وجود

... loading ...

وجود
وجود

کاون بھی کہے گا، کیا چیز ہو تم لوگ

پیر 30 نومبر 2020 کاون بھی کہے گا، کیا چیز ہو تم لوگ

پانچ سال پہلے اسلام آباد کے چڑیا گھر میں ایک طالبہ نے ہاتھی کو باربار سر ہلاتے دیکھا۔کیونکہ وہ طالبہ جانوروں کے بارے میں تعلیم حاصل کررہی تھی اس لیے وہ سمجھ گئی کہ یہ جانور ڈپریشن کا شکار ہے۔چنانچہ اس نے جانور کو قید سے نجات دلانے کے لیے آن لائن پٹیشن کا آغاز کیا۔بس پھر کیا تھا پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے بہت سے ترجمان بھی میدان میں کود پڑے۔اور جانور کو قدرتی ماحول میں بھیجنے کے حق میں مظاہرے کرنے لگے۔ معاملہ عدالت تک جاپہنچا اور عدالت نے نہ صرف کاون ہاتھی بلکہ دو ریچھوں کو بھی ’’پاکستان سے باہر‘‘ بھیجنے کا فیصلہ سنا دیا۔

سوال یہ ہے کہ یہ ہاتھی اور ریچھ جو اسلام آباد چڑیا گھر ے لیے کبھی قومی سرمائے سے خریدے گئے تھے۔اور اب ان کی بیرون منتقلی کے لیے بھی لاکھوں کروڑوں اخراجات ہورہے ہیں۔اس سے ہمیں کون سا فائدہ حاصل ہورہا ہے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ یہ فیصلہ کیا جاتا کہ ،سختی کے ساتھ چڑیا گھر میں ہی ان جانوروں کی دیکھ بھال مزید بہتر بنائی جائے۔
ہم مانتے ہیں کہ پاکستان میں چڑیا گھروں کی حالت عمومی طور پر عالمی معیار سے قدرے کم ہی ہوتی ہے۔تاہم یہ چڑیا گھر عوام کی تفریح کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اور ان پر قوم کا ہی کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے،اور یہ جانور بھی عوام کے پیسے سے ہی خریدے جاتے ہیں۔ کاون کی بیرون ملک منتقلی سے ایک سوال یہ بھی پیدا ہورہا ہے کہ کیوں نہ اب ملک کے دیگر چڑیا گھروں کی حالت زار کو بنیاد بنا کر،ان کے جانوروں کو بھی پاکستان سے بیرون ملک منتقل کردیا جائے؟

یہ بات سمجھ سے بالکل بالاتر ہے کہ ملک اور عوام کی ملکیت جانوروں کو باہر بھیجنے کے اس عمل کیلئے کس مثال کو بنیاد بنایا گیا؟ کاون کے حق میں مہم چلانے والوں سے کیا یہ سوال نہیں کیا گیا،کہ کاون کے ذہنی تناؤ کو پاکستان میں رکھ کر دور کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا؟ اگر جانوروں کے حقوق کی ترجمان تنظیموں اور عدالت کو اسلام آباد کے چڑیا گھر کی انتظامیہ پر اعتماد نہیں تھا تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اس ہاتھی کو کراچی ، اسلام آباد یا کسی دوسرے شہر کے سفاری پارک یا چڑیا گھر منتقل کردیا جاتا؟
کیا اس آپشن پر غور نہیں کیا گیا کہ اگر جانور کو جنگل میں ہی چھوڑنا مقصود تھا تو پاکستان میں بھی کئی محفوظ چراگاہیں اور نیشنل پارکس موجود ہیں ،جہاں کاون کو کیا ایک ساتھی کے ساتھ چھوڑا نہیں جاسکتا تھا؟

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کاون کی بیرون ملک منتقلی اگر درست مان لی جائے تو پھر ملک کے دیگر چڑیا گھروں میں موجود ہاتھیوں اور جانوروں نے کیا قصور کیا ہے ؟ ایک اور بات قابل غور یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے بہت سے صاحب حیثیت افراد ، فارم ہاؤس اور پرائیوٹ چڑیا گھر بھی موجود ہیں،جہاں جانوروں کی انتہائی بہترین دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کیا کاون اور دو ریچھوں کی ذمہ داری انہیں سونپی نہیں جاسکتی تھی؟ اور کیا بحریہ ٹاؤن کا چڑیا گھر عالمی معیار کا نہیں ہے؟

ذرا یہ بھی سوچیے کہ اپنے جانوروں کو جب ہم یوں دوسرے ممالک منتقل کریں گے تو ہمارے بارے میں ان ملکوں کا تاثر کیا ہوگا؟وہ سوچیں گے نہیں کہ ہم کتنی نااہل قوم ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں درجنوں چڑیا گھر ہیں، جن کے لیے جانوروں کی خریداری جاری رہتی ہے۔اگر پاکستان کے کسی چڑیا کی گھر کی جانب سے ان ممالک کو جانوروں کی خریداری کا کوئی آرڈر ملا تو کیا وہ ہم پر ہنسیں گے نہیں؟
مانا کہ پاکستان میں جانوروں کی حالت بہت بہتر نہیں ہے۔ لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ جانوروں سے جان چھڑا لی جائے؟

ہمیں یاد ہے کہ دو سال قبل جب کراچی کے عوام کو بھنبھوڑنے والے آوارہ کتوں کو مارنے کی مہم چلائی گئی تو جانوروں کے حقوق کے ترجمان عدالت پہنچ گئے۔اور عدالت نے بھی فوری طور پر کتا مار مہم رکوا دی۔نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھی کراچی کی سڑکوں پرکتوں کا راج قائم ہے۔ کاون ہاتھی کو مانا کہ انٹرنیٹ پر مہم کی وجہ سے عالمگیر شہرت ملی۔ لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ہم اسے خود اچھی طرح رکھتے اور پھر انٹڑنیٹ پر دنیا کو دکھاتے کہ ہم نے اپنی غلطی کا مداوا کرلیا اور اب یہ ہاتھی ہمارے ہاں آرام سے ہے۔ ہم بچپن سے اب تک جب بھی چڑیا گھر گئے ہاتھی کو سر ہلاتے ہی دیکھا، لیکن سلام ہے اس طالبہ پر جس نے ہاتھی کو سر ہلاتے دیکھ کر اس کے ذہنی تناؤ کا پتا لگا لیا اور مہم چلاڈالی۔اس مہم کی بدولت اب کچھ عرصے بعد کاون ہاتھی ،کمبوڈیا کے جنگلوں میں راج کررہا ہوگا۔لیکن کیا وہاں بھی کوئی اس کا چہرہ اور آنکھیں پڑھنے جائے گا؟ وہاں کاون کی آنکھوں میں ہمارے لیے شاید ایک ہی پیغام ہوگا۔کیا چیز ہو تم لوگ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر