وجود

... loading ...

وجود
وجود

میانمار کی سیاسی صورتحال

منگل 09 فروری 2021 میانمار کی سیاسی صورتحال

(مہمان کالم)

تھان منٹ یو

میانمار کو ایک بار پھر جمہوریت کی ضرورت ہے۔آزادانہ اور منصفانہ الیکشن اور پھر اس کے نتائج کا احترام بھی ضروری ہے۔یہ سارا سفر اس سوسائٹی کو درپیش ہے جہاں دہائیوں سے آمریت مسلط ہے ‘عالمی تنہائی اور خونریز جھگڑے ہیں ‘اسے نسلی اور مذہبی امتیازی سلوک کا سامنا ہے ‘شدید غربت اور معاشی ناانصافی ہے۔اس سیاسی تبدیلی پر محدود فوکس کا مطلب ہوگا کہ اس ملک کے چون ملین لوگوں پر فوج کا تسلط برقرار رہے۔سوموار کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی سمیت درجنوں سیاسی شخصیات کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اب آرمی کمانڈر انچیف کی سربراہی میں ایک نئی حکومت کام کر رہی ہے۔سب سے بڑے شہر ینگون اور دیگر مقامات پر احتجاج کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے جس کے جلد ہی پرتشدد کارروائیوں میں تبدیل ہونے کا امکان ہے۔ایسا کیوں ہو رہا ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔

میانمار کی گزشتہ تیس برسوں کی سیاست دراصل فوج او ر نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سربراہ آنگ سان سوچی میں چل رہی محاذ آرائی ہے۔2010ء میں فوج نے اپنی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں ایک نیا آئین متعارف کرایا تھا۔ایک ایسا آئین جس میں فوج کو بالادستی حاصل ہے مگر ا س کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے ملکی امور چلانے کے لیے آنگ سان سوچی اور پارلیمنٹ کو بھی تھوڑے بہت اختیار حاصل ہوئے۔فوجی قیادت کا خیال تھا کہ سسٹم آنگ سان سوچی کو اپنے کنٹرول میں رکھے گی‘ مگر اس نے عوام میں اس کی سیاسی مقبولیت کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے۔گزشتہ پانچ سال کے دوران فوج اور آنگ سان سوچی میں ایک طرح سے اقتدار کی شراکت قائم تھی۔آنگ سان سوچی اور فوجی جنرلز دونوں ہی قدامت پسندانہ‘ نسل پرستانہ قوم پرستی کے نظریات کے حامل ہیں‘مگر آنگ سان سوچی نے اختیارات رفتہ رفتہ اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور ایسی آئینی تبدیلی کے لیے دبائو ڈالنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں فوج ایک منتخب حکومت کی ماتحتی میں فرائض انجام دے جو فوج کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔دونوں کے تعلقات کشیدہ ہوتے گئے جس کا نتیجہ گزشتہ ہفتے کی فوجی بغاوت کی صورت میں سامنے آیا۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آگے کیا ہوگا۔فوج کا کہنا ہے کہ وہ ایک سال کے اندر اندر ملک میں الیکشن کروائے گی۔اگرچہ آئین کے مطابق فوج کو پارلیمنٹ میں پچیس فیصد نشستیں حاصل ہیں مگر اگلے الیکشن پھر سے آنگ سان سوچی کو زبردست فتح دلائیں گے۔ممکن ہے فوج انہیں سائڈلائن کرنے کے لیے کوئی اور حربہ استعمال کرے‘ مگر یہ بات ان کے لاکھوں سیاسی پیروکاروں کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہوگی۔

صورتحال کچھ بھی ہو ملک میں سیاسی تعطل جاری رہنے کا امکان ہے۔مگر میانمار کسی قسم کے سیاسی تعطل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔جب سے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش ہجرت کرکے جانا پڑا ہے تب سے ان کی حالت ِزار میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ان پر ظلم اور تشدد کرنے والے کسی گروہ کا احتساب نہیں ہوا اور ملک میں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے تشدد اور ظلم میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ میانمار کے انہی علاقوں میں گزشتہ دو سال سے سرکاری فوج اور مقامی شورش پسندوں ‘ جن کا تعلق راکھائن آرمی سے ہے‘ کے درمیان جنگ جاری ہے (یہ لوگ لوگ ایک بدھ مت راکھائن اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔)اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر دیگر جگہوں پر جا کر پناہ لینا پڑی ہے‘ جبکہ ملک کے مشرقی پہاڑی علاقے میں خاص طور پر چین کی سرحد کے ساتھ واقع علاقوں میں درجنوں غیر ریاستی عناصر پر مشتمل گروپ سرکاری فوج کے خلاف بر سر پیکار ہیں(ان میں سب سے بڑا گروپ پچیس ہزار مسلح افراد پر مشتمل ہے)۔یہ سب لوگ یہاں بسنے والی اقلیتی کمیونٹیز کی حفاظت کی جنگ لڑرہے ہیں۔کئی گروپ یہاں کی انٹرنیشنل آئس منشیات انڈسٹری سے بھی منسلک ہیں جو سالانہ ساٹھ ارب ڈالرز کی تجارت کرتی ہے۔

میانمار ایشیا کا غریب ترین ملک بھی ہے جہاں معاشی ناانصافی اپنے عروج پر ہے۔اس کی ساری معیشت کا انحصار روز مرہ استعمال کی اشیا اور غیر ہنر مند افرادی قوت پر ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں نے پہلے ہی لاکھوں افراد کو اپنے گھر چھوڑنے پرمجبور کر دیا ہے۔ آنگ سان سوچی کی حکومت نے کورونا وائرس جیسی مہلک وبا کے دوران زبر دست حکمت عملی کے ذریعے بڑی حد تک نقصان کو کم سے کم سطح پررکھا۔کووڈ کے دوران میانمار کوشدید معاشی تباہی کا سامنا کرناپڑا ہے۔جنوری 2020ء میں دو ڈالر روزانہ کمانے والے افراد کی تعداد جو سولہ فیصد تھی ستمبر 2020ء میں یہ تعداد بڑھ کر 63فیصدتک جا پہنچی ہے۔ان میں سے ایک تہائی کی کوئی آمدنی نہیں ہے۔مسلح شورش اور معاشی ناانصافی کا مطلب ہے کہ میانمار میں لاکھوں افراد انتہائی خوفناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبو ر ہیں۔یہاں جو تھوڑی بہت سیاسی آزادی اور معاشی ترقی نظر آتی ہے وہ فوج اور آنگ سان سوچی کی حکومت کے درمیان پائے جانے والے تعاون کی مرہون منت ہے ‘جنہوں نے مل کر حکومت چلانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگرلگتا ہے کہ اب یہ سلسلہ بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام زیر حراست سیاسی قیدیوں کو فوری طور پرجیلوں سے رہا کیا جائے اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔تمام عالمی حکومتوںکو چاہئے کہ میانمار کی آمرانہ حکومت کے خلاف ایک مشترکہ موقف اپنائیں تاہم انہیں اس کے خلاف کسی قسم کی معاشی پابندیاں لگانے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ ان پابندیوں سے معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑے میانمار کے عوام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ا س بحران کی کیفیت میں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ میانمار کو درپیش چیلنجز کا سنجیدگی سے ادراک کیا جائے او ریہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ مختلف محاذوں پر پیش رفت کے بغیر اسے جمہوریت کی شاہراہ پر دوبارہ گامزن کرنا تقریباًناممکن ہوگا۔اس وقت میانمار میں نسلی امتیاز اور مسلح کشیدگی اپنے عروج پرہے۔ملک معاشی ناانصافی اور پسماندگی کا شکار ہے۔ اس وقت بیرونی دنیا میانمار کی صرف اسی طرح مدد کر سکتی ہے کہ غربت کی چکی میں پسے عوام کی زندگی اور روزگار کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ایسا تبھی ممکن ہو سکتا ہے اگر ہم میانمار میں سماجی‘ معاشی اور سیاسی تبدیلی لانے کے لیے ایک وسیع تر تناظر پر مبنی حکمت عملی کو پیش نظر رکھتے ہوئے سنجیدہ اقدامات کریں۔ایک غربت اور معاشی دلدل میں پھنسے ہوئے ملک میں‘جو ایک مسلح جنگ کی لپیٹ میں بھی ہے‘ افلاس کا نتیجہ سوائے جمہوریت کے خاتمے کے کچھ اور نہیں نکل سکتا۔اب مقصد وہاں ایک ہائبرڈ قسم کے ا?ئین کا نفا ذ نہیں ہونا چاہئے بلکہ میانمار کے عوام کے لیے ایک منصفانہ اور جمہوری معاشرہ قائم کرنے پر توجہ دیناہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر