وجود

... loading ...

وجود
وجود

معاشی اشاریے مثبت،حکومت کامیاب ہے

بدھ 23 دسمبر 2020 معاشی اشاریے مثبت،حکومت کامیاب ہے

اپوزیشن کہتی ہے اناڑیوں کی وجہ سے ملکی احوال اچھے نہیںمہنگائی اور بے روزگاری سے لوگ دووقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں غربت کی لیکر سے نیچے جانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے چوربازاری عروج پر ہے اِس لیے موجود ہ حکمرانوں سے فوری جان چھڑانا اشد ضروری ہے لیکن پیارے ہم وطنو،آپ نے گھبرانا نہیں کیونکہ وزیرِ اعظم نے دلنشیں انداز میں معاشی اِشاریوں کے مثبت ہونے کی نوید سنا دی ہے جس کے بعد حکومت کی ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کوئی بھوک افلاس یا بے رزگاری مرتا ہے تو کیا کیا جاسکتا ہے جب سے انکشاف ہوا ہے کہ تمام معاشی اِشاریے مثبت سمت جارہے ہیں مجھے یقین ہو گیا ہے کہ حکومت صرف کامیاب نہیں بلکہ بہت زیادہ کامیاب ہے۔

حکومتوں کا بحرانوںسے پاک رہنا ممکن نہیں ہر حکومت اسکینڈلزکا سامنا کرتی ہے موجودہ حکومت میں اگر دوچار ثابت ہو گئے ہیں تو کیا انہونی ہوگئی ہے اپوزیشن تو ویسے ہی وزیرِ اعظم کے خلاف ہے تبھی بے جا تنقید کے نشتر چلاتی رہتی ہے حالانکہ رحمدلی اور خداخوفی میں ہمارے وزیرِ اعظم کا تو کوئی ثانی ہی نہیں یہ جو لوگ انتقامی کاروائیوں کے الزامات لگاتے ہیں دراصل یہ دانا لوگ نہیں شہبازشریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی اپوزیشن لیڈر ہیں والدقومی اسمبلی جبکہ بیٹا صوبائی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ہے لیکن حکومت نے باپ اور بیٹے میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی بلکہ دونوں کو ہی جیل میں بند کر رکھا ہے اور یہ سب کچھ اپوزیشن کی بھلائی کے لیے کیا جارہا ہے دیکھیں اگر دونوں باپ بیٹا جیل کی بجائے آزاد ہوتے تو جانے کون سی مصروفیات میں الجھے رہتے جلسوں سے خطاب اور ریلیوں کی قیادت کررہے ہوتے میل ملاقاتوں میں تھکتے پھرتے مگر معاشی اشاریوں کے مثبت ہونے کا یقین نہ کرتے انھیں یقین دلانے کے لیے ہی سب سے الگ تھلگ پُرسکون ماحول میں رکھا ہوا ہے بھلا ہو احتسابی اِداروں کا جو نت نئے کیس بنا کرحکومتی کام آسان بنارہے ہیں اب تومان لیں معاشی اشاریے مثبت اور حکومت صرف کامیاب نہیں بلکہ بہت زیادہ کامیاب ہے۔

جب لاہور مینارِ پاکستان کے جلسے میں اپوزیشن نالائقیوں ،نااہلیوں اور مس مینجمنٹ کے قصے سُنا رہی تھی تو پُرسکون اور پُراعتماد حکمران اپنے کتوں کی دیکھ بھال میں لگے رہے اپوزیشن کی پرواہ تک نہ کی آپ کو پتہ ہے اعتماداور سکون کی وجہ کیا ہے ؟نہیں پتہ۔رہے نہ تم عوام کے عوام ہی۔او اللہ کے بندو،ملک کو آزاد ہوئے تہتر برس ہوچکے ہیں اور ابھی تک تم سادہ لوح ہو،چلو کوئی بات نہیں ۔ہم بتا دیتے ہیں تاکہ کہیں بات چیت کا ماحول ہو تو حکومت کی قصیدہ خوانی کر سکو۔اعتماد اور سکون کی وجہ یہ ہے کہ معاشی اِشاریے مثبت سمت جارہے ہیں اور حکومت صرف کامیاب نہیں بلکہ بہت زیادہ کامیاب ہے یہ جو اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ سعودیہ نے موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی بند اوردیااُدھار بھی واپس مانگ لیا ہے یو اے ای نے ویزوںکے اجرا پر پابندی عائد کر دی ہے ایسی باتیں سُن کر مت یقین کریں بلکہ ہماری طرح ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں اوریہ جو کچھ اصحابِ فہم ودانش کہتے ہیں کہ دونوں کانوں کے درمیان دماغ نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے اِس پر بھی یقین کرنے کی ضرورت نہیں ارے جناب اگریہ بات سچ ہوتی تو ایسے حکمرانوں کا انتخاب کیا جاتا؟ اگرممکن ہوتو کسی سُریلی سی مغنیہ سے کامیابیوں کے بارے ایک آدھ گاناریکارڈ کرالیں اور خود بھی گُنگناتے رہیں کہ معاشی اشاریے مثبت اور حکومت کامیاب ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ کامیاب ہے۔

وہ بتانا تھا کہ آپ نے پیٹرول بحران کی انکوائری رپورٹ تو پڑھ لی ہوگی یہ بہت ہی مشکل کام تھا جو موجودہ حکومت کی وجہ سے ممکن ہوا دیکھیں یہ جو لوگ ڈیڑھ سوڈالر میں پیٹرول خریدنے اور کورونا وبا کے دوران عالمی مارکیٹ میں نرخ سات ڈالرہونے پر خریداری بند کرنے کی حکومتی حکمتِ عملی کو حماقت کہتے ہیں دراصل یہ لوگ مخالفت میں ایسا کہتے ہیں جب معاشی اِشاریے مثبت ہوں تو کیوں سستی چیزیں خریدی جائیں؟ پیسے پاس ہوں تو دل کھول کرخرچ کرناچاہیے دوسرے ممالک کے معاشی اِ شاریے منفی تھے اِس لیے پیٹرول سستا ہونے پرذخیرہ کرتے رہے ہم نے تو خریداری ہی روک دی اور قیمتوں میں اضافہ ہونے پر پیٹرول خریدنا شروع کیا ملک میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہونے پر آئل کمپنیوں نے بھی فروخت روک دی اسی بنا پر فی لٹر نرخ دوسو تک جا پہنچے اب تیل پورے ملک میں وافراور ایک ہی قیمت پر دستیاب ہے اِس واردات کے دوران ہمارے منظورِ نظر سیاسی اور بیوروکریٹس کو بھی اروبوں کا نفع ہوا جو معاشی اِشاریوں کے مثبت سمت ہونے کا بین ثبوت ہے اب تو یقین کرلیں حکومت محض کامیاب نہیں بہت زیادہ کامیاب ہے۔

پتہ نہیں آپ کوچینی اسکینڈل کی انکوائری یاد ہے یانہیں یہ بڑے کمال کی واردات تھی اکیلے جہانگیرترین ہی نہیں کئی وزرا نے بھی خوب مہارت کا مظاہرہ کیا راتوں رات اربوں روپیہ آپس میں تقسیم کر لیا اِس لیے اپوزیشن کو یہ باور کرانا اشد ضروری ہے کہ حکمران خیر سے اناڑی نہیں خاصے گھاگ ہیں چینی بحران سے جہانگیر ترین اِس لیے زیادہ متاثرنظر آتاہے کہ وہ حکومتی نظروں میں غیر اہم ہو چکا جو اہم ہیں دیکھ لیں حکومت میں موجود ہونے کے ساتھ بددستورمنظورِ نظر ہیں کچھ لوگ چارسوساٹھ ارب کا گھپلا کہتے ہیں جسے تسلیم کرنے سے مجھے تامل ہے ارے بھئی معاشی اِشاریے ایسے ہی تو مثبت سمت میں نہیں جاتے بلکہ محنت و کوشش کرنا پرتی ہے تب جاکر ثمر ملتا ہے اِسی وجہ سے کہتا ہوں حکومت کامیاب ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ کامیاب ہے ۔

بلین ٹری والا منصوبہ تو ویسے یارباش لوگوں نے وقت گزاری کے لیے بنایا تھا لیکن عدلیہ نے یہ کہہ کر کہ لگتا ہے سارے درخت بنی گالہ میں لگا دیے ہیں سے عوام کچھ مشکوک ہوئی ہے کوئی بات نہیں اچھی سی رپورٹ پیش کرکے مطمئن کر لیں گے۔ دیکھیں حکومت کاکام منصوبے بنانا ہے عمل کرنے کے لیے اِدارے ہیں عوام کی شرکت یقینی بنانے کے لیے ٹائیگر فورس متحرک کی ہے جسے یارانِ نکتہ داں جرائم پیشہ فورس قرار دیتے ہیں جو قطعی غیر مناسب ہے بھئی اب ہر بندے کا کردار دیکھنا ممکن نہیں جب عوام منتخب کرتے ہوئے کسی کا کردار دیکھنے کی زحمت نہیں کرتی تو حکومت کو فضول کاموں میں الجھانا بھی غیرمناسب ہے ویسے بھی ٹائیگر فورس میں جرائم پیشہ آہی گئے ہیں تو مضائقہ کیا ہے ؟بلکہ یہ تو بہت اچھی بات ہے معاشی اِشاریے جو پہلے ہی مثبت سمت جارہے ہیں مزید مثبت جانے لگیں گے اور پورا ملک پکار اُٹھے گا کہ حکومت کامیاب ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ کامیاب ہے۔ ہیں جی خیرسے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر