وجود

... loading ...

وجود
وجود

ٹیلنٹ کاقتل

اتوار 04 اپریل 2021 ٹیلنٹ کاقتل

کئی دن تمام ہوئے طبیعت لکھنے لکھانے کی طرف مائل ہی نہیں ہورہی ایک جمود سا طاری ہے عجیب سی وحشت۔۔سکون نام کو نہیں اضطراب ہی اضطراب ۔۔حالانکہ انشاء جی نے تو یہ کہا تھا
وحشی کو سکون سے کیا مطلب
جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
لیکن ہم جوگی ہیں نہ وحشی۔۔۔پھردل میں اس حد تک اضطراب کیسا؟ ۔۔۔سکون کیوں نہیں؟ شایدمزاج میں حساسیت بڑھ گئی ہے یا کچھ اور عوامل۔۔۔ عرصہ ہوا ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا کئی خبروں کی سنسنی اور ظلم کی داستانیں سن اور دیکھ کر نروس بریک ڈائون ہو جا تاہے تو اہلیہ کہتی ہیں سارا دن صم بکم پڑے رہنا ہے تو ٹی وی دیکھتے کیوں ہو؟ اب میڈیا سے تعلق ہے ہمارا باخبررہنا بھی ضروری ہے اس لیے ٹی وی سے ناطہ سے توڑا بھی نہیں جا سکتا لیکن احتیاط لازم ہے آخر زندہ بھی تورہناہے اکثر لوگ خیال کرتے ہیں کالم نگاری عام سی بات ہے کچھ ہمارے دوست مضمون لکھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے تو اچھا بھلا کالم لکھ ماراہے لیکن
دل کے بہلاوے کیلئے غالب یہ خیال اچھا ہے
والی بات زیادہ مناسب ہے کیونکہ بیشتر اخبارات میں لوگو کے ساتھ چھپنے والے90% مضامین ہی ہوتے ہیں ایک تنقید نگار کا فلسفہ ہے’’ مضمون لکھنا مکھی پہ مکھی مارنے والا کام ہے جو نقل کے لیے عقل کا بہتر استعمال کرنا جانتاہے وہ اتناہی اچھامضمون نگار بن سکتاہے‘‘سوچے سمجھے معمولی ردو بدل کے لکھتے چلے جائیں آپ ایک اچھا مضمون لکھ سکتے ہیں کالم نگاری کے سو نخرے ہیں اس میں سیدھی بات کرنے کی بجائے بین السطور بہت کچھ کہاجا سکتاہے تشبیہہ،استعارے اور مثالیں کالم کی فصاحت اوربلاغت کا امتزاج بنتاہے تو قاری کوبے ساختہ کالم نگار کی ذہنی استعدادکا قائل ہونا ہی پڑتاہے یقینا کالم نگاری۔۔ مضمون نویسی سے مشکل کام ہے زیادہ تر کالم حالات ِ حاضرہ پر لکھے جاتے ہیں ہلکے پھلکے اندازکے کالم زیادہ پسند کئے جاتے ہیں مزاح اور لطیف پیرائے میں مشکل سے مشکل اور سخت بات کہنے کا فن کالم نگار اچھی طرح جانتاہے ۔۔۔ مضمون کسی بھی موضوع پر لکھے جا سکتے ہیں اور اس کا کینوس بہت وسیع ہے اکثرمضامین خشک اندازمیں لکھے جا تے ہیں آج کے پرآشوب ماحول، نفسا نفسی، معاشی ومعاشرتی مسائل کے باعث بیشترلوگ کم متوجہ ہوتے ہیں دنیا بھر میں بہت سے لوگوںنے کالم نگاری میں نام کمایاہے جو بڑی بڑی مراعات کے ساتھ ساتھ6ہندسوںمیں تنخواہ پارہے ہیں ،صدر، وزیراعظم سمیت حکومتی عہدیدار اوراپوزیشن رہنما بڑے بڑے ادارے ان پر نوازشات کررہے ہیں ان کی دعوتیں کی جاتی ہیںبیش قیمت پلاٹ تحفے کے طورپر پیش کیے جاتے ہیں مختلف حکومتی عہدیدار انہی صحافیوں کو اپنے صوابدیدی فنڈسے لاکھوں کروڑوں بانٹتے رہتے ہیں اکثر اخبارات میں آتاہے فلاںصدر وزیر ِ اعظم یا وزیر ِ اعلیٰ نے اپنے پسندیدہ صحافیوں، سینئر کالم نگاروں اور اینکر پرسنز میں اتنے کروڑ بانٹ دئیے اسے لفافہ جنرنلزم کا نام دیا جاتاہے اب معروف کالم نگار مختلف چینل میں ایسے ایڈ جسٹ ہوگئے ہیں جیسے گھی اور شکر مکس ہو جاتے ہیں ان کو ملک کے ہر ادارے حتیٰ کہ حساس اداروں تک رسائی حاصل ہے جس سے ان کی طاقت، اختیارات اور وسائل میں بے پناہ اضافہ ہو گیاہے اب تو یہ لوگ حکومتوں کو بھی بلیک میل کررہے ہیں اور اس طرح دولت کی دیوی ان پر بری طرح فریفتہ ہے اخبارات میں لکھنے والے99% قلم کاروںکو کوئی معاوضہ نہیں ملتا وہ بے چارے اپنے مضمون یا کالم چھپنے پر ہی اتراتے رہتے ہیں کسی بڑے اخباری ادارے یا حکومتی سطح پر ان کی پر موشن کے لیے کچھ نہیں کیا جاتاحالانکہ ان کے افکارسے روزانہ کروڑوں افراد مستفید ہوتے ہیںحتیٰ کہ بڑے بڑے اخبارات ان کے کالم مضامین اورفیچر چھاپنا بھی گوارا نہیں کرتے جس سے چند سکہ بند ادیبوں، کالم نگاروں اورمضمون نویسی کی مخصوص اجارہ داری قائم ہے اخبارات ہوں یا نیوز چینل ہرجگہ وہی خاص چہرے دکھائی دیتے ہیں انہی کے مخصوص نظریات کی چھاپ ہے حالانکہ ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں لیکن ان کی رہنمائی کے لیے کوئی ادارہ نہیں جو شخص اینی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے یا سفارش کے باعث مشہور ہو جاتاہے ان کو ہاتھوں ہاتھوں لیا جاتاہے بلاشبہ یہ ٹیلنٹ کا قتل ہے اور حکومتیں روکنے کی بجائے اس طرز ِ عمل کو فروغ دے رہی ہیں۔
مغربی دنیا بارے یہ بھی سننے میں آتارہتاہے کہ ایک شخص نے تنہائی سے تنگ آکر کچھ لکھناشروع کیا اس کی کتاب چھپی تو تہلکہ مچ گیا برصغیر پر ہی موقوف نہیں تیسری دنیا کے بیشترممالک میں کتابوں سے محبت ختم ہوگئی ہے جہاں کبھی کتابوںکی دکانیں ہوتی تھیں اب وہاں برگر شاپ یا کھانے پینے کا سامان فروخت ہوتاہے کتابیں پڑھنے والے شاید اس صدی کے ہم آخری لوگ ہیں جب پڑھنے لکھنے کا کلچر ہی نہ رہے تو تہلکہ کیسے مچے گا وہ تو اللہ بھلاکرے ڈائجسٹوں کا اس نے کچھ سنبھالا دیا ہواہے وگرنہ کتاب پڑھنے کا رواج کب کا ختم ہوچکاہوتا کچھ جھوٹ کی حکمرانی نے لوگوںکو متنفرکردیاہے جس سے اخبار پڑھنے کے رحجان میں نمایاں کمی آگئی ہے رہی سہی کثر ان اینکرپرسنز نے نکال دی ہے جو اپنی لچھے دار باتوں کے کیپسول میں جھوٹ چھپاکر پیش کرتے ہیں ان کی اپنی ہی ترجیحات،مالی مفادات،منافقت اور پسند ناپسند نے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیاہے جس کے باعث عام آدمی کسی کی بات پر اعتبارکرنے کو تیارنہیں ۔اللہ کا فرمان ہے سچ کو جھوٹ کے پردے میں نہ چھپائو۔ انصاف کے لیے حق کی گواہی پر ڈٹ جانے کا حکم بھی دیا گیاہے لیکن ہم اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کریں اخبارات ورسائل اور ٹی وی چینلزپر غورکریں تو احساس ہوتاہے کیا صحافی، سینئر کالم نگار، اینکر پرسن یا پھر مضمون نگار اکثرو بیشتر جھوٹ کا کاروبارکررہے ہیں اور یہ بھی ٹیلنٹ کا قتل ہے اور بدقسمتی سے جوجتنا بڑا جھوٹا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہے یہی وجہ ہے کہ دلوں میں اس حد تک اضطراب بڑھ گیاہے کہ ابسکون محال ہے سچ ہے دل کا سکون سچائی میں ہے جسے اکثر لوگ چھپاتے پھرتے ہیں صحافی، ہوںیاپھر کالم نگار، اینکر پرسن یا پھر مضمون نگار، ادیب ہوں یا شاعر سب پر اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ سچ کو جھوٹ کے پردے میں نہ چھپائیں اسی طرح ایک بہتر معاشرہ تشکیل پا سکتاہے اور شاید اسی طرح حقدار کو حق مل جائے اور ٹیلنٹ کا قتل ِعام نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر