وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاک بھارت امن کے لیے کوششیں

بدھ 24 مارچ 2021 پاک بھارت امن کے لیے کوششیں

کشمیر تقسیم ِہند کا ایساحل طلب مسلہ ہے جسے کشمیریوں کی منشا کے مطابق حل کرنے کی اقوامِ متحدہ نے قراردیں منظور کر رکھی ہیںجنھیں پاکستان اور بھارت نے تسلیم کررکھاہے دونوں ممالک بات چیت سے اِس مسلہ کا حل تلاش کرنے پر بھی اتفاق کر تے ہیں لیکن بھارت کی طرف سے پانچ اگست2019 کوکشمیر کی خصوصی حیثیت کے یکطرفہ خاتمے کے اقدام نے جنوبی ایشیا کی دوجوہری طاقتوںکوجنگ کے دہانے پر پہنچا دیا کیونکہ یہ اقدام مسلہ کشمیر کے ایک فریق کے طورپر پاکستان کے لیے قطعی طور پر ناقابلِ قبول تھا بطوراحتجاج پاکستان نے نہ صرف دوطرفہ تجارت روک دی بلکہ اپنا سفیر بلانے کے ساتھ بھارتی سفیر کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم دی دیا یہ بہت ہی غیر معمولی اقدام تھا کیونکہ سفیروں کی عدم موجودگی سے دونوں ممالک میں اعلٰی سطح پر روابط ہی ختم ہوگئے دوجوہری ممالک میں یہ کشیدگی الارمنگ صورتحال لیکن عالمی برادری نے پاکستان کی کمزور معیشت کے تناظر میں تشویشناک صورتحال پرتوجہ نہ دی اوربھارت کی تسلیم طرف سے تسلیم شدہ معاہدوں سے انحراف کے باوجود خاموشی اختیار کرلی شاید اُس کا خیال تھا کہ پاکستان ذیادہ دیر سرحدوں پردبائو برداشت نہیں کر سکے گا اور بھارتی اقدام کے بعدکی صورتحال قبول کرنے پر رضا مند ہوجائے گا لیکن عمران خان کی کمزور حکومت کے لیے نرمی اختیار کرنا سیاسی خودکشی کا باعث بن سکتی تھی اسی بنا پر سرحدی جھڑپوں کے باوجود پاکستان نے ثابت قدمی کا مظاہر ہ کیا ابھی گزشتہ دنوں عمران خان نے بھارت سے روابط بہتر بنانے کی بات کی جس کی عسکری قیادت نے بھی تائید کردی لیکن بھارت اگر اپنے یکطرفہ فیصلے پر نظر ثانی نہیں کرتا تو پاکستانی حکومت رضامند ہوبھی جائے توبھی عوام کا غم و غصہ کم نہیں ہو سکتاکیونکہ پاکستانی مزہبی طورپر کشیریوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اسی لیے پاکستانیوں کی جذباتی وابستگی اور بھارت میں فروغ پاتی انتہاپسندی کے باوجود دونوں ممالک عوامی خواہشات کے برعکس کسی فارمولے پر اتفاق کر بھی لیتے ہیں تو پائیدارامن کی منزل کا ملنا محال ہی رہے گا۔

 

موجودہ صدی جنگوں کی نہیں تجارت اور ایجادات کی ہے پھربھی بڑے ممالک اسلحے کی دوڑ میں شریک ہیں اور دیگر ایجادات کے ساتھ تباہ کُن ہتھیاروں کی تیاری میںمصروف ہیں جس کی وجہ سے جنگوں کا امکان بحرحل رَد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہتھیارجنگوں کی خوراک ہوتے ہیں اگر جنوبی ایشیا میں چین کو ایک طرف رکھ کر جائزہ لیں تو بھی پاک بھارت ہتھیاروں پر بے دریغ سرمایہ خرچ کر رہے ہیں بھارت ہر سال اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدنے کے ساتھ مقامی طور پر تیارکرنے کی ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے وہ میزائل کلب کا ممبر بھی ہے جنوبی ایشیا کے اِس بڑے ملک کے جارحانہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہیںاسی بناپر تمام ہمسائے خائف ہیں لیکن پاکستان کے سواکوئی ایسا ہمسایہ نہیں جو مقابلے کی سکت رکھتا ہو مگر عالمی برادری کو اِس کے عزائم سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ چین کے مقابلے کے لیے امریکہ کو خطے میں طاقتور ممالک کی ضرورت ہے جس کے لیے بھارت ہر لحاظ سے موزوں ہے وہ چین سے نفرت بھی کرتا ہے اور معاندانہ پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے اسی بناپر امریکا کا منظورِ نظر ہے لیکن چین کے حوالے سے امریکی ضروریات پوری کرنے کی استطاعت سے محروم ہے جس کا دنیاگزشتہ کئی ماہ کے دوران ایک سے زائد بارمشاہدہ کر چکی ہے ڈوکلام سے لیکر لداخ تک بھارتی فوجیوں کی پٹائی کرتے ہوئے چین نے اپنی عسکری طاقت کا خوب مظاہر ہ کیا ہے پھر بھی امریکی توقعات برقرار ہیں بلکہ چین کے مقابلے پر دیگر ایشیائی ممالک کا اتحاد بنا رہاہے لیکن جنوبی ایشیا میں بھارت کو فروغ پذیرچینی رسوخ کے خاتمے کے لیے یکسوئی درکار ہے جو پاکستان سے صورتحال نارمل کیے بنا ممکن نہیں ۔

بھارت پر ہتھیاروں کے حوالے سے نوازشات کے باوجود پاکستان کو عالمی برادری کی طرف سے مختلف نوعیت کی پابندی کا سامنا ہے ابھی حال ہی میں ترکی سے ہیلی کاپڑخریدنے کا معاہدہ امریکی مخالفت سے ختم ہو ا کیونکہ امریکہ انجن فراہم کر نے سے انکار ہوگیاتھا لیکن امریکا ،اسرائیل ،فرانس،روس،برطانیا سے بھارت کو اسلحہ خرید نے کے معاہدے کرنے میں کوئی ممانعت نہیں یہ دوہرا معیار کسی طور غیر جانبداری کے زمرے میں نہیں آتا مگر پاکستان نے نئی صورتحال میں بھی اپنی بقاوتحفظ کے راستے تلاش کر لیے ہیں طیاروں ،ٹینکوںاور گولہ بارود کی تیاری کے ساتھ میزائل سازی میں مصروف ہے علاوہ ازیں خطے میں چین کا حلیف بھی ہے یہ حکمتِ عملی امریکی مفادات کے منافی ہے وہ افغانستان سے لیکر تصفیہ طلب مسائل میں پاکستان سے تعاون تو حاصل کر تا ہے لیکن نوازشات کے لیے بھارت کوترجیح دیتا ہے حالیہ امریکی قیادت نے انسانی حقوق کے حوالے سے نکتہ نظر کچھ تبدیل کیا ہے اور بھارت کو فروغ پاتے انتہا پسندانہ جذبات قابو کرنے اور مذہبی رواداری کی ہدایت کی ہے لیکن چین کی وجہ سے امریکی لب و لہجہ نرم ہے عالمی وعدوں سے انحراف اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے باجود امریکی چاہتے ہیں کہ پاکستان نئی صورتحال قبول کر لے اور بھارت سے تجارت بحال کرنے کے ساتھ سفیروں کے تقررپر رضامند ہوجائے دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر لانے کے لیے درپردہ کوششیں جاری ہیں ابتدامیںدونوں ممالک میں سیزفائر کرایا گیاہے سفیروں کے تقرر کے بعد کشمیر پر مذاکرات کرانے کا چکمہ دیا جا سکتا ہے اب یہ پاکستانی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کتنی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتی اور قومی مفاد کا تحفظ یقینی بناتی ہے اسرائیل و فلسطین میں تصفیے کے لیے اوسلو معاہدہ سے مشرقِ وسطٰی میں تو امن قائم نہیں ہو سکا اب پاک بھارت حقیقی مسائل کے خاتمے کی بجائے تعلقات استوار کرنے پر ہی توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے تو تعلقات کی بہتری سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اگر بھارت کشمیر میں مسلم اکثریت ختم کرنے کے منصوبے ختم نہیں کرتا تو پاکستان بھی فلسطینیوں کی طرح محض احتجاج کرنے کے سواکچھ نہیں کر سکے گا کیونکہ عالمی ضامنوں کا پاکستان کے ساتھ دینے کا امکان کم ہی ہے اِس لیے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ اب تک کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ بھارت عالمی دبائو کو کم کرنے کے لیے مزاکرات کی میز پر آتا ہے لیکن کشمیر سمیت تصفیہ طل مسائل کے پائیدار حل پر آمادہ نہیں ہوتا۔

عرب امارات نے بھارت میں خطیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے وہ امریکہ کا مشرقِ وسطٰی میں تزویراتی حلیف ہے اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ اور امریکی مفادات کے لیے پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کے لیے درپردہ کوشاں ہے لیکن چین سے مقابلے کے لیے بھارت کو دیگر اطراف سے محفوظ بنانے کی کاوشیں تب تک حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک کشمیر کا مسلہ کشمیریوں کی خواہشات وامنگوں کے مطابق حل نہیں ہوجاتا بھارت کی موجودہ قیادت خود بھی انتہا پسند اور جنونی ہے جو مسلم خون بہانے میں بہت دلچسپی رکھتی ہے مساجد گرانے اور مسلمانوں کی زندگی اجیران بنانے کے علاوہ اُسے کچھ کرنا نہیں آتااپنے ملک میں کروڑوں لوگوں کی بنیادی ضروریات سے محرومی کے باوجود افغانستان میں بھارتی کردار کی کوئی سمجھ نہیں آتی پھر بھی امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں بھارتی کردار قبول کرنے پر رضامند کیا جائے لیکن دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے امریکایہ بھول جاتا ہے کہ افغانستان میں بھارت کوکرداردینے سے خطے میں امن کی بجائے دہشت گردی کو فروغ ملے گا اِس لیے اگرامریکاکو پاک بھارت امن سے دلچسپی ہے تو اُسے چین سے مخاصمت کو بالائے طاق رکھ کر خطے کے امن کے لیے مسلہ کشمیر حل کرنے کے لیے اخلاص سے کام لینا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر