وجود

... loading ...

وجود
وجود

ویکسین پاسپورٹ کا اجرا

هفته 27 مارچ 2021 ویکسین پاسپورٹ کا اجرا

(مہمان کالم)

ساسکیہ پوپیسکو

اب تک دنیا بھر میں لوگوں کو کورونا ویکسین کی 448 ملین خوراکیں لگائی جا چکی ہیں اور کئی ممالک میں عوام کو جزوی طور پر اپنی نارمل زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ اسرائیل میں‘ جہاں نصف سے زائد آبادی کو ویکسین لگ چکی ہے‘ اب شہری سبز پاس دکھا سکتے ہیں جو اس امر کا ثبوت ہے کہ پاس کے حامل کو ویکسین لگ چکی ہے اور وہ کسی ریستوران، تھیٹر یا جم میں داخل ہو سکتا ہے۔ چین اور یورپی یونین‘ دونوں نے ویکسین کے لیے اپنے اپنے پاس جاری کیے ہیں۔ اگرچہ ویکسین کے سرٹیفکیٹ شہریوں کو اپنے ملک کے اندر بزنس کر نے کی اجازت بھی دیتے ہیں، حکومتوں کو مگر یہ قوی امید ہے کہ وہ انہیں عالمی سرحدوں پر اور سفر کے لیے بھی استعمال کر سکیں گی۔

اس وقت دنیا بھر میں بہت سے ممالک کو کورونا وائرس کی ویکسین کی سپلائی میں قلت کا سامنا ہے اور کئی جگہوں پر تو یہ دستیاب ہی نہیں ہے۔ امیر ممالک میں حکومتیں ویکسین پاسپورٹ کو پابندیاں ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں مگر اس کے لیے وہ ایک انتشار کے شکار سسٹم کا سہارا لینا چاہتی ہیں جس میں کووڈ کے مضر اثرات پھیلنے کا زیادہ خطرہ ہے۔ ایک طرف جہاں یورپ اور چین میں ویکسین پاسپورٹ تیار کیے جا رہے ہیں‘ ورلڈ اکنامک فورم ایک گروپ ’’کامنز پروجیکٹ‘‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جوکورونا کی ویکسین لگانے کے عمل کو دستاویز ی شکل دینے کا سسٹم تیار کرے گا۔ آئی بی ایم ایک ڈیجیٹل ہیلتھ پاس تیار کر رہا ہے اور انٹرنیشنل ایئر ایسوسی ایشن‘ جو ایئر لائن انڈسٹری کی ٹریڈ ایسوسی ایشن ہے‘ ایک ایسی ا سمارٹ فون ایپ تیار کرا رہی ہے جو مسافروں کو ٹیسٹنگ اور ویکسی نیشن کے حوالے سے معلومات فراہم کرے گی۔ دنیا بھر میں سفر کرنے کے لیے ویکسین پاسپورٹ کو لازمی قرار دینے سے کئی سنگین چیلنج پیدا ہو جائیں گے۔ بین الاقوامی قانون عالمی ممالک کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے ہاں وزٹ کرنے والوں سے اس بات کا ثبوت مانگ سکتے ہیں کہ انہیں زرد بخار جیسی بیماریوں کی ویکسین لگ چکی ہے مگر کورونا وائرس کی ویکسین بالکل نئی چیز ہے اور انہیں پوری دنیا میں استعمال کرنے کی ابھی اجازت بھی نہیں ملی۔ کوئی بھی ملک یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ صرف اسی ویکسین کو مستند تسلیم کرے گا جس کی اس ملک میں منظوری دی جا چکی ہے۔ چین پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ وہ صرف انہی لوگوں کو چین میں داخلے کی اجازت دے گا جنہوں نے چین کی تیار کردہ ویکسین لگوائی ہوئی ہو۔ اس وقت امریکا میں جو بھی ویکسین دستیاب ہے‘ ان میں سے ایک بھی چین میں تیار نہیں ہوئی۔ آکسفورڈ کی آسٹرازینکا اس وقت دنیا کے 86 ممالک میں استعمال کی جا رہی ہے مگر ابھی تک اسے امریکا میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں مل سکی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ویکسین کووڈ کے ان نئے ویرینٹس‘ جو اچانک منظر عام پر ابھر رہے ہیں‘ کے خلاف اتنی موثر نہ ہو۔

 

ویکسین پاسپورٹ سسٹم کو اس امر کی وضاحت کرنی چاہئے کہ کونسی ویکسین کو مستند تسلیم کیا جائے گا اور اس کے معیا ر کو بھی رونما ہونے والی تبدیلیوں کی روشنی میں اَپ گریڈ کیا جانا چاہئے۔ اس سسٹم کے تحت ان ممالک کے یکطرفہ اختیار کو بھی روکنا چاہئے کہ وہ جب چاہیں کسی بھی سرٹیفکیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ایک عالمی اتفاق رائے کے بغیر اس بات کا خدشہ ہے کہ جیو پولیٹکل تقسیم کی وجہ سے ہم کسی ایسی صورتِ حال میں نہ پھنس جائیں جس سے کووڈ کا دورانیہ مزید بڑھ جائے۔ ویکسین پاسپورٹ‘ جو کئی ممالک کے شہریوںکو عالمی سفر کے اہل بنا دیتا ہے جبکہ کروڑوں افراد ابھی ویکسین لگنے کے منتظر ہیں‘ دنیا میں عدم مساوات پھیلانے کا باعث بنے گا۔ امریکانے ابھی تک اپنے کسی ویکسین پاسپورٹ کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا۔ جن امریکی شہریوں کو بھی ویکسین لگتی ہے انہیں ایک کارڈ دے دیا جاتا ہے جس پر ویکسین لگنے کی تاریخ اور ویکسین کا نام لکھا ہوتا ہے مگر یہ کارڈز بطور پاس استعمال نہیں کیے جا رہے اور نہ ہی ان میں کوئی جعلسازی کی جا سکتی ہے۔

 

امریکی پلان آنے کے بعد کئی طرح کے نئے مسائل جنم لیں گے۔ پہلی بات تو یہ کہ امریکا میں متعارف کرائی جانے والی ویکسین نے عدم مساوات کی خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ سیاہ فام اور لاطینی نسل کے لوگوں کو سفید فاموں کے مقابلے میں کہیں سستی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہرکوئی ویکسین نہیں لگوا سکتا۔ بچوں کے لیے ابھی تک کوئی ویکسین منظور نہیں کی گئی اور حمل کے دوران ویکسین کی سیفٹی کے بارے میں ڈیٹا بہت محدود ہے۔ ویکسین لگوانے والوں کو جو پاس دیے گئے ہیں‘ ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جن لوگوںکو ابھی تک ویکسین نہیں لگ سکی انہیں ملازمت، سروسز یا تعلیم سے انکار تو نہیں کیا جائے گا۔ کسی آجر یا بزنس مین کی طرف سے ویکسی نیشن کا ثبوت مانگنے سے لوگوںکے لیے کئی طرح کی اخلاقی اور قانونی مشکلات پیدا ہوں گی اور یہ بھی جاننا ہوگا کہ یہ ڈیٹا کس طرح جمع اور تصدیق کیا جا رہا ہے۔ اسے کس طرح کا تحفظ حاصل ہے۔ ایسے بزنس‘ جن میں گاہک اور ملازمین دونوں کو لازمی ویکسین لگوانی چاہئے‘ اگر ان کے پا س ایسے سسٹم موجود ہونے چاہئیں جن کی مدد سے ویکسین پاسپورٹ کا از سر نو جائزہ بھی لیا جا سکے تو ایسے سسٹم لگانے کے لیے پہلے سے متاثرہ بزنس پر بہت زیادہ مالی بوجھ پڑ جائے گا۔ سکول اور ہیلتھ کیئر فراہم کرنے والے ادارے پہلے سے ہی کسی ویکسین کی تلاش میں تھے مگر بہت سی ایسی کمپنیاں بھی ہیں جنہوں نے آج تک کبھی ویکسین لگوانے کو ضروری یا اہم نہیں سمجھا۔ اگر ویکسین پاسپورٹ کسی ا سمارٹ فون ایپ کی شکل میں آگئے تو بہت سے ایسے افراد بھی ہوں گے جو ان ایپس کو استعمال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہوں گے چونکہ کسی ویکسین پاسپورٹ میں ہر شہری کا پرسنل ہیلتھ ڈیٹا موجود ہو گا اگر اس انفارمیشن کو تحفظ دینے میں ناکامی ہو گئی تو اس سے فراڈ، امتیازی سلوک اور نجی زندگی کی خلاف ورزی ہونے کا رسک موجود رہے گا۔دنیا بھر کے انسان اس بات کے لیے بے چین ہیں کہ کسی طرح کووڈ کا خاتمہ ہو جائے اور جن لوگوں کو کووڈ کی ویکسین لگ چکی ہے وہ بھی اس بات کے لیے بے قرار ہیں کہ وہ ویکسین لگوانے کے بعد ملنے والی آزادی کا بھرپور استعمال کر سکیں مگر ویکسین پاسپورٹ کے اجرا کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ اقدام عالمی سطح پر مربوط ہو اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہئے کہ دنیا بھر میں ہر شہری کو منصفانہ طور پر ویکسین تک رسائی حاصل ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر