وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت ایشین ٹائیگر یا سپرپاور کیوں نہیں بنا؟

پیر 28 دسمبر 2020 بھارت ایشین ٹائیگر یا سپرپاور کیوں نہیں بنا؟

بھارت کی آزادی کو تقریباً 74 برس ہونے کو آئے ہیں ایک قدم آگے جانے کی بجائے دو قدم پیچھے کی جانب جارہے ہیں، چین نے آزاد ہوتے ہی تعمیری سمت کی راہ اپنائی اور محض ایک دہائی بعد ہی منگ سلطنت کے دور کا کھویا ہوا مقام پانے کی راہ پر ہولیا، 1990 میں چین کی جی ڈی پی بھارت سے تقریباً 30 ارب ڈالر آگے تھی اور آج یہ فرق چار سو گنا اضافے کے ساتھ تقریباً 12000 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ سابق چیف شماریات پرناب سین و دیگر ماہرین معاشیات کے مطابق بھارت کی جی ڈی پی 10 فیصد تک سکڑتی نظر آرہی ہے، جس کے نتیجے میں 140 ملین لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، لوگ قیمتی اشیاء فروخت کرکے گھر کا چولہا چلانے پہ مجبور ہیں، غربت کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ IMF کی رپورٹ کے مطابق معاشی اعتبار سے بھارت بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ سے بھی پیچھے رہ گیا ہے جوکہ ایک عظیم المیہ ہے کہ سونے کی چڑیا کے طور پر مشہور خطہ جہاں اہالیان مغرب روشن مستقبل کی تلاش میں آتے تھے آج اس قدر کھوکھلا ہوگیا کہ اسے سہارے کے لیے کبھی کواڈ کی طرف دیکھنا پڑتا ہے تو کبھی یورپی اقوام کے آگے ہاتھ باندھنے پڑتے ہیں۔ جو خطہ ہزاروں سال متحد رہا آخر آج تاریخ کی بدترین معاشرتی و علاقائی تقسیم کا شکار کیوں ہے؟ تمام تر پوٹینشیل کے باوجود بھارت مؤثر عالمی طاقت کیوں نہ بن سکا؟ یہ نہ صرف سوالات بلکہ ایک المیہ ہے جس کا سبب خطے کے ہر باشندے کو جاننا چاہئے، اس عظیم المیے کے پیچھے کوئی اچانک رونما ہونے والا حادثہ نہیں بلکہ سات دہائیوں پہ محیط تاریخ ہے۔ جس میں ارباب بست و کشاد کی غلط پالیسیاں شامل ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی ملک کی داخلی و خارجی پالیسیوں، حکمت عملی اور سیاسی و انتظامی امور کے لیے پالیسیاں و ضابطے مربوط کرنے میں ڈیپ اسٹیٹ یعنی کہ ملکی افواج و خفیہ ایجنسیوں کا خاطرخواہ عمل دخل شامل ہوتا ہے اور اس کا اظہار سابق امریکی سیکریٹری اسٹیٹ ہیلری کلنٹن نے بھی کیا۔ اگر بھارت کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے مقتدر حلقوں نے بھارت کو سنگل پارٹی کے تحت چلانے کی پالیسی اپنائی ہے ماضی میں کئی دہائیوں تک صرف کانگریس ملک کی واحد جماعت رہی اور اب کانگریس کی جگہ ہندو توا جماعت بی جے پی BJP کو دے دی گئی ہے بھارتی آرمی چیف سے لیکر را افسران تک دن رات میڈیا و سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے بی جے پی کے قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں سابق را چیف وکرم سود کے مطابق نیریٹو بلڈ کیا جارہا ہے اور اس کا اظہار نریندر مودی نے آزادی کی تقریب میں خطاب کرتے ہوے بھی کیا کہ بھارت سنگل پارٹی کے تحت چلے گا جو حقیقتاً آمریت ہی کی شکل ہے، جس کا نقصان یہ ہوگا کہ ماضی میں کانگریس سیاہ و سفید کی مالک تھی اور مستقبل میں ہندوتوا کو بنانے کے مراحل طے کیے جارہے ہیں جس سے بھارت داخلی طور پر معاشرتی و مذہبی تقسیم کا شکار ہورہا ہے اور اس کے منفی اثرات نہ صرف عام آدمی پر بلکہ بھارت پر بھی شدت سے محسوس ہورہے ہیں۔ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جسے آزادی حاصل کرتے کے ساتھ ہی پڑوسی ممالک پاکستان و چین دشمنی کے اندھے کنوے میں دھکیل دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محض دو دہائیوں میں بھارت چار جنگیں لڑ چکا تھا، 1962 کی چین بھارت جنگ میں پاکستان غیرجانبدار رہا لیکن اس کے باوجود خفیہ ہاتھوں نے بھارت کو پاکستان کے قریب نہ آنے دیا اور 1965 کی جنگ میں جھونک دیا نتیجتاً بھارت کو ریاستی امور چلانے کے لیے بھیک مہم کے ساتھ ساتھ فاقہ کشی مہم چلانا پڑی، کیا ہی بہتر ہوتا جو اربوں روپے بھارت کے باسیوں کی فلاح پہ خرچے جاتے بجائے مکتی باہنی کھڑی کرنے اور 1971 کی جنگ پہ خرچنے کے، جبکہ ثمرات میں سوائے وجے دیواس کے لولی پاپ کے کچھ ہاتھ نہ آیا، بنگلہ دیش بننے کے بعد بھارت کو تین پاکستان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بظاہر وجے دیواس منانے والے اب 71 کی جنگ کے اثرات زائل کرنے کے لیے NPR و NRC جیسے کالے قوانین لانے پہ مجبور ہیں جس کے نتیجے میں ایک نئے فرنٹ کا سامنا یقینی ہے۔

CMIE کے مطابق بھارت میں بیروزگاری کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے لوگوں کی حالت قابل ترس ہے کہ دو وقت کی روٹی کے لیے مجبور ہوکر خواتین سونا گاچھی کلکتہ، جی بی روڈ دہلی، کماتھی پور ممبئی و دیگر ریڈ لائٹ ایریاز میں جسم فروشی پہ مجبور ہیں لیکن عوام کی حالت زار پر مودی سرکار اور پالیسی سازوں کو ترس نہیں آتا، را نے پچھلے پندرہ سالوں میں پاکستان کو تنہا کرنے کے نام پر سریواستو گروپ کے زریعے کئی سو ارب خرچ دئیے جو ایک یوڈس انفولیب کی رپورٹ میں دھول ہوگئے، آج پاکستان تو تنہا نظر نہیں آتا البتہ را و مودی سرکار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دیرینہ دوست روس بھی مخالف صف میں کھڑا ہے، روسی سفیر نے بھارت کو مغرب کا آلہ تک قرار دے دیا اس کے علاوہ ترکی، چین، ایران، کینیڈا، لاطینی ممالک و پڑوسی دیش کوئی بھی بھارت سے خوش نہیں۔ بلوچستان پراکسی پر اربوں خرچ کرنے سے ہزاروں معصوم پاکستانیوں کے خون کے سوا کیا حاصل ہوا؟ اگر یہ سارا پیسہ عوام پر لگایا جاتا تو آج بھارت میں نہ لوگ جسم بیچنے پہ مجبور ہوتے نہ ہی خودکشیاں کرتے۔ پیپری کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں سے بھارت دفاعی اخراجات میں اول پوزیشننز پر براجمان ہے لیکن ہنگامی صورت میں اسے دفاع کے لیے رافیل لینے پڑے۔ اب ایسی پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں جس سے بھارت کے دفاعی ادارے و تمام ملکی دولت چند افراد تک محدود ہوجائیگی اور یوں ایک ارب تیس کروڑ لوگ ایک بار پھر براہ راست غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جائینگے، مودی سرکار نے اپنے چند من پسند افراد کو اسلحہ سازی کے لائسینس مہیا کیے ہیں جس سے ایک طرف تو دفاعی ادارے ان کے محتاج ہوجائینگے دوسری طرف آر ایس ایس اپنے ورکرز کو مکمل طور پر مسلح کرنے میں کامیاب ہوجائیگا، اسلحہ کی ریل پھیل سے ڈکیتی، بھتہ خوری میں اضافے کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں لاقانونیت کا بت کھڑا ہوجائیگا جسے کنٹرول کرنا ممکن نہ ہوگا۔ بھارت دفاعی طور پر کھربوں جھونک کر بھی بیلینس آف پاور کے لیے دفاعی و اسٹریٹجک معاہدوں و گروپس کی تشکیل کا محتاج ہے اور یہ ناقص پالیسیوں کا ہی ثمر ہے۔ کسان بل کو ہی لے لیجئے صرف انبانی اڈانی جیسے چند افراد کو مضبوط کرنے کے لیے کروڑوں کسان بلکہ پورے بھارت کو یرغمال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں آج سکھ بھی خود کو بھارت میں غیرمحفوظ محسوس کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں بھارت کی شہرت ہونی تو سونے کی چڑیا چاہئے لیکن اسے اقلیتوں کے لیے خطرناک ترین ملک کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس پہ مستہزاد یہ کہ اربوں روپے کچھ پاکستانیوں پر لگادئیے جاتے ہیں تاکہ بیلینس ہوجائے۔ زرا سوچئے کہ جب امن کی آشا چل رہی تھی تو پاکستان نے خود کو بھارت کی گود میں ڈال دیا تھا لیکن را کو یہ منظور نہ ہوا اور وہ ایک طرف تو بلوچستان پراکسی کھڑی کرتے رہے دوسری طرف سری واستو گروپ کے زریعے پاکستان کو آئسولیٹ کرنے کا منصوبہ بناتے رہے جبکہ انہیں چاہئے تھا کہ یہ اس فضول خرچ کا ایک چوتھائی پاکستان میں انویسٹ کرتے اور پاکستان کے زریعے وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کرتے تو آج نہ بھارت کی کسی سے دشمنی ہوتی نہ بھارت کسی مغربی ملک کا آلہ کہلواتا اور آج بھارت سپر پاور نہ سہی لیکن ایشین ٹائیگر ضرور ہوتا۔ اب مزید کسی بگاڑ کا یہ دیس متحمل نہیں ہوسکتا، پالیسی سازوں کو چاہئے کہ وہ اپنی سمت درست کریں بجائے فضول میں اربوں کھربوں جھونکنے کے پسی ہوئی عوام کی فلاح بہبود پہ توجہ دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر