وجود

... loading ...

وجود
وجود

وطن دشمنی کا جھوٹا الزام اور بیس سالہ اذیت

اتوار 04 اپریل 2021 وطن دشمنی کا جھوٹا الزام اور بیس سالہ اذیت

(مہمان کالم)

معصوم مرادآبادی

گجرات کی ایک عدالت نے حال ہی میں ان 122 مسلمانوں کو باعزت بری کردیا ہے، جنھیں اب سے بیس سال پہلے وطن دشمنی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون(یو اے پی اے)کے تحت گرفتار کیے گئے ان لوگوں کو دس مہینے جیل میں بھی گزارنے پڑے تھے۔ حالانکہ اس کے بعد انھیں ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی تھی، لیکن بیس سال کا یہ عرصہ ان لوگوں نے سخت ذہنی اذیت، کرب اور پریشانی میں گزارا۔ سہارنپور کے 85 سالہ باشندے مولانا عطاء الرحمن وجدی نے عدالتی فیصلے کے بعد نامہ نگاروں سے کہا کہ’’میں نے یہ عرصہ ملک دشمنی کے داغ کے ساتھ گزارا ہے، لیکن اب میں بری ہوگیا ہوں اور چین سے مرسکوں گا۔‘‘ مولانا عطا الرحمن وجدی ان تمام ملزمان میں اس لیے سب سے الگ نظر آرہے تھے کہ وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر عدالت میں حاضر ہوئے تھے۔مولانا وجدی ملی تحریکات سے وابستہ ایک مخلص اور خداترس انسان ہیں۔

اس ملک میں ایسے نہ جانے کتنے لوگ ہیں جو بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ 122افراد خوش قسمت تھے کہ انھیں بیس سال بعد سہی وطن دشمنی کے الزام سے نجات مل گئی اور وہ باعزت بری ہوکر اپنے اپنے گھروں کوچلے گئے ہیں، لیکن ہزاروں لوگ آج بھی اپنی تمام تر بے گناہی کے باوجود جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ان میں تازہ کھیپ ان لوگوں کی ہے جنھیں گزشتہ ایک سال کے دوران شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف پرامن احتجاج میں حصہ لینے کی پاداش میں پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ان میں سے درجنوں لوگوں کو غیرقانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون (یو اے پی اے)کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا ہے اور انھیں ضمانت نہیں مل رہی ہے۔یہ لوگ کتنے عرصے مزید جیل میں رہیں گے اور کب تک انھیں ملک دشمنی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا، کسی کو نہیں معلوم۔

28دسمبر 2001 کی آدھی رات کا قصہ ہے۔ سورت پولیس نے مخبر کی اطلاع پاکر نواساری بازار کے ایک ہال پر چھاپہ مارا اور وہاں ایک پروگرام کے لیے جمع ہوئے تمام لوگوں کو گرفتار کرلیا۔پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس نے وہاں سے ممنوعہ تنظیم ’سیمی‘ کی ممبرسازی کے فارموں کے علاوہ اسامہ بن لادن کی تعریف وتوصیف والے پوسٹر اور مواد برآمد کیا۔پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جس وقت چھاپہ مارا گیا تو وہاں موجود لوگوں نے ثبوت مٹانے کے لیے اپنے اپنے موبائل سم نگل لیے۔حالانکہ یہ وہ دور تھا جب شاذ ونادر ہی کسی کے پاس موبائل فون ہوتا تھا۔ جس وقت یہ کارروائی انجام دی گئی اس وقت ’سیمی‘ پر پابندی کو محض دوماہ کا عرصہ ہی گزرا تھا۔وہاں موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ’تعلیمی حقوق اور دستوری رہنمائی‘ کے موضوع پرآل انڈیا مائنارٹیز ایجوکیشن بورڈ کے دوروزہ سیمینار میں شرکت کے لیے جمع ہوئے تھے۔ لیکن پولیس نے انھیں ’سیمی‘ سے اس لیے جوڑ دیا کیونکہ اس سیمینار کاہال جس ماجد منصوری کے نام پر بک کرایا گیا تھا، وہ ’سیمی‘ کے رکن ساجد منصوری کا بھائی تھا۔ پولیس کا الزام تھا کہ یہ سیمینار دراصل ’سیمی‘ کی سرگرمیاں چلانے کے لیے ایک آڑکے طورپر منعقد کیا گیا تھا۔

چیف میٹرپولیٹن مجسٹریٹ امت کمار دوے نے تمام ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ استغاثہ ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے، اس لیے ملزمان کو یو اے پی اے کے تحت قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ عدالت نے مزید کہا کہ ان کے خلاف پیش کیے گئے شواہد نہ تو قابل یقین تھے اور نہ ہی اطمینان بخش۔ مجسٹریٹ نے کہا کہ پولیس ملزمان کا ’سیمی‘ سے تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہی اور نہ ہی یہ ثابت کرسکی کہ یہ لوگ ’سیمی‘ کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے وہاں جمع ہوئے تھے۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ لوگ وہاں ایک تعلیمی پروگرام کے لیے ہی جمع ہوئے تھے۔ نہ تو ان میں سے کسی کے پاس کوئی ہتھیار تھا اور نہ ہی پولیس چھاپے کے دوران کسی نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی۔ پولیس کو ان کے پاس سے ’سیمی‘ سے متعلق کوئی دستاویز بھی نہیں ملی اور نہ ہی ان کا ’سیمی‘ سے کوئی تعلق ثابت کیا جاسکا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو پولیس نے جھوٹے کیس میں پھنسایا تھا وہ سبھی پڑھے لکھے تھے اور ملک کے مختلف حصوں سے تعلیم کے موضوع پر تبادلہ خیال کرنے جمع ہوئے تھے۔ اس میں وائس چانسلر، پروفیسر، انجینئر،ڈاکٹر، صحافی اور علماء شامل تھے۔پولیس نے جب ان کے خلاف ملک دشمنی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تو انھیں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور وہ سماج میں سر اٹھاکر جینے کے قابل نہیں رہ پائے۔ ان پر جو دفعات لگائی گئی تھیں وہ سب وہی تھیں جو وطن دشمنوں اور دہشت گردوں پرلگائی جاتی ہیں۔ان تمام لوگوں نے پچھلے بیس سال کا عرصہ جس ذہنی اذیت اور کرب میں گزارا ہے،اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ہر دوماہ بعد انھیں عدالت میں حاضری لگا نا پڑتی تھی۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جن پولیس والوں نے انھیں جھوٹے مقدمات میں پھنسایا تھا، انھیں ہی ان کے کیس میں انوسٹی گیشن کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، جو کہ انصاف کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان تمام لوگوں نے اپنی زندگی کے جو بیش قیمت بیس سال زبردست ذہنی اذیتوں کے ساتھ گزارے ہیں، ان کی بھرپائی کون کرے گا۔ ظاہر ہے جب ان پر مقدمات قایم ہوئے تو ان میں سے کئی لوگ جوان تھے اور ان کی پوری عمر خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی جدوجہد میں گزر گئی۔جن لوگوں نے انھیں تمام تر بے گناہی کے باوجود جھوٹے مقدمات میں پھنساکر ان کی زندگیاں برباد کی ہیں، انھیں کیا سزا ملے گی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ان کی زندگی کے اس بیش قیمت عرصہ کی برباد ی کا کیامعاوضہ ملے گا؟ کیا ہمارے نظام میں جواب دہی کا کوئی سسٹم موجود ہے؟
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اس طرح بے گناہوں کو سنگین دفعات میں ماخوذ کرکے ان کی زندگیاں جہنم بنائی گئی ہیں۔ اس سے پہلے بھی طویل عدالتی لڑائی کے بعدکئی لوگ اسی طرح باعزت بری ہوئے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ملک میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ایک ساتھ ماخوذ کیا گیا۔ یعنی ایک سیمینار کے تما م ہی شرکاء کو ایک سراسر جھوٹے کیس میں پھنساکر ملک دشمنی کا ملزم گردانا گیا۔ظاہر ہے ان کی زندگی کے وہ سنہرے دن تو کبھی واپس نہیں آئیں گے جو انھوں نے ناقابل بیان ذہنی اذیتوں کے ساتھ گزارے ہیں اور نہ ہی ان پولیس والوں کو کوئی سزا ملے گی جنھوں نے ان تمام لوگوں کی زندگیاں برباد کیں، مگر ہاں ہمارے نظام کو اس بات پر غور ضرور کرنا چاہئے کہ اس نے پولیس کو جو اختیارات دئیے ہیں، وہ ان کا سراسر غلط استعمال آخر کب تک کرتی رہے گی اور کب تک سماج کے مظلوم طبقوں اور اقلیتوں کا جینا حرام کیا جاتا رہے گا۔آخر انصاف کی دیوی کب تک اپنی آنکھوں پر کالی پٹی باندھ کر یہ سب ظلم وستم سہتی رہے گی۔

اس دوران سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے جھوٹے مقدمات میں پھنسے لوگوں کو معاوضہ دلانے کے لیے گائڈ لائن بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپادھیائے کی طرف سے داخل کی گئی اس عرضی میں صوبوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں کے ساتھ ساتھ وزارت داخلہ،وزارت برائے قانون وانصاف اور لاء کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ ’غلط استغاثہ کے سبب لوگوں کو ہونے والا نقصان بہت بڑا ہے۔اس معاملہ میں مرکز کی بے عملی کے سبب دستور کی دفعہ21 میں حاصل شہریوں کی زندگی،آزادی اور احترام کے حق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ واضح رہے اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ نے30 نومبر 2017کو غلط استغاثہ کے متاثر ین کو راحت اور باز آبادکاری کے معاملے میں لاء کمیشن کو وسیع پیمانے پر غوروخوض کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گزشتہ ہفتہ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اس عرضی پر عدالت عظمیٰ کیا موقف اختیار کرتی ہے۔حالانکہ یہ عرضی بری کیے گئے مذکورہ122لوگوں سے متعلق نہیں ہے مگر اس معاملے میں عدالت کی رولنگ اہم نظیر ثابت ہوسکتی ہے اور اس سے پولیس کی من مانی پر روک لگ سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر