وجود

... loading ...

وجود
وجود

لائے ہیں بزمِ یار سے خبر الگ

بدھ 30 دسمبر 2020 لائے ہیں بزمِ یار سے خبر الگ

ملک کا سیاسی منظر نامہ خوشگوار نہیں تنائو اورٹکرائوکی کیفیت ہے اگر حکومت بات چیت میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے تو اپوزیشن بھی مذاکرات کے لیے بے چینی کا شکار نہیں دونوں طرف بے زاری ہے حالانکہ حکومت اور اپوزیشن جمہوریت کے دو پہئے ہیں اگروسائل رکھنے کی بناپر عوامی بھلائی کی ذمہ دار حکومت ہے تو عوام دشمن اقدامات پر اپوزیشن کو نکتہ چینی کرنے اور عوامی مفادسے ہم آہنگ بنانے کی تجاویز ینااُس کا حق ہے لیکن ہمارے ہاں دونوں فریق ااہمیت دینا تو درکنارایک دوسرے کی حثیت تسلیم کرنے پر بھی آمادہ نہیں اسی بنا پر جمہوری قدریںمضبوط نہیں ہو سکیں اور ملک ہنوز تجربہ گاہ ہے جس حوالے سے بھی دیکھیں موجودہ بحران کی زمہ دار سیاسی قیادت ہے جو گفتگو سے گریزاں ہے جو اگر کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کی بجائے ٹیبل ٹاک کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرے تو نہ صرف عومی مسائل کا تدارک ممکن ہے بلکہ جمہوری قدریں بھی مضبوط ہو سکتی ہیں۔

حکومت کا موقف ہے کہ اپوزیشن قیادت احتساب سے بچنے کے لیے این آر اوکی طلب گار ہے مگروزیرِ اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ لوٹ مار کے لیے وہ کسی کو معافی نہیں دیں گے اُن کا موقف درست ہے ،ہونا بھی یہی چاہیے کہ کسی بدعنوان کومعافی نہ دی جائے سب کا بلاتفریق احتساب عوامی مطالبہ ہے لیکن ٹرائل کے دوران اور فیصلے سے قبل ہی سیاسی قیادت کوپابندِ سلاسل کرنے سے انتقامی کاروائیوں کا تاثر پختہ ہورہا ہے صرف یہاں تک ہی بے انصافی نہیں احتساب میں بھی واضح تفریق نظر آتی ہے بدعنوانی میں ملوث وزرا،مشیران ا ورحامی بیوروکریٹس سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے چینی ،تیل اور بلین ٹری منصوبوں میں عدم شفافیت اور کرپشن مصدقہ ہے لیکن انکوائری کے بعد کسی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی مگر ہر نا پسندیدہ اور حکومت مخالف سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو تختہ مشق بناتے ہوئے احتساب کے قواعد وضوابط پسِ پشت ڈال دیتے جاتے ہیںبات کرنے کا مقصد کسی کی صفائی دینا مقصود نہیں اگر احتسااب کا عمل صاف شفاف ہو تو کسی کو اُنگلی اُٹھانے کا موقع نہیں ملتا حکومت مخالف تحریک کے آغاز پر جب نئے کسی بنائے جاتے ہیں تب شکو ک وشبہات پختہ ہوتے ہیں جس سے اجتناب ناگزیرہے اگر موجودہ روش پر ہی حکومت گامزن رہی تو نہ صر ف اعتراض بڑھیں گے بلکہ نیب کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔

اپوزیشن کا خیال ہے کہ حکومت سے بات چیت کرنا اُسے این آر او دینے کے مترادف ہے اِس لیے مذاکرات کے دروازے بند کر دیے بلکہ اُسے رُخصت کرنے کے بعد ہی کسی سے بات ہوگی وہ موجودہ احتسابی طریقہ کار کی بھی سخت ناقد ہے مگر ایک سوال تو بنتا ہے اگر وہ جمہوری ہونے کی دعویدار ہے تو بات چیت میں کیا قباحت ہے جہاں تک انتخابی نتائج میں ہیراپھیری کی بات ہے تو ہر انتخابی عمل کے بعد اعتراضات ہوتے ہیں الیکشن ٹربیونلز نے شواہد کی روشنی میں کئی حلقوں کے نتائج کالعدم کیے مگر 2018 کے انتخابات کے بہت کم نتائج چیلنج کیے گئے وجہ کیا ہے اپوزیشن کسی کو مطمئن نہیں کر سکی جس طرح آج عمران خان کو سلیکٹڈ کہا جارہا ہے ایسا سخت رویہ ماضی میں کبھی دیکھا نہیں گیا اور پہلی بار عسکری اِدارے پر بھی اپوزیشن خوب گرج برس رہی ہے اور سلیکٹر کا لفظ استعمال ہورہا ہے لیکن حکومت سے بات چیت سے انکاری اپوزیشن اقتدارکی تبدیلی کے لیے عسکری اِدارے سے مشروط طور پر آمادہ ہے اِسے کیسے جمہوری رویہ قراردیں جلسے جلوس اپوزیشن کا حق ہے جس پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی لیکن کورونا کے ایام میں بڑے بڑے اجتماعات عوام کی صحت سے کھلواڑ ہے مزید براں کیسوں سے گلو خلاصی کے لیے ٹرائل کا حصہ بننے،بے گناہی کے شواہد پیش کرنے کی بجائے محض جلسے جلوس کرنے سے کیسے انصاف مل سکتا ہے تسلیم کہ حکمرانوں کااحتسابی طریقہ کار ٹھیک نہیں لیکن کیا اپوزیشن کا مروجہ قانونی طریقہ کارسے فراراختیار درست ہے اور اُس کی جدوجہد کیاجمہوری روایات کے مطابق ہے؟

کئی دہائیوں کی محاز آرائی کے بعد مسلم لیگ ن اور پی پی میں اتحاد ہوا ہے بے نظیر بھٹو سے نواز شریف کی طویل مخاصمت میثاقِ جمہوریت کے بعد آج کی افہام وتفہیم میں ڈھل چکی ہے ماضی میں آمریت سے نجات کے لیے میثاقِ جمہوریت ہوالیکن موجودہ افہام وتفہیم ملک سے جمہوریت کو رُخصت کر سکتا ہے بے نظیر بھٹو کی سالانہ دعائیہ تقریب میں مریم نواز کی لاڑکانہ آمد ملک کی سیاسی تاریخ کا اہم موڑ ہے جس سے مستقبل میں بظاہر دوونوں جماعتیں اکٹھی جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں لیکن انتخابی اتحاد بھی ہوتا ہے یا نہیں کچھ کہہ نہیں سکتے کیونکہ ہمارے سیاستدان انتخاب کے بعد اقتدار سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے لیے آخری حد تک چلے جاتے ہیں جس سے مخاصمت و محاذآرائی جنم لیتی ہے دور کیوں جائیں انتخاب کے دوران بے نظیر بھٹوکو ووٹ دینے سے باز رہنے کی تلقین کرنے اور عورت کی حکمرانی کے خلاف فتویٰ جاری کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن پی پی کی کامیابی کے بعد بڑے آرام سے شریکِ اقتدار ہوگئے اِس لیے ہمیں سیاستدانوں کی زیادہ باتوں پر آنکھیں بند کرکے اعتبار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بزمِ یار سے سب الگ الگ خبر لا رہے ہیں۔
ملک میں جاری محازآرائی اب نتیجہ خیز ہو تی دکھائی نہیں دیتی وجہ پی ڈی ایم کے چند ایک جذباتی چہروں کی عسکری قیادت پر دشنام طرازی اور تنقیدہے جس سے تبدیلی کے آثار معدوم ہوتے جارہے ہیں حکومت نے مہارت و ہوشیاری سے حکومت و اپوزیشن کا رُخ جی ایچ کیو کی طرف موڑ دیا ہے جس سے فوری تبدیلی کا امکان نہیں حالانکہ اڑھائی سالہ حکومت کے دوران عوامی بھلائی کا کوئی کام نہیں ہوا مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے نصف مدت گزارنے کے بعد وزیرِ اعظم نے نئی بات یہ بتائی ہے کہ کسی کو تیاری کے بغیر اقتدار میں نہیں آنا چاہیے اور یہ کہ ہمیں حالات کا درست اداراک نہ تھا لیکن اپوزیشن کے لیے خوش آئند امر یہ ہے کہ بات کرتے ہوئے انھوں نے پی ٹی آئی کوحکومت ملنا اپوزیشن کی ملک وقوم سے دشمنی قرار نہیں دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر