وجود

... loading ...

وجود
وجود

میری ویکسین کہانی

پیر 15 مارچ 2021 میری ویکسین کہانی

(مہمان کالم)

راڈ نارڈ لینڈ

مجھے لوگوں کے سامنے آنسو بہانے کی عادت نہیں ہے مگر 16 جنوری کو ہفتے کا دن کچھ مختلف تھا۔ ایسا اس وقت ہوا جب میں کوئینز میں کووڈ کی ویکسین لگوا رہا تھا۔ ایک فزیشن‘ جنہوں نے اپنا تعارف ڈاکٹر برک کہہ کرکرایا تھا‘ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں خیریت سے ہوں؟ میں نے انہیں بتایا کہ اس وقت میں جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ آج یہاں بہت سے لوگ رو رہے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے پچاس سالوں میں زیادہ عرصہ جنگی نامہ نگار کے طور پر گزارا ہے مگر جب دنیا میں کووڈ پھیلا تو میں نے کورونا کو اپنی اصلی شکل میں دیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ دنیا بھر کے ممالک ایک میدانِ جنگ میں بدل گئے تھے۔ میرے بہت سے جاننے والے کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میں نے کمبوڈیا کی جنگ سے لے کرآج تک جتنی بھی جنگیں کور کی ہیں‘ کورونا کے خلاف جنگ ان سب سے مختلف تھی۔

دوسری جنگوں میں مَیں کوریج کے لیے جاتا تھا اور جب چاہے گھر واپس آ جاتا تھا مگر کووڈ کی کوریج میں یہ آپشن نہیں ہے۔ وائرس کے خلاف فرنٹ لائنز پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہم ہر جگہ موجود ہیں۔ تو یہ کہنا چاہئے کہ مجھے گھر نہیں چھوڑنا پڑا۔ میں کسی جنگ کی کوریج کے دوران گھر کے لیے اتنا اداس نہیں ہوا تھا جتنا کہ میں اس وقت محسوس کر رہا ہوں۔ ایک رپورٹر جس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ دور دراز ساحلوں پرگزارا ہو مگر مجھے پچھلا سال بہت سخت اور تکلیف دہ محسوس ہوا۔ میں گھر رہ کر بھی بیرونِ ملک تھا اور مجھے پہلے کبھی اتنی تنہائی اور بیگانگی محسوس نہیں ہوئی تھی۔

میری آزمائشوں کی کہانی بڑی جانی پہچانی ہے، کئی ہفتوں کا قرنطینہ، کئی شادیوں اور جنازے‘ جن میں شرکت نہ کر سکا، لیبر ڈے پر فیملی باربی کیو نہ ہو سکا۔ گریجویشن کی تقریبات اور سالگرہ پارٹیاں‘ سب بھول گئیں، میں اپنے تین بچوں سے نہ مل سکا جو یورپ میں رہتے ہیں۔ منسوخ ہونے والے کرسمس پر مجھے بڑی تکلیف ہوئی۔ ہمارے فیملی ایونٹ کا انتظام میری بہن کیا کرتی تھی۔ اس سال مجھے دعوت نہیں دی گئی تھی جس پر میں بڑا شکستہ دل تھا مگر پھر مجھے احساس ہوا کہ اگر مجھے مدعو کیا بھی جاتا تو میں اس میں نہ جا سکتا۔ اس کے خاندان کے چھ لوگوں نے اس کے ساتھ زوم یا فیس ٹائم پر رابطہ کیا۔ اگر ہم افسردہ ہوئے تو ہم محفوظ بھی تو رہے۔بلامعاوضہ خدمات انجام دینے والے رضاکاروں کو ویکسین سائٹ پر بھاگ دوڑکرتے دیکھنا ایک دل کو چھو لینے والا منظر تھا جہاں میری پہلی ویکسین ڈوز لگنا تھی‘ رضاکاروں نے ڈے گلو کی واسکٹس پہن رکھی تھیں۔ ہر ایک پر لکھا تھا ’’میں سپینش بولتا ہوں۔ میں چینی بولتا ہوں، میں اردو بولتا ہوں‘‘۔ زبانوں کی یہ فہرست بڑی طویل تھی، آخر ہم کوئینز میں رہتے ہیں اور نیویارک میں کئی طرح کی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس وائرس کی کوئی سرحدیں نہیں ہیں اور اس نے کسی کمیونٹی کو نہیں بخشا۔ رضاکار پختہ عزم تھے۔

آمد سے لے کر مجھے ویکسین لگنے میں صرف پندرہ منٹ لگے تھے۔ جب ویکسین لگوانے والوں کی اہلیت کو 65 سال تک بڑھایا گیا تو میں بھی سب سے پہلے ویکسین لگوانے والے نیو یارکرز میں شامل ہو گیا۔ شہریوں کو ویکسین اس قدر تیزی سے فراہم کی جا رہی ہے کہ نیویارک کے میئر بل ڈی بلاسیو کو یہ وارننگ دینا پڑی کہ مجھے ڈر ہے کہ ویکسین ڈوزز کا پہلا بیچ جلد ختم ہو جائے گا۔ میرے ویکسینیٹر ڈینس ماہن نے بتایا ’’بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ پہلے دن تو میلے جیسا ماحول تھا۔ لوگ بہت خوش تھے۔ سائنس کا کارنامہ حیران کن ہے‘‘۔ مس ماہن ویسے تو ایک ا سکول نرس ہیں‘ جو بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، روزانہ تیرہ گھنٹے تک بزرگ شہریوں کو ویکسین لگانا ان کی ڈیوٹی نہیں ہے۔

ویکسین لگانے کے بعد مجھے ملحقہ جگہ منتقل کر دیا گیا جو نارمل حالات میں ایک ا سکول کا کیفے ٹیریا تھا۔ مجھے وہاں پندرہ منٹ گزارنا تھے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ مجھے کوئی الرجی یا کوئی اور مسئلہ تو نہیں ہوا۔ شاید ہی کسی شخص کو کوئی شکایت ہوئی ہو۔ جب میں انتظار کر رہا تھا تو میری ایک دوست نے نیویارک ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر میرے لیے ویکسین کی دوسری ڈوز کی بکنگ کرا لی۔ اس نے دیکھا کہ ویلنٹائنز ڈے پر گنجائش موجود تھی۔ یہ فیملی کے لیے ایک اچھا دن تھا کہ اس دن چھٹی تھی اور ہم زبردست طریقے سے جشن منا سکتے تھے۔ میں جانتا تھا کہ میں پہلے ہی کرسمس اپنی فیملی اور اپنے بچوں کے ہمراہ اپنی بہن کے گھر منانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ جس دن ویلنٹائنز ڈے آیا تو میں اپنی دوسری ڈوز کے لیے گیا اور مجھے ایک سکون کا احساس ہوا مگر اس مرتبہ میری آنکھیں خشک تھیں۔

اس دن کو نیویارک سٹی کی ایک انیس سال ٹیچر کے نام کر دیا گیا تھا۔ وہ جیکسن ہائٹس کی رہنے والی یسینا گارشیا تھی۔ اس کا علاقہ کووڈ سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔ جب کووڈ پھیلنا شروع ہوا تو مس گارشیا جو پڑھاتی ہیں‘ نے فاصلاتی ٹیچنگ شروع کر دی۔ وہ انگلش بطور سیکنڈ لینگویج پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے دوستوں کو موت کے منہ میں جاتے دیکھا کیونکہ حکومت نے سکولوں کو بند کرنے میں تاخیر کر دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اب میں اپنے بوڑھے والدین سے مل سکتی ہوں جن کی عمریں اسّی سال کے لگ بھگ ہیں اور اب ان کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مس گارشیا نے کہا کہ جب ویکسین آئی تو میں سائنس کی بڑی شکر گزار تھی۔ اس نے ثابت کر دیا کہ سائنس ہی ایسی چیز ہے جس کا جشن منایا جانا چاہئے اور اسے ہمارے سابق صدر ٹرمپ اور ان جیسے اقتدار کے دوسرے حریصوں سے بچایا جا نا چاہئے جو آج بھی اپنے فائدے کے لیے اسے مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ویکسین لگوانے کے بعد وہاں سے روانہ ہونا ایسے ہی تھا جیسے کوئی گھر وں میں لڑی جانے والی ایک بڑی جنگ میں فتح اور کامرانی سے سرفراز ہو کر جا رہا ہو۔ یہ ایک فتح کا دن تھا جس کی میں بطور رپورٹر کوریج بھی کر رہا تھا اور اس کا ایک مرکزی کردار بھی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر