنے لگی کہ ایف آئی اے کیسے سپریم کورٹ کے ایک سینئر اورحاضر سروسر س جج کے خلاف تحقیقات کر سکتی ہے تو اعظم خان اور شہزاد اکبر بشیر احمد میمن کو کہنے لگے کہ چلیں وزیر قانون کے پاس چلتے ہیں جو آپ کو مزید اس پہ بتا سکتے ہیں۔ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے مطابق وہ تینوں وہاں سے اٹھے اور وزیر قانون فروغ نسیم کے دفتر میں چلے گئے جہاں پر ایف بی آر کے کمشنرانکم ٹیکس ڈاکٹر اشفاق احمد بھی پہلے سے ہی موجود تھے ۔ اس وقت کمرے میں ہم کل پانچ لوگ تھے ۔بشیر احمد میمن کے مطابق وزیر قانون کے دفتر میں بیٹھتے ساتھ ہی فروغ نسیم کو بتایا گیا کہ میمن صاحب کوجسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف تحقیقات کرنے پہ کچھ اعتراضات ہیں۔میں نے کہا کہ اعتراضات کی بات نہیں بھائی خدا کے لئے وزیر اعظم کو سمجھائیں کہ وہ ایسا کام نہ کریں۔ ہمیں وزیر اعظم صاحب کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ایف آئی ا ے معزز ججز کے خلاف تحقیقات نہیں کرسکتی کیونکہ یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے جو آپ ایف آئی اے سے لینا چاہتے ہیں۔بشیر احمد میمن کے بقول حالانکہ انھوں نے اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل کا متعلقہ آرٹیکل پڑھا بھی نہیں تھا لیکن کیونکہ پولیس افسر کے طور پر ان کی ساری زندگی تفتیشوں اور انکوائریوں میں گزری ہے اس لئے انہیں پتا تھا کہ ہم عدلیہ کے خلاف تحقیقات نہیں کرسکتے ۔ فروغ نسیم نے انہیں یہ کہتے ہوئے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ہمارے پاس جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ساری دستاویزات ہیں اور پھر یہ کیس میں خود لڑوں گا اور آپ کراچی میں اتنا عرصہ نوکری کرتے رہے ہیں آپ کو تو پتا ہے کہ میں آج تک کوئی کیس ہارا نہیں ہوں۔ایف آئی اے کے سابق سربراہ نے مزید بتایا کہ اس ملاقات میں موجود اشخاص کو انھوں نے پھر یاد کروایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی سپریم کورٹ کے ایک معزز جج ہیں اور ہم یہاں بیٹھ کر ان کے خلاف ایف آئی اے سے تحقیقات کروانے کی بات کر رہے ہیں ؟کیا آپ تاریخ بدلنا چاہتے ہیں، آئین اور قانون بدلنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو اب ایف آئی اے تفتیش کیا کرے گی،بشیر احمد میمن کے بقول اعظم خان اور شہزاد اکبر کہنے لگے کہ آپ آئین اور قانون کو چھوڑیں وہ فروغ نسیم صاحب زیادہ جانتے ہیں۔بشیر احمد میمن کے بقول انھوں نے اس ملاقات میں موجود انکم ٹیکس کمشنر اشفاق احمدکوبھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو اشفاق تم اس کام میں مت پڑنا، میں نے اپنے کیرئیر کی پیک دیکھ لی ہے میں ڈی جی ایف آئی اے ہوں اور اس سے بڑی پوسٹ پولیس میں ہے نہیں لیکن تمھارا ابھی 7, 8سال کیرئیر پڑا ہے اس لئے تم یہ مت کرو۔فروغ نسیم اور شہزاد اکبر وغیرہ کو کچھ نہیں ہونا اور ان کی ضمانت بھی ہوجانی ہے لیکن اس سارے معاملے میں کندھا ہمارا استعمال ہوگا۔ بشیر احمدمیمن کے مطابق اشفاق احمد کہنے لگے کہ سر ہم ساتھ جائیں گے اور ایگزیکٹیو کلاس میں لندن کے ٹوئرز ہوں گے اور گھومے پھریں گے جس پہ میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا کہ بھائی کیا تم نے لندن کی سیر کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف تحقیقات کا حصہ بننا ہے ۔؟اسی ملاقات کے دوران ایف آئی اے کے سابق سربراہ کو مزیدکہا گیا کہ دیکھیں سپریم کورٹ کے جج صاحب نے فلاں کے خلاف، متحدہ کے خلاف، پی ٹی آئی کے خلاف اور دیگر کے خلاف ایسے فیصلے دیے ہیں جس پہ ان کے بقول وہ کہنے لگے کہ وہ سپریم کورٹ کے سارے فیصلے نہیں پڑھتے اس لئے انہیں نہیں پتا کہ ان فیصلوں میں کیا لکھا گیا ہے ۔بشیراحمد میمن نے بتایا کہ اس موقع پر فروغ نسیم دوبارہ بولے کہ آپ یہ سب چھوڑیں میں ہوں نا یہ سب میں کر لوں گا آپ بس کیس بنائیں میں کچھ نہ کچھ کرلوں گا۔ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے مطابق انھوں نے ملاقات میں موجود تمام افراد کو صاف بتادیا چونکہ ملک کا آئین اور قانون ایسی کوئی اجازت نہیں دیتا اس لئے ایف آئی اے اس کیس میں پارٹی نہیں بنے گی۔انھوں نے کہا کہ انہیں وہاں یہ بات بھی یاد کروائی گئی کہ ان تحقیقات کا وزیر اعظم خود کہہ رہے ہیں جس پہ بشیراحمد میمن نے کہا کہ اگر ان کی ملاقات وزیر اعظم سے دوبارہ ہوئی تو وہ انہیں ضرور یہ مشورہ دیں گے کہ وہ ایسے کام کا حکم نہ دیں۔ایف آئی اے کے سابق سربراہ نے مزید بتایا کہ انھوں نے اشفاق کو یہ بھی کہا کہ دیکھو خود کو خراب کر کے تمھیں کیا ملے گا، اگر چیئرمین ایف بی آر کی بات ہے تو وہ شاید تم ویسے بھی لگ جا پھر اس کے لئے یہ سب کرنے کی ضرورت کیا ہے ۔ فروغ نسیم کہنے لگے کہ آپ نے کرنا ہے تو ٹھیک ورنہ اشفاق کو بدظن نہ کریں۔بشیر احمد میمن کے مطابق انھوں نے اپنے دفتر میں بھی یہ بات کسی سے شیئر نہیں کی البتہ اپنے سٹاف سے یہ سوچ کر سپریم جوڈیشل کونسل کے متعلق کچھ چیزیں ضرور منگوالیں تاکہ پڑھ سکیں کہ ان کا جو موقف اس ملاقات میں تھا وہ صحیح بھی تھا یا نہیں۔ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے مطابق اس ملاقات کے بعد کئی ہفتے گزر گئے لیکن ان سے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف تحقیقات کرنے یا ریفرنس بنانے کے حوالے سے کبھی کوئی بات نہیں کی گئی۔ اس ملاقات کے چند ہفتے بعد شہزاد اکبر نے اچانک مجھے بلایا اور کہا کہ انہیں جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کی اہلیہ کی ٹریول ہسٹری مہیا کروں۔بشیر احمدمیمن کے بقول انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ سپریم کورٹ کے ایک معزز جج ہیں اور وہ ان کی ذاتی معلومات انہیں مہیا نہیں کرسکتے ، یہ غیر قانونی ہے ۔ٹھیک ہے پھر ہم سیکرٹر ی داخلہ کو کہیں گے کہ وہ تحریری طور پر آپ سے یہ معلومات لیکر ہمیں دیں، شہزاد اکبر کے کہنے پر بشیر احمد میمن نے جواب دیا کہ وہ تحریری طور پر آئی درخواست پر بھی یہ معلومات شیئر نہیں کریں گے ۔ بشیر احمد میمن نے مزید بتایا کہ اس روز انہیں احساس ہوا کہ حکومت اب بھی اس معاملے پہ بضد ہے حالانکہ وہ سمجھ رہے تھے شاید ریفرنس بنانے کا معاملہ ختم ہوگیا تھا۔ایک سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں شک ہے کہ حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کی لندن میں جائیدادوں کی تفصیلات اس ڈیٹا سے ملیں جو ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر ممالک سے پاکستان کو شیئر کیا گیا تھا جس میں ان تمام پاکستانیوں کی تفصیلات درج تھیں جنھوں نے برطانیہ اوریورپ میں جائیدادیں خرید رکھی تھیں۔بشیر احمدمیمن کے مطابق وہ یہ بات اس لئے کر رہے ہیں چونکہ پاکستانیوں کی ان جائیدادوں کی تفصیلات انھوں نے ایف بی آر سے متعدد بار مانگیں تھیں تاکہ وہ ان کے ساتھ مل کرجرمانے کے ذریعے ریکوری کرواکر قومی خزانے میں کچھ رقم جمع کروا سکیں جیسا انھوں نے دبئی پراپرٹیز کے سوموٹو کیس میں کی بھی کیا تھالیکن انہیں وہ معلومات نہیں دی گئیں اور اتفاقا انکم ٹیکس کے کمشنر ڈاکٹر اشفاق احمداس وقت اسی سیل کو دیکھ رہے تھے جن کے پاس پاکستانیوں کا وہ سارا ڈیٹا پڑا ہوا تھا۔بشیر احمد میمن کے مطابق وہ خود اور سیکرٹری داخلہ ان معلومات کے لئے اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر سے بھی ملے تھے اور ان کی اجازت کے باوجود بھی انہیں اس ڈیٹا تک رسائی نہ دی گئی۔اس سوال کے جواب میں کہ ان کے پاس ان ملاقاتوں کے کیا شواہد ہیں بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم آفس جانے والے ہر بندے کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اگروزیر اعظم آفس کا ریکارڈ دیکھا جائے تو آسانی سے پتا چل جائے گا کہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے بعد میں انہیں کب کب ملا ۔ایک سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے سابق سربراہ نے کہا انھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کی اہلیہ کا ٹریول ریکارڈ حکومت کو نہیں دیا اگر وہ ریکارڈ کسی اور ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو تو وہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ پاکستان کے بہت سے سول اور خفیہ اداروں کے پاس مسافروں کے ٹریول ڈیٹا کو دیکھنے کی رسائی ہوتی ہے ۔ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے بقول انہیں تو تسلی تھی کہ یہ ریفرنس نہیں بنائیں گے اور اگر اصرار کریں گے تو پھر بھی تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کے پاس ہی آئیں گے لیکن مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ ایف بی آر کے ایک کمشنر اس کام پہ زور شور سے لگے ہوئے تھے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اب اسی لئے بول رہا ہوں تاکہ اس ملک میں کوئی رول آف لا ہو، کوئی قانون کی عملداری ہو۔اس سوال پر کہ اگر سپریم کورٹ یا سپریم جوڈیشل کونسل انہیں بطور عینی شاہد بلاتی ہے تو کیا وہ پیش ہوں گے اس پہ بشیر میمن کا کہنا تھاکہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں سپریم کورٹ یا سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل انہیں بلاتی ہے تو وہ ضرور پیش ہوں گے اور اس کیس سے جڑے تمام حقائق ان کے سامنے رکھیں گے ۔
ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...
سندھ کابینہ نے رینجرز کی کراچی میں تعیناتی کی مدت میں 180 دن کے اضافے کی منظوری دے دی۔ترجمان حکومت سندھ نے بتایا کہ رینجرز کی کراچی میں تعیناتی 13 جون 2024 سے 9 دسمبر 2024 تک ہے ، جس دوران رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت اختیارات حاصل رہیں گے ۔کابینہ نے گزشتہ کابینہ ا...
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی دے رہے ہیں ۔ دی وائر کے مطابق بی جے پی نے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کے ذریعے مودی کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں مودی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندؤں کی جائیداد اور دولت م...
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کسی بھی صورت غزہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا معاہدہ تسلیم نہیں جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ ...
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر شرقی نے بتایا کہ جے یو آئی کو ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بڑے عوامی اجت...
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...
فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...
غزہ میں مظالم کے خلاف اسرائیل کی مبینہ حمایت کرنے والی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ معروف امریکی فوڈ چین کے ایف سی نے ملائیشیا میں اپنے 100 سے زائد ریستوران عارضی طور پر بند کرنیکا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملائیشیا میں امریکی فوڈ چین کی فرنچائز کم...
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔لاہور میں فلسطین کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ یہاں بلاوجہ شہباز شریف کی شکایت کی گئی اس بیچارے کی حکومت ہی...
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، ہم سب مل کر پاکستان کو انشااللہ اس کا جائز مقام دلوائیں گے اور جلد پاکستان اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔لاہور میں عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ ا...
غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رہنما راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سنگھ پریوار کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق 1947میں جموں خطے میں ہن...
پی ٹی آئی نے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ، جے یو آئی ف کے سربراہ کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی ک...