وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان، خلاف ضابطہ تقرر و تبادلے

بدھ 24 مارچ 2021 بلوچستان، خلاف ضابطہ تقرر و تبادلے

بلوچستان کے اندر سول بیورو کریسی یا دوسرے سول سرکاری ملازمین و حکام دو دھاری تلوار کے نیچے فرائض نبھارہے ہیں۔ حکومتیں ، وزراء شاہی ، اراکین اسمبلی ، دوسرے طاقتور سیاستدان حاوی تو تھے ہی مگر اب ان پر دوسرے پہلوئوں سے بھی بالادستی قائم ہوچکی ہے۔ اس سبب اْمور میں تنزلی کی صورتحال بنتی جارہی ہے اور بگاڑ ہمہ پہلو پھیلتا جارہا ہے۔ عتاب کا موضوع ان دنوں ایک بار پھر زبان زد عام بنا ہے جب ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر فریدہ ترین کا ایک ماہ کے مختصر دورانیے میں چار بار تبادلہ کیا گیا ہے۔ان ہی دنوں 18 مارچ کوبلوچستان ہائیکورٹ نے سیکریٹری ثقافت و سیاحت اصغر حریفال کے قبل از وقت تبادلے کے آرڈرز منسوخ کرد یے ہیں، اصغر حریفال کی آئینی درخواست کی چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل پر مبنی بنچ نے سماعت کی۔ اصغر حریفال کے وکیل رئوف عطا ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کا غیر قانونی احکامات نہ ماننے پر قبل از وقت تبادلہ کیا گیا۔ انہیں بطور سیکریٹری خوراک چھ ماہ کیلئے غیر قانونی طور پر معطل رکھا گیا اور ماہ بعد سیکریٹری ثقافت و سیاحت تعیناتی کے محض چند ماہ بعد ہٹا کر او ایس ڈی بنائے گئے، عدالت عالیہ بلوچستان نے آئینی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی ہے، ساتھ ہی تبادلے کا حکم بھی معطل کردیا۔بلوچستان سول سروس گروپ کی گریڈ 17کی آفیسر فریدہ ترین کے ساتھ ہوا یہ کہ اکتوبر2020ء کو چیف سیکریٹری دفتر مین بطور قائم مقام ڈپٹی سیکریٹری اسٹاف تعینات کردی گئی تھیں، ان کی پچھلے ماہ 11فروری کوبطور اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ سٹی تعیناتی ہوئی چناںچہ عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی روز نوٹیفکیشن جاری ہوا اور ان کا تبادلہ منسوخ کردیاگیا۔پانچ یوم بعد انہیں محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں سیکشن آفیسر (شعبہ سروسزٹو) تعینات کیا گیا اور پھر نو دن بعد یعنی25فروری کو اسی محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں سیکشن آفیسر (شعبہ سروسزون) میں پوسٹ کیا۔ اور16مارچ کو چوتھی مرتبہ ٹرانسفر کرکے محکمہ صنعت میں سیکشن آفیسر کا چارج دیا گیا۔

اگرچہ فریدہ ترین کی بار بار ٹرانسفر پوسٹنگ کا معاملہ ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پراٹھایا گیا۔ سول سیکرٹریٹ افسران کی تنظیم سے لیکر دوسری ملازم تنظیموں نے سرکاری اعلیٰ و ادنی ملازمین کے ساتھ ہونے والے سلوک پر نقد و برہمی ظاہر کی ہے۔ مگر ستم یہ ہے کہ سول سرکاری حکام حکومتوں، وزرائ، اراکین اسمبلی اور طاقتور سیاسی و قبائلی شخصیات کے عتاب میں ہیں۔سول سیکریٹریٹ کے اندر اکثر و بیشتر وزراء کے کہنے پر ٹرانسفر پوسٹنگ ہوتی ہے۔ ان سے من مانیاں کرانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مرضی کے برعکس آفیسر کا تبادلہ کرادیا جاتا ہے۔ ڈپٹی کمشنروں کے تبادلوں کا رجحان ہی یہ ہے کہ ان کے تقرر و تبادلے حکومت ،اس کی کابینہ اور حکومتی اراکین اسمبلی کی منشا پر ہے۔ ڈپٹی کمشنر بیچارے تو فرنٹیئر کور کے بھی زیر دست دکھائی دیتے ہیں۔ قومی احتساب بیورو الگ سے بیورو کریسی و سرکاری محکموں پر اثر انداز ہے۔ حکومت اور مجاز اتھارٹی سے ہٹ کر جس کی آئین اور قانون میں سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے یہ آفسران رپورٹ دینے اور احکام کی تعمیل کے پابند بنائے جاچکے ہیں۔ خوف اور زیر دستی کے اس ماحول میںکہ اگر ملازم ماورائے قانون احکامات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور قواعد و ضوابط کی پاسداری کرتے ہیں تو انہیں مشکلات میں جکڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ صوبے میں ایک مختصر وقفے کے بعد تبادلوں کی روایت بنائی جاچکی ہے۔اہم پوسٹوں پر جونئیرز تعینات کرد یے جاتے ہیں۔ سینئر و تجربہ کار افسران کھڈے لائن ہوتے ہیں۔قواعد کے مطابق سیکشن آفسر، انڈر سیکرٹری اور ڈویڑنل کمشنروں کی تعیناتی تین سال کے عرصے کے لیے ہوتی ہے، الہ اگرکوئی سنگین الزام یا اختیارات کا غلط استعمال یا دوسرے سنگین الزامات نہ ہوں۔ تبادلہ کیا جانا ہو تو اس کے لئے ایس اینڈ جی اے ڈی سے ایڈوائس لی جاتی ہے۔ مگر یہاںتقرریاں و تبادلے حکومت بلوچستان کے سروسز رولز 2012ء کے برعکس ہونا ایک عام مشاہدہ ہے۔ عدالت عظمیٰ کا اس تناظر میں فیصلہ بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عمر بابر سیکریٹری محکمہ مواصلات و تعمیرات تھے ان کا قبل از وقت تبادلہ کیا گیا تو اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ،سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا اور اب اصغر حریفال کے کیس میں بلوچستان ہائی کورٹ نے سیکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی کو ذاتی طور پر28 اپریل کو طلب کیا ہے۔ بلوچستان میں سول بیورو کریسی سے حکومت وزراء اور سیاسی دبائو اور سیاسی اشرافیہ کی بالادستی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یقینا اپنے تحفظ کے لیے سول بیورو کریسی کو مربوط ہو نا چاہیے۔ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کریں۔ تاکہ مداخلت اور مروجہ چلن کے دروازے بند ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر