وجود

... loading ...

وجود
وجود

دفاع اور جارحیت

بدھ 09 دسمبر 2020 دفاع اور جارحیت

ایک مشہورکہاوت ہے کہ افغانستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں امن نہیں اور اسے کوئی جارح فتح نہیں کرسکا افغانستان کی تاریخ بہت پرانی ہے ، دنیا میں شایدسب سے زیادہ تغیر اس کے خمیرمیں رچا بسا ہے یہاں ایک دوسرے کو فتح کرنے کی دھن میں کشت و خون کے ہولی ہمیشہ کھیلی گئی ،افغانستان کے برصغیرپر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں ،اسے برصغیرمیں آنے کا دروازے بھی کہاجاسکتاہے ،اس خطہ سے آنے والے اولیاء کرام نے ،اسلام کے فروغ میں اہم کردار اداکیا جس کے نتیجہ میں لاکھوںافرادمسلمان ہوئے جبکہ مختلف ادوار میں افغانستان کے جنگجو آندھی اور طوفان کی طرح ہندوستان پرحملہ آورہوئے اور برصغیر کی تاریخ بدل کررکھ دی، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں لوگوںکے وسائل محدود تھے ،غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہاںکے مقامی لوگ دوسروںکے محتاج تھے ،اس کے مقابلے میں برصغیر ایک خوشحال خطہ تھا جہاں کی لہلہاتی فصلیں،بھرپور س وسائل،صنعتیں اور زراعت سے وابستہ کاروبار ترغیب کا باعث تھا اس لیے افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کو ہمیشہ بہت زیادہ مال ِ غنیمت مل جاتا تھا ، ویسے بھی خوشحال خطوں کے لوگ امن پسند اور صلح جو ہوتے ہیں ،پہاڑوںمیں رہنے والے بیشتر سخت دل ہوجاتے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ افغانستان سے آنے والے درجنوں جنگجو دہلی کو فتح کرکے ہندوستان کے بادشاہ بن گئے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ دہلی کو فتح کرنے والے ہمیشہ ایک دوسرے کو فتح کرنے کے لیے آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے ،افغانستان میں یہ کھیل آج بھی جاری ہے جہاں کئی متحارب گروپ ایک دوسرے کی برتری تسلیم کرنے کوتیا رنہیں ہے، یہ بھی ایک عجوبہ بات ہے کہ آج بھی افغانستان کے دو صدر ہیںاشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ ایک دوسرے کی ضدہیں جبکہ طالبان بھی ایک بڑی سیاسی وعسکری قوت ہیں جس کے بغیر امن کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہیں ہوسکتا،بہرحال افغانستان میں حملہ آور قوتیں 18 سال تک جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ آخری حد گئیں لیکن آخر میں اسے کروڑوں اربوں ڈالر جنگ کی بھٹی میں جھونک کر ذلیل و رسوا ہوکر خالی ہاتھ نکلنا پڑاانہی قوتوں نے پاکستان کو للکارا تھا کہ ہم تمہیں پتھر کے دور میں دھکیل دیں گے ،پھر ہوا یوں کہ 18 سال پتھروں میں اس کی مسلسل ٹھکائی کی اور وہ آہنی جسم موم ہو کر پاکستان کے قدموں میں آ گرا کہ خدا کے لیے صلح کرادو اب دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کریں گے۔

انکل سام نے افغان جنگ بھاری قرض لے کر لڑی جس کی وجہ سے امریکا کو 2023 تک یہ قرض 500 ارب ڈالر سودسمیت سمیت ادا کرنا ہے اس کے علاوہ امریکا اس جنگ میں 2 ٹریلین ڈالر پہلے ہی جھونک چکا ہے جبکہ قرضوں مد میں اور مزید مختلف ضروریات کے لیے آگے کے خرچ الگ ہیں۔2050 تک 1.4 ٹریلین ڈالر سابق فوجیوں زخمیوں اور معذوروں کو سہولیات پر خرچ ہوں گے جن کی ضروریات ان کی معذوری اور بڑھتی عمر کے ساتھ بڑھتی رہیں گے۔ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار اور اہمیت کا انداز سے بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوحہ میں جگہ جگہ قطر ی پرچم کے ساتھ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم پورے شہر میں اپنی پوری شان و شوکت سے لہرا تا رہا جو ساری دنیا میں پاکستان کے ایک الگ اور اہم ترین کردار کو نمایاں کرتا ہے کہ پاکستان دنیا کے امن کے لیے کتنا اہم ہے؟ جنرل حمید گل نے کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ دنیا کو پتا چلے گا کہ ہم نے امریکا کو امریکا کی مدد سے افغانستان میں شکست دی آج بابائے انٹیلی جنس ہم میں نہیںلیکن ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہو چکی آج اس دیگ میں کئی حصے دار بننے کی کوشش کریں گے بہت سے اس کا کریڈٹ لیں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ گمنام ہیر و نے اپنی کامیاب حکمت عملی سے امریکا بہادر کو خطے سے نکلنے پر مجبور کردیا جو کہ پا کستان نہیں پورے جنوبی ایشیا کے مفاد میں ہے۔

دوحہ امن معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی 18سال سے جاری افغانستان میں جاری جنگ ختم ہو گئی افغان طالبان کی طرف سے ملا عبدالغنی برادر اور امریکا کی طرف سے زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے۔ افغان سرزمین معاشی اور سماجی پسماندگی کا مرکز رہی ہے۔ دنیا میں جب زراعت سے روزگار اور معیشت چلتے تھے افغان اس وقت وسط ایشیا سے ہندوستان آنے جانے والے سوداگروں سے ٹیکس وصول کر کے گزارہ کرتے کئی بار یہ تاجر وہاں خریدوفروخت کرتے۔ اس کے علاوہ ان کا روزگار جنگوں اور لوٹ مار کی کارروائیوں کی شکل میں رہا دنیا میں جب صنعتی انقلاب آیا تو برصغیر میں انگریز کی حکومت تھی۔ انگریز نے اپنی عملداری کے علاقوں سے خام مال برطانیا لے جانے کے لیے ریل اور سڑکوں کا نظام تیار کیا۔ شہروں اور قصبوں میں بجلی کی فراہمی کا آغاز کیا۔ جدید کاشت کاری اور صنعت کاری کو فروغ دیا۔ افغانستان اس زمانے میں انگریز کی غلامی سے محفوظ رہا لیکن اس کے حکمرانوں نے اس کی معاشی حالت سنوارنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہ کیے۔ اس پسماندہ افغانستان کوسوویت یونین نے کمیونسٹ بلاک میں شامل کیا اور پھر اپنی افواج بھیج دیں امریکا نے افغانستان کو سرد جنگ کا آخری میدان بنا دیا۔ لاکھوں افغان مارے گئے۔ جہاد مہم ختم ہوئی تو امریکا کا حریف سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغانوں کا احسان مانا جاتا اور امریکا اس کی تعمیر نو اور معاشی بحالی کی ذمہ داری اٹھاتا لیکن ازلی بے وفا امریکا مطلب نکلنے پر اجنبی بن کرنکل گیا۔ افغان خانہ جنگی کا شکار ہوئے اور برسہا برس تک ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے۔ باہمی قتل و غارت کا یہ سلسلہ اس وقت رکا جب طالبان ایک مقامی قوت بن کر ابھرے۔ طالبان نے پورے افغانستان میں شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ ان قوانین اور شاندار انتظامی صلاحیت کی وجہ سے جلد ہی بدامنی کا شکار افغانستان پرامن ملک دکھائی دینے لگا۔ نائن الیون سے پہلے تک افغانستان کی طالبان حکومت سے دنیا کو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ طالبان نے افغانستان سے باہر کبھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے نائن الیون حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دی اورقبائلی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اسے امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکا نے اس جنگ کو القاعدہ کے خلاف کارروائی کا نام دیا مگر عملی طور پر نشانہ طالبان تھے۔ طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ امریکا کی ابلاغیاتی مشینری نے اتحادی ممالک سے مل کر طالبان کو دہشت گرد قرار دیا اور ان کیخلاف جنگ کو دہشت گردی کیخلاف جنگ کا عنوان دیا۔ تاریخ کا عجب جبر ہے کہ امریکا کو اس دہشت گرد کے ساتھ امن کا معاہدہ کرنا پڑا اور دنیا میں طاقت ٹیکنالوجی اور ابلاغیاتی طاقت سمجھے جانے والے متعدد ممالک اس معاہدے کو عالمی امن اور خطے کیلئے نیک شگون قرار دے رہے ہیں۔ افغانستان میں ایسے عناصر اپنے ٹھکانے بنانے میں کامیاب ہوئے جو پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کشیدہ بنانا چاہتے تھے۔ افغان سرحد پر پاکستانی محافظوں کو آئے روز نشانہ بنایا جاتا رہا ہے پاکستان میں دہشت گردی کے کئی سنگین واقعات کے پس پردہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپوں اور پاکستان مخالف عناصر کا کردار سامنے آتا رہا ہے جن کے قدم قدم پر پاکستان کی بہادر افواج نے دانت کھٹے کردئیے آج یہ عناصر آخری سانس لے رہے ہیں ان شاء اللہ ہرپاکستانی مادر ِ وطن کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر