وجود

... loading ...

وجود
وجود

مجھے یہ تصویریں سونے نہیں دیتیں

منگل 01 دسمبر 2020 مجھے یہ تصویریں سونے نہیں دیتیں

میری میز،سوشل میڈیا اور کمپیوٹرکےDesktopپر درجنوں تصاویریں بکھری پڑی ہیں ،میں ان تصویروں سے خوفزدہ ہوں، مجھے ڈر لگ رہاہے شاید میں بزدل ہوں جو سامنا کرنے سے ہچکچارہاہوں میں سوناچاہتاہوں لیکن سونے سے بھی ڈر لگتاہے ،حالانکہ یہ تو سچی تصویریں ہیں ایک بے رحم قوم کا تحفہ۔۔ موت کا تحفہ ۔موت کے سوداگروں کا انتقام۔یہ تصویریں غزہ کے معصوم شہیدوںکی تصویریں ہیں،زندگی سے محروم اپنے ہی لہو میں ڈوبے فلسطینی نوجوانوںکی تصویریں،جوان لڑکیوں،بوڑھے مردوں اور عورتوں کی تصویریں جنہیں سفاک یہودیوں نے بمباری اورحملے کرکے ان کے اپنے گھروں،بازاروں اور گلی کوچوںمیں موت کی نیند سلادیا۔ اپنے پیاروںکی لاشوںپر نوحہ کناں ،مائوں بہنوں بیٹیوںکی بین کرتی تصویریں۔چھوٹے چھوٹے بچے جن کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن تھے لیکن یہودی اجل بن گئے، درندگی کی انتہا غزہ میں ہر طرف تباہی، ہر سمت بر بادی۔ موت کا بھیانک رقص ۔۔ہر گھرسے جنازے اٹھ رہے ہیں ہر مکان سے رونے کی آوازیں، ڈرے ڈرے سہمے سہمے بچے ،مائوں بہنوںکی سسکیاں۔۔ ساحل پر کھیلتے بچوںپر بھی فائرنگ متعددشہید۔ یہودیوں کے آگے درندگی اورسفاکی بھی شرماگئی، کئی دن سے یہ تصویریں میرے حواس پرچھائی ہوئی ہیں ،میں ان کا سامنا کرنے سے ڈرتاہوں۔ ان کو دیکھنے کا حوصلہ نہیں لیکن کوئی نہ کوئی ای میل E-Mail کردیتاہے موبائل پربھی ایسی ہی تصویریں بھیجی جا رہی ہیں جیسے عوام کا یہی محبوب مشغلہ ہو۔
ایک تصویردیکھ کر دل لرز لرزگیا ایک دس بارہ سالہ فلسطینی بچے کی کھوپڑی پر اس انداز سے گولی لگی کہ اس کا بھیجا نکل کر گرگیاجس سے لاش کی حالت دل ہلا دینے والی ہے۔مجھے وہ تصویر بھی نہیں بھولتی تین پیارے پیارے گول مٹول بچے مرنے کے بعد بھی آپس میں لپٹے ہوئے ہیں جیسے انہوں نے کبھی جدا نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہو ان کے چہروںپر عجب تازگی ہے۔ اپنے ہی خون میں لت پت ا س بچی کو کیسے فراموش کردوں جس کی صورت تو فرشتوں جیسی ہے لیکن اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں کئی سوال ہیں میں تو سامنا کرنے سے ڈرتاہوں اس کی کھلی ادھ کھلی آنکھوںکی طرف کیسے دیکھوں مجھے تاب کا یارا نہیں۔اگر مجھ سے پوچھ بیٹھے بھائی! میرے خون ِ ناحق کا انتقام لو گے؟۔۔تو میں کیا جواب دوں گا؟ وہ کیا سوچے گی ان مسلمانوںکو کیا ہوگیا جن میںظلم سہہ کر بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ نہیں۔۔ میں نظریں چرارہا تھا کہ ایک اور تصویر اچانک میرے سامنے آگئی ۔جیسے سرتاپائوں خون میں ڈوبی گڑیا۔۔ایسی گڑیا جس سے بچے کھیلنے کے لیے ضد کریں اسے دیکھ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل کر رخساروںپر لڑھکنے لگے دل سوچ میں گم کہ صیہونی درندوںنے قدرت کے بنائی کس قدر پیاری صورتوں کومٹی میں ملا دیا میں نے پیاری سی گڑیا کی تصویرکوہاتھ بڑھا کراٹھانا چاہا لیکن یوں لگا جیسے وہ آنکھوں ہی آنکھوںمیں منع کررہی ہو تم جیسے لوگوںکو کوئی حق نہیں کسی کو پیار کرو تم تواحتجاج کرنے کے بھی قابل نہیں۔انسان بے حس ہو جائے تو ایسا ہی ہوتاہے۔مجھے وہ ماں بھی نہیں بھولتی جو اپنا شیر خوار بچہ سینے سے لگائے آہ و بکا کررہی ہے جس کا اکلوتا اورپہلا بیٹا اسرائیلی حملے میں شہید ہوگیا جس نے دنیا میں ابھی چند ماہ پہلے آنکھ کھولی، والدین نے جی بھر کر پیار بھی نہیں کیا تھا ۔۔اسے ماں باپ کی شناخت بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسے قتل کردیا گیااس کا جرم ۔گناہ اور قصور کوئی نہیں تھا پھر بھی زندگی چھین لی گئی۔

ایک تصویر بار بار میری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے یہ غزہ کے ایک مکان کی تصویرہے اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والے مکان میں پورا خاندان زندگی کی بازی ہار گیا ان شہیدوںکی طرف غور سے دیکھا ابدی سکون چہروں سے عیاں۔آنکھیں متلاشی۔ لیکن جیسے ہم سے پوچھ رہے ہوں کیا ہمارا خون رائیگاں جائے گا کیا مسلمان اب بھی سوئے رہیں گے ؟ اب بھی نہیں جاگیں گے؟۔ایک تصویرمیرے بیٹے نے اپنے لیپ ٹاپ پرد کھائی جس نے احساس کے کئی دریچے جگا دئیے یہ ماں بیٹی کی تصویرہے ایک جیسی صورتیں ۔بس نام اور عمرکا فرق۔دونوں کی لاشیں آنگن میں ایک دوسرے کے اوپر پڑی تھیں جیسے ابھی سوئی ہوں چہروںپر موت کی اذیت بھی نہیں نظرآرہی تھی یہ تصویریں دیکھ کر لگتاہے یہ لاشے فلسطینیوں کے لاشے نہیں سماجی اقدار اورانسانی حقوق کے علمبرداروں کے لاشے ہیں۔یہ بے گوروکفن انسانیت کی لاشیں غزہ میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔یہ اس سماج کے لاشے ہیںجہاں انسان کی کوئی قدرنہیں جہاں مسلمان ہونا جرم بن گیاہے۔جہاں فلسطینی ہونا ایک قصور ہے جس کی سزا موت ہے۔ایک اور تصویر میرے احساس کو جگارہی ہے میری آنکھیں بھیگتی جارہی ہیں میاں بیوی اپنی ننھی پری کو قبرمیں اتاررہے ہیں ان کے چہروںپر اتنا کرب ہے کہ بیاں سے باہر ہے ،ننھی پری اتنی پیاری کہ جیسے ابھی سوئی ہو ذرا سا شور بھی اسے جگا دے گا لیکن موت سے توحشرکے میدان میں ہی آنکھ کھلے گی مگر جلاد صفت اسرائیلیوںنے قیامت سے پہلے ہی حشر کا میدان بپا کردیا۔ ایک تصویرمیں ایک فلسطینی نے اپنے بچے کو اٹھارکھاہے اف خدایا!کس قدر خوفناک تصویرہے بچے کا آدھے سے زیادہ چہرہ ہی نہیں ہے بمباری سے جسم بھی چھلنی چھلنی ہے ڈگمگاتے قدموں سے بھی انسان سنبھلے نہیں سنبھل پاتا ۔فلسطینی کی استقامت دیدنی ہے بلاشبہ یہی بہادروں کی خوبی ہے۔میں ان تصویروں سے خوفزدہ ہوں، مجھے ڈر لگ رہاہے شاید میں بزدل ہوں جو سامنا کرنے سے ہچکچارہاہوں۔ایک اور تصویر میں فلسطینی خاتون اپنے دم توڑتے خون میں بھیگے زخمی بچے کو اپنی باہوں میں لے رہی ہے خاتون کے لباس پر لہوبکھرا ہواہے مامتااس کی جان بچانے کے نہ جانے کتنی تڑپی ہوگی انسانوں کا انسانیت پر اتنا ظلم۔کہ درندگی بھی شرما جائے غزہ میں ہونے والے حملے اور بمباری میں شہید ہونے والوںمیں زیادہ تر تعداد بچوں کی ہے جو اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ا سرائیل دراصل فلسطینیوںکی نسل کشی کے منصوبے پز عمل پیرا ہے جو انتہائی خوفناک ایجنڈاہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا مغربی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا اب سینکڑوں فلسطینی ملالہ کا خون ہورہاہے یہ سب کے سب گونگے، اندھے ،بہرے بن گئے ہیں آخر کیوں؟ انہیں وہ تصویر بھی نظر نہیں آتی جس تصویر میں چارپائی پر سات لاشیں پڑی ہیں یہ سب کے سب بچے ہیں ان کی عمریں چھ ماہ سے تین سال تک ہے یہ معصوم فرشتے ایسے پڑے ہوئے ہیں جیسے کھیلتے کھیلتے سو گئے ہوں اور جب پھر اٹھیں گے کھیلنے لگ جائیں گے۔

ایک ننھے فلسطینی کی لہو لہو لاش میرے تخیل میں با ربار کر سوال کرتی ہے ،دنیا میں52اسلامی ممالک ہیں ان کے حکمرانوںکو کیا ہوا؟ وہ کیوں کچھ نہیں کررہے؟۔ ایک چہرہ کئی بار خیالوں میں آتا رہتاہے یہ غزہ کا ایک شہیدنوجوان ہے جو پوچھتا پھرتاہے کیاہمارا خون اتنا ہی ارزاں ہے؟۔میری میز،سوشل میڈیا اور کمپیوٹرکےDesktopپر درجنوں تصاویریں بکھری پڑی ہیں میں ان تصویروں سے خوفزدہ ہوں، مجھے ڈر لگ رہاہے یہ تصویریں بار بار میرے خوابوں۔میرے خیالوں میں در آتی ہیں مجھے سونے نہیں دیتیں ۔پلکیں بوجھل ہورہی ہیں اور سر بھاری۔ میں سونا چاہتاہوں آنکھ لگتی ہے پھر ہڑبڑا کر اٹھ جاتاہوں میرے چاروں اطراف تصویریں ہی تصویریں ہیں غزہ کے شہیدوں کی تصویریں یہ مجھ سے بار بار سوال کرتی ہیں۔سوال عجیب و غریب سوال مسلمان قوم کب جاگے گی؟ ہمارے خون کا بدلہ کون لے گا؟ مسلم حکمران کیوں خاموش ہیں! آپ ظلم کے خلاف آواز کیوں بلندنہیں کرتے۔ میں کیا جواب دوں کہ کوئی جواب سوجھتاہی نہیں ،یہ سوال ایسے سوال ہیں کہ میں خود سراپا سوال بن گیا ہوںجی تو یہی چاہتا ہے دھاڑیں مار مار کر مسلم امہ کی بے حسی اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی بے بسی پر رونے لگ جائوں میرے آنسوہی میرے پاس ہر سوال کا یہی ایک جواب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر