وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا، روس اور شامی کرد

پیر 23 نومبر 2020 امریکا، روس اور شامی کرد

یاسر یاک
۔۔۔۔۔
مہمان کالم

شام میں روسی مداخلت سے ممکن ہے کہ امریکا کے لیے کئی بنیادی تبدیلیا رونما ہوئی ہوں، کچھ عرصہ پہلے واشنگٹن نے کہا تھا کہ ماسکو شام تنازع میں ایک فریق بن رہا ہے۔ شام کے بحران پر واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان ایک بڑا اختلاف یہ رہا ہے کہ اسد حکومت کا تختہ الٹنا امریکی پالیسی تھی جبکہ روس کا ہدف امریکی کوششیں ناکام بنا کر اسد حکومت کو بچانا تھا۔ اس دوران داعش کے ظہور نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی۔ اوباما انتظامیہ اس غور و فکر میں پڑ گئی کہ اسد حکومت کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرے یا پھر داعش، القاعدہ اور اس کے اتحادی گروپ النصرہ فرنٹ کیخلاف لڑائی کو ترجیح دی جائے۔ 2014ء کے موسم خزاں میں پنٹاگون نے داعش کے خاتمے کو اولین ترجیح بنا لیا۔ اس کے بعد امریکا نے داعش کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، جبکہ وہ علاقے جو کہ امریکی فورسز کی پہنچ سے دور تھے، وہاں روس نے کارروائیاں شروع کر دیں جن میں تدمر اور دیر الزور شامل ہیں۔ یوں امریکا نے روسی فورسز کو شام کے مغربی علاقوں دور رکھا جسے ’’کارآمد شام‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں اعتدال پسند اپوزیشن گروپ بہت مضبوط تھے، امریکا شامی حکومت کے خلاف لڑائی میں انہیں سپورٹ کر سکتا تھا۔ اس دوران امریکا نے اردن میں جائنٹ آپریشن سنٹر قائم کرنے کی روسی تجویز مسترد کر دی۔ یہ امریکی اقدام ممکنہ طور پر شامی حکومت کو مزید ہراساں اور کمزور کرنے کے لیے تھا، اس کے نتیجے میں مسلح اپوزیشن کو ختم کرنے کا عمل طول پکڑ گیا جو شہری ہلاکتوں میں مزید اضافے کا باعث بنا۔ آج خصوصاً شمالی شام میں امریکا اور روس ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، جس میں امریکی رویے کا ابہام اکثر مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یہ ابہام امریکی اداروں کے مابین مکمل اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث پیدا ہو رہا ہے، جن میں وائٹ ہائوس اور پنٹاگون سرفہرست ہیں۔

اکتوبر میں جس وقت ترکی نے ’’پیس سپرنگ‘‘ کے نام شمالی شام میں آپریشن شروع کیا، امریکا خطے سے فوج نکال رہا تھا۔ امریکا کے چھوڑے ہوئے فوجی ٹھکانوں میں ایک متراس ملٹری ایئر فیلڈ ہے جو کہ عین العرب سے 30کلو میٹر دور جنوب میں واقع ہے۔ امریکی فوج یکم نومبر کو اس ایئر فیلڈ میں واپس آ گئی، اس دوران امریکی قیادت نے اعلان کیا کہ اس ایئر فیلڈ کو خطے میں نئے فوجی ٹھکانوں کے قیام کے لیے سپلائی سنٹر کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ دنوں ایئرپورٹ پر روسی ملٹری فورس کے پہنچنے سے قبل انہوں نے دوبارہ سے اس ایئر فیلڈ کو خالی کر دیا۔ ممکن ہے کہ اس حوالے سے امریکا اور روس کا کوئی خفیہ یا تحریری معاہدہ ہوا ہو۔ شام کے دونوں بڑے فریقین کے خطے میں اپنے اپنے مفادات ہیں تاہم دونوں غیر ضروری ٹکرائو سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ شامی بحران سے متعلق دو امور پر روس امریکا اختلافات بڑے واضح ہیں۔ امریکا شامی بحران کا ایسا حل چاہتے ہیں جس میں شام کے مستقبل میں بشار الاسد کا کوئی کردار نہ ہو مگر روس اسد حکومت کو سپورٹ کرتا ہے۔ دوسرا اختلاف شام میں کردوں کی سیاسی حیثیت سے متعلق ہے۔

اس معاملے پر دونوں کی پالیسیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں مگر ایک جیسی نہیں۔ دونوں کردش کارڈ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ خطرات سے بھرے شورش زدہ خطہ میں اثر و رسوخ بڑھانے کا اہم ذریعہ ہے۔ امریکا کردش شناخت کے سوال کا منطقی انجام چاہتا ہے جس کیلئے شامی حکومت پر اپنی مرضی کے حل کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ جزیرہ، کوبانی اور عفرین کے شہروں میں کردوں کی خود ساختہ خودمختاری قائم رہے، انہیں ایک خودمختار علاقائی اکائی کے طور پر ابھرنے دیا جائے، جیسے شمالی عراق کے کردوں کو اکائی کی حیثیت حاصل ہے۔ طویل المدت تناظر میں امریکا ایک خودمختار کردستان دیکھنا چاہتا ہے جو کہ اسرائیل کی سکیورٹی میں معاون ثابت ہو سکے۔ روس شام کی جغرافیائی حدود میں کرد اکائی کا حامی ہے جسے داخلی خودمختاری حاصل ہو۔ تاہم کردوں کے خطے میں مستقبل کے کردار کے بارے میں روس کا کوئی موقف نہیں۔

کردوں کے مسئلے پر ترکی بھی ایک اہم فریق ہے۔ شام میں ترکی کے مختلف آپریشنز کا ہدف اپنی جنوبی سرحد کے گرد کردش بیلٹ کا قیام روکنا تھا۔ ترکی کے وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ اگر علاقے کو پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے کرد جنگجوئوں نے خالی نہ کیا تب انقرہ نیا فوجی آپریشن شروع کر سکتا ہے۔ ان کے اس بیان پر اپنے ردعمل میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ انقرہ ماسکو کو یقین دہانی کرا چکا ہے کہ وہ شام میں کوئی نیا فوجی آپریشن نہیں کرے گا۔ یوں، انقرہ نے اپنے وزیر کے بیان کر تردید کر دی۔ ترکی کی شام پالیسی امریکی اور روسی پالیسی کی ضد ہے۔ ہر فریق کے الگ الگ موقف کے تناظر میں شامی بحران کے جلد حل کی توقع کرنا بہت مشکل ہے۔ بیرونی فریقین جب تک ایک قابل عمل مشترکہ موقف پر اتفاق نہیں کرتے اس وقت تک مشکلات شامی عوام کامقدربنی رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر