وجود

... loading ...

وجود
وجود

اورضمانت ضبط ہوگئی۔۔۔

اتوار 04 اپریل 2021 اورضمانت ضبط ہوگئی۔۔۔

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کوتشکیل دیئے ابھی کچھ ہی وقت گزارتھاکہ ن لیگ کی ایک اعلی سطحی میٹنگ میں یہ خدشہ ظاہر کیاگیا کہ پیپلزپارٹی اورعوامی نیشنل پارٹی اس اتحاد کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ماہ نومبر2020 کوان خدشات بارے ن لیگ کے قائدمیاں نوازشریف کوآگاہ کر دیا گیا تھا جس پر انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے بات کی اورانہیں ن لیگ کی تشویش بارے بتایا لیکن مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آصف علی زرداری جس قسم کے حالات سے دوچارہیں وہ ایسا کچھ کرہی نہیں سکتے اس لئے آپ بے فکرہوجائیں مولانافضل الرحمان کی اس بات پر بھی میاں نوازشریف مطمئن نہ ہوئے اوران سے کہا کہ کیا وہ اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ آصف علی زرداری دھوکہ نہیں دیں گے نوازشریف کی اس بات پر مولانافضل الرحمان نے آصف علی زرداری کی ضمانت دی ان کے ضامن بننے پرمیاں نوازشریف مطمئن ہوگئے اورانہوں نے اپنی پارٹی سے کہا کہ وہ پی ڈی ایم کے فیصلوں کااحترام کریں اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ماضی کی تلخیوں کوبھلاکرنئی تاریخ لکھیں۔
میاں نوازشریف کی اس ہدایت کے بعد مریم نوازشریف اوربلاول بھٹوزرداری کے درمیان ملاقاتوں کاسلسلہ شروع ہوا اور یہ سلسلہ یہاں تک بڑھا کہ مریم نوازشریف نے بے نظیربھٹو کی برسی کی تقریب میں شرکت کی اور ایک دھواں دھارخطاب کیا ایک طرف پیپلزپارٹی اورن لیگ میں قربتیں بڑھتی جارہی تھیں تودوسری طرف آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک چینل کھول کراپنے لئے ریلیف لینے اسٹیبلشمنٹ کومشکلات سے نکالنے کے عہدوپیماں کررہے تھے ن لیگ کوانہی دنوں یہ بھنک بھی پڑگئی تھی کہ زرداری نے اپنی چال چل دی ہے۔ آپ کویادہوگا کہ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے شہباز شریف سے انکی والدہ کی تعزیت کے لیے ملاقات کی تھی دراصل وہ ایک سیاسی ملاقات اوراسٹیبلشمنٹ کی پیغام رسانی تھی چوہدری نثارعلی خان نے شہبازشریف کوبتایا تھا کہ آصف علی زرداری جس دروازے سے داخل ہوئے ہیں اس سے آپ بھی داخل ہوسکتے ہیں۔ میاں شہبازشریف نے وہ پیغام خواجہ آصف اوربعدازاں شاہد خاقان عباسی کے زریعے میاں نوازشریف کوپہنچایا آپ کویہ بھی یاد ہوگا کہ انہیں دنوں خواجہ آصف نے آصف علی زرداری پراعتماد نہ کرنے کابیان بھی داغاتھا لیکن نوازشریف نے نہ صرف شہبازشریف کوخاموش کرادیا بلکہ خواجہ آصف سمیت تمام رہنماؤں کوپیپلزپارٹی اورآصف علی زرداری کے حوالے سے بیان بازی سے بھی روک دیاتھا نوازشریف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے پتے سینے سے لگاکرکھیلتے ہیں اس لیے انہوں نے دیکھو اورانتظارکرو کی پالیسی اختیار کی ان کاخیال تھا کہ آصف علی زرداری جوکررہے ہیں انہیں وہ کرنے دیاجائے اورنتیجہ کاانتظار کیاجائے وہ سمجھتے تھے کہ جیسے بے نظیربھٹو اورپرویز مشرف کے درمیان خفیہ مذاکرات جس کا نتیجہ بدنام زمانہ این آراو کی صورت میں نکلاتھا جس سے ایک جانب بے نظیربھٹو کوملک میں واپسی کاراستہ مل گیاتھا تواسی بنیاد پرانہیں بھی واپسی کاپروانہ مل گیا تھا اس طرح بغیرکوئی محنت کئے وہ بھی ملک واپس آگئے تھے اس لئے وہی کہانی دہرائی جائے گی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب جب زرداری اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری مذاکرات عمران خان کی وجہ سے تعطل کاشکار ہوئے نوازشریف نے دبائو بڑھا دیا اورکسی نہ کسی بہانے سے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کانام لے دیاجس کافائدہ یہ ہوا کہ عمران خان کاوارکارگرثابت نہ ہوا اور اسٹیبلشمنٹ دوبارہ سے زرداری کے قریب جانے پرمجبورہوگئی نوازشریف کوجنوری کے آخر میں یہ بات پتہ چل چکی تھی کہ آصف علی زرداری کے مذاکرات کامیاب ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے دیکھواورانتظارکروکی پالیسی برقراررکھتے ہوئے آصف علی زرداری سے کہا کہ ان کے معاملات طے ہوچکے ہیں اس لیے اس کاخاطرخواہ فائدہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کوپہنچائیں اوراسٹیبلشمنٹ کونئے انتخابات پرقائل کریں آصف علی زرداری نے نوازشریف کی اس بات پر دھیان دینے اور اپوزیشن اتحاد کو فائیدہ پہنچانے کی بجائے ن لیگ اور پی ڈی ایم کی دیگرجماعتوں کے ساتھ چورسپاہی کا کھیل کھیلناشروع کردیا وہ کبھی گلگت بلتستان کے الیکشن میں کودجاتے اورکبھی ضمنی الیکشن کاڈول ڈال دیتے جب دوسری جماعتیں ہانپتی کانپتی ان کے پیچھے آنے پرمجبور ہوجاتیں تو وہ سینٹ الیکشن کااکھاڑہ سجادیتے اور کسی سے مشورہ کئے بغیر یوسف رضا گیلانی کوسینیٹر اوربعدازاں چیرمین سینٹ بنوانے پرتل جاتے زرداری پی ڈی ایم کی جماعتوں کوتگنی کاناچ نچاتے رہے اوروہ اس کے آگے ناچنے پرمجبورہوتی رہیں ۔
اس ساری گیم میں جوسب سے دلچسپ واقعہ ہوا وہ یہ کہ پی ڈی ایم کی اس کھینچاتانی میں شہبازشریف کوجیل جاناپڑا ایک جانب عمران خان ہرصورت میں شہبازشریف کوسلاخوں کے پیچھے دھکیل کر اپنے راستے کاپتھر ہٹانے کے جتن کررہے تھے تودوسری جانب آصف علی زرداری بھی شہبازشریف کواپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں عمران خان اورآصف علی زرداری ایک پیج پرتھے۔ دونوں کی خواہش پراسٹیبلشمنٹ شہبازشریف کوجیل میں ڈالنے پرمجبورہوئی اوریوں آصف علی زرداری کاراستہ صاف ہوگیا اب آصف علی زرداری ون مین شو کے طورپر اپنے لئے بہت کچھ سمیٹ چکے تھے جبکہ ن لیگ اس ”سہولت ”سے محروم ہوچکی تھی شہباز شریف کے جیل جانے سے ن لیگ پوری طرح زرداری اور اسٹیبلشمنٹ کی “گیم” سے واقف نہ تھے شائد یہی وجہ ہے کہ مریم نواز اپنے طے کردہ رول کونبھارہی تھیں اوروہ اسٹیبلشمنٹ پرتابڑتوڑ حملے کرنے میں مصروف تھیں کہ پی ڈی ایم اجلاس میں جب آصف علی زرداری نے نوازشریف کی ملک واپسی کامطالبہ کیاتویہ مریم نواز شریف کے لئے حیران کن تھا جسکا انہوں نے فورا ردعمل دیا۔ اس ردعمل کان لیگ کوکوئی فائدہ ہوایانہیں البتہ پی ڈی ایم کوبہت نقصان ہوا اوراسٹیبلشمنٹ اورآصف علی زرداری کی ”کاوشیں”بارآورثابت ہوئیں۔ اس ساری گیم میں جوسب سے زیادہ گھاٹے میں رہے وہ مولانافضل الرحمان ہیں کہ ایک جانب ان کی دن رات کی محنت رائیگاں گئی پی ڈی ایم ہاتھ ملتی رہ گئی اوردوسری جانب ان کی آصف علی زرداری کے حوالے سے نوازشریف کودی گئی۔۔۔”ضمانت” بھی ضبط ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر