وجود

... loading ...

وجود
وجود

ٹرانسپیرنسی رپورٹ اورحکومتی دعوے

هفته 06 فروری 2021 ٹرانسپیرنسی رپورٹ اورحکومتی دعوے

بدعنوانی ہمارے ملک کا ہی نہیں یہ ایک ایسا عالمی مسلہ ہے جس کے خاتمے کے لیے تمام اقوام کوشاں ہیںمگر خاتمہ ہونا تو ایک طرف روزبروز اضافہ ہورہا ہے چین اور شمالی کوریا جہاں بدعنوانی کی سزا موت ہے وہاں بھی خاتمے سرے سے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا مگر سخت ترین سزائوں کی بنا پر کچھ ممالک میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے لیکن ہمارے ملک میں بدعنوانی کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں اب تو ملک پر ایسے حکمران ہیں جنھیں ایماندارہونے کا دعویٰ ہے لیکن ایمانداری کے دعوے ایک طرف عالمی اِدارے تو بدعنوانی میں اضافے کی رپورٹس جاری کر رہے ہیں خرابی کہاں ہے ایماندار حکمرانوں میں یا عالمی اِداروں کے تجزیوں میں ،جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں نت نئی ایجادات اور ترقی کی طرح بدعنوانی کے طریقوںمیں بھی اضافہ ہوگیا ہے یہ ایسا ناسورہے جو وطنِ عزیز میں نچلی سطح سے لیکر اوپر تک سرایت کر چکا ہے ہر حکومت خاتمے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ختم ہونا تو درکنارمعمولی سی کمی کے آثار تک نہیں وزیرِ اعظم عمران خان بدعنوانی ختم کرنے کے نعرے پر ہی اقتدار میں آئے ہیں وہ اب بھی خودکو پارساکہتے ہیںاور مخالفین کو بدعنوان کہہ کراُن کی کردار کشی کرتے ہیں لیکن صورتحال نعروں کے برعکس ہے نہ تو معیشت میں بہتری آئی ہے قرضوں جیسے مسائل بدستور موجودہیں اور بدعنوانی پربھی قابونہیں پایاجا سکا موجودہ دور میں بدعنوانی کی ہوشربا داستانیں سُننے میںآرہی ہیں اِس لیے یہ تصور کر لینا کہ دیانتداری کی کہانیاں مبنی بر حقیقت ہیںدل تسلیم کرنے میں تامل کا شکار ہے اِس حوالے سے عمران خان کے دعوئوں پر یقین کرتے ہوئے عام لوگ بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں دلیل کے طورپرٹرانسپیرنسی کی حالیہ روپورٹ ہے جس میں پاکستان میں کرپشن میں اضافے کا تذکرہ ہے جس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ معیشت و دیگر شعبوں کی طرح حکومت بدعنوانی کے خاتمے میں بھی ناکامی سے دوچار ہیں۔

 

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایک ایسی عالمی تنظیم ہے جو درجن کے قریب عالمی اِداروں کے تعاون سے ہر سال شفافیت کا جائزہ پیش کرتی ہے تاکہ خامیوں کی نشاندہی کی بدولت اِدارے اور حکومتیں اصلاحِ احوال کر سکیں یہ تنظیم ہر برس اپنے جائزوں میں ایک سو اسی ممالک میں بدعنوانی میں کمی و اضافے کی جائزہ رپورٹ جاری کرتی ہے ٹرانسپیرنسی کا دعویٰ ظاہرکرتا ہے کہ ہمارے ملک میں بدعنوانی کو فروغ مل رہا ہے اِس اِدارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بدعنوانی کی درجہ بندی میں پاکستان نے چاردرجے ترقی کی ہے جس کے تحت 120سے بڑھ کر پاکستان کا نمبر124ہوگیا ہے گزشتہ برس اگر سو میں سے 32نمبر تھے تو اب اکتیس رہ گئے ہیں حالانکہ بدامنی کے شکار ملک افغانستان میں بھی بدعنوانی کے حوالے سے کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے جہاں حکومتی رَٹ بہت کمزور ہے مگر پاکستان جہاں دیانتداروں کی حکومت ہے ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ نہ صرف چونکانے کا باعث اور ملک کے ایماندارحکمرانوں کی حقیقت عیاں کرنے کا باعث بنی ہے بلکہ بوسیدہ نظام کا بھی پردہ چاک کیا ہے پھر بھی اگر دنیا کو بتائیں کہ ہم ایماندار،ہماراوزیراعظم ایماندار تولوگ یقین کرنے کی بجائے شک کی نگاہ سے ہی دیکھیں گے۔

 

عمران خان نے 2020 کی رپورٹ کے اعدادو شمار 2018یعنی نوازشریف دور کے قرار دیکر مندرجات کو کوشش کی ہے یہ سادہ لوحی یا یا لاعلمی نہیں بلکہ چالاکی ہے رپورٹ پڑھے بغیر ہی جھٹلانایاپھر خفت مٹانے کے لیے سابق حکومت کے دورکے اعداد وشمار کہہ دینے سے دیانتداری کا بھرم قائم رکھنا مشکل ہے ،تبھی تو لوگوں کی تنقید پرساہیوال جلسے میں رپورٹ پڑھے بغیر تبصرہ کرنا تسلیم کرنا پڑامگر کیا ایسے اطوار کو قابلِ تعریف یا تقلید کہہ سکتے ہیں؟ کسی طور بھی نہیں بلکہ من گھڑت پاکدامنی کی کہانیاں سُنانے سے ساکھ کو نقصان ہوتا ہے اب تو احتسابی عمل کی غیر جانبداری بھی مشکوک دکھائی دینے لگی ہے جو کارکردگی کی بجائے قصے کہانیوں سے بہلانے کی کوشش کرے تو لوگوں میں اُس کی ذہنی سطح کے بارے سوال پیداہونا فطری عمل ہے دیانتداری کے دعوے اپنی جگہ ،زمینی حقائق سے موقف کی تائید نہیں کرتے تلخ سچ یہ ہے کہ رپورٹ مرتب کرتے ہوئے 2019اور2020کے عمیق جائزے کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔

 

تردید سے حقائق تبدیل نہیں ہوتے دور کیوں جائیں گزشتہ حکومت کے دوران عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر ایسی رپورٹس جلسوں میں لہراتے اور حکمرانوں پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہتے کہ مہنگائی بڑھے تو سمجھ لیں حکمران چور ہیں قرضوں میں اضافہ حکمرانوں کے بدعنوان ہونے کی تصدیق ہے اب اُن کی حکومت کا کچاچٹا سامنے آیا ہے تواعدادو شمار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں حالانکہ ٹرانسپیرنسی ایسا اِدراہ ہے جو رپورٹ مرتب کرتے ہوئے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیتا ہے جس میں اِدارہ جاتی جائزے،مالی لین دین ،قوانین اور اُن کا نفاز،احتساب کے طریقہ کار سمیت کوئی پہلو نظرانداز نہیں کیا جاتا تب جاکر رپورٹ کو حتمی شکل دی جاتی ہے اتنی جامع رپورٹ کو جھٹلانا سہل نہیں یہ روپرٹ ایماندار ی کے دعویداروں کو جوابدہی کے لیے کٹہرے میں کھڑاکرتی ہے۔

 

آج کچھ لوگ ٹرانسپیرنسی کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اِس اِدارے کی ہر بات پر آنکھیں بندکرکے اعتبار کرنے کی روایت عمران خان نے ہی ڈالی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اِس ادارے کوپاکستان میں مقبول بنانے میں اُن کا اہم کردار ہے تو بے جا نہ ہوگا مگر حکمران بھلا کسی کی کب سنتے ہیں اب دیکھ لیں کبھی مسلم لیگ ن اِس اِدارے کی رپورٹس کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتی تھی لیکن تحریکِ انصاف آنکھیں بند کرکے تصدیق کرتی دکھائی دیتی آج مسلم لیگ ن ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے حکومت کو ہدفِ تنقید بنا رہی ہے لیکن کل تک آنکھیں بند کرکے تصدیق کرنے والی تحریکِ انصاف جھٹلا رہی ہے یہ دُہرا معیار ہے وقت بھی کیا رنگ دکھاتا ہے پارسائی کے دعوے دار وں کو صفائی دینا پڑرہی ہے اور کبھی جھوٹے سمجھے والے بڑھ چڑھ کر تصدیق کرتے نظر آتے ہیں خیر ایسی رپورٹس عالمی اِدارے کیوں نہ جاری کریں جب ملک کا حکمران کرپشن کی دولت تلاش کرنے کا معاہدہ کرے لیکن سیاسی حمایت کے بدلے خود ہی معاہدے سے دستبردار ہوجائے وہاں کرپشن پر قابو بہت مشکل ہے ۔

 

جس ملک کا وزیرِ اعظم اپنے سوا سب کو بدعنوان کہے ،سینٹ کے انتخابات کے لیے ریٹ لگنے کا نکشاف کرے لیکن نام بتانے اور احتساب سے پرہیز کرے تو عالمی اِدارے بدعنوانی کا پیغام ہی لیتے ہیں جس کا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں زکر کیا ہے اور ہاں جس ملک میں شوگر مافیااِتنا طاقتور ہو کہ جب چاہے نرخ بڑھا لے مگر حکومت انکوائری کرانے کے سوا کچھ نہ کر سکے جہاں نرخ کم ہونے پرپٹرول ہی نایاب ہو جائے اور پھر حکومت کولُٹیروں کا ساتھ دیتے ہوئے مجبوراََقیمت میں اضافہ کرنا پڑے اِ ن حالات میں کون اچھا تاثر لے گا جس ملک میں حکومت اتنی کمزور اور بے بس ہو کہ آٹے کے نرخ بھی کنٹرول کرنے سے قاصرہواُس کی کون تعریف وتوصیف کرسکتا ہے عالمی اِداروں کی ساکھ ہوتی ہے وہ ہمارے وزیروںو مشیروں کی طرح جھوٹی تعریفوں کے پُل نہیں باندھ سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر