وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلاول کی جیت ،پیپلزپارٹی کی ہار۔۔۔آخر کب تک؟

جمعرات 19 نومبر 2020 بلاول کی جیت ،پیپلزپارٹی کی ہار۔۔۔آخر کب تک؟

گزشتہ چند ہفتوں سے بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی کارکردگی انتہائی شاندار رہی ،خاص طور پر گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں جس طرح سے بلاول نے اپنی سیاست کا رنگ جمایا ،وہ قابلِ تعریف ہی نہیں ،قابلِ تقلید بھی ہے ۔گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات کو عوامی دلچسپی کے لحاظ سے بلاشک و شبہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اَب تک کے سب سے شاندار اور منصفانہ انتخابات قرار دیئے جاسکتے ہیں۔واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابی ماحول میں عوامی جوش و جذبہ کے جتنے رنگ ہم پاکستانیوں کو دکھائی دیئے ،اُن میں سے بیشتر بلاول بھٹو زرداری کی ہی مرہونِ منت تھے۔گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں بلاول کی محنت اور دلچسپی حیران کن رہی بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ بلاول نے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم میں دلچسپی لینے اورکچھ نیا کرنے پر مجبور کردیا۔ بالخصوص سندھ کے گرم اور معتدل موسم سے گلگت بلتستان کے سرد ترین ماحول میں دن اور رات کی پرواہ کیئے بغیر پے درپے انتخابی مہم چلانا قطعی آسان نہ تھا لیکن خوش قسمتی سے بلاو ل یہ مشکل ترین سیاسی کام بھی انتہائی آسانی اور سیاسی استقامت سے کرگزرے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں انتخابی معرکہ اختتام پذیر ہوچکا ہے مگر بلاول کی جوش و جذبہ سے بھرپور منفرد سیاست کے رنگین اثرات ابھی تک گلگت بلتستان کے سیاسی ماحول پر صاف ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ غالب گمان یہ ہی ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ حالیہ انتخابات کی ہر بات بھول جائیں گے لیکن بلاول کی انتخابی مہم انہیں مدتوں یاد آتی رہے گی ۔ حالانکہ گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی محنت کی جائز ’’سیاسی اُجرت ‘‘نہیں کہے جاسکتے مگر اس’’انتخابی بے سروسامانی‘‘ کا الزام بلاول بھٹو زرداری کو ہرگز نہیں دیا جاسکتا،کیونکہ گلگت بلتستان کے انتخابی معرکہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کو شکست ضرور ہوئی ہے لیکن بہرحال بطور ایک سیاسی قائد بلاول بھٹو زرداری یہ انتخابی معرکہ جیت چکے ہیں ۔ بلاول کی حالیہ انتخابی کارکردگی دیکھ کر بڑی شدت سے ریاض مجید کا یہ شعر یاد آرہا ہے کہ

میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر ہوں

کاش ! آج کی پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی بنائی ہوئی ایک سیاسی جماعت ہوتی تو انتخابی نتائج صرف گلگت بلتستان میں ہی نہیں بلکہ آئندہ ملک بھر میں بھی یکسر مختلف ہو نے کی اُمید رکھی جاسکتی تھی۔لیکن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو سیاسی اقربہ پروری کے جتنے پیوند لگا دیئے گئے ہیں ۔اس ’’سیاسی سانحہ ‘‘کے بعد اس سیاسی جماعت کو پیپلزپارٹی تو کہا جا سکتا ہے مگر بلاول بھٹو زرداری کی پیپلزپارٹی کسی بھی صورت نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ مانا کہ پاکستان پیپلزپارٹی بلاول کو سیاسی وراثت میں حاصل ہوئی ہے ،مگر اس کے ساتھ ہی بلاول کو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسی سیاسی شخصیات سے بیش بہا دیگر ’’سیاسی خوبیاں ‘‘ بھی تو ورثہ میں ملی ہیں ۔دو سیاسی وراثتوں کا حاصل ہونے والا حسین ’’سیاسی امتزاج ‘‘ بلاول سے تقاضا کرتا ہے کہ اَب وہ پیپلزپارٹی کی ازسرنو تشکیل اُس سیاسی منشور کے عین مطابق کریں کہ جس کا سیاسی شعور انہیں قدرت کی طرف سے خاندانی طور پر ودیعت کیا گیا ہے اور اپنے اردگرد منڈلانے والے مفاداتی ٹولے کو پیپلزپارٹی سے نکال باہر پھینکیں ۔کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی میں یہ ہی وہ ’’مفاداتی ٹولہ ‘‘ ہے جس نے بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ سے پاکستان کارڈ چھین کر سندھ کارڈ کا لولی پاپ تھمایا ہوا ہے۔

المیہ ملاحظہ ہو کہ گلگت بلتستان کے تقریباً سات لاکھ ووٹرز کے ساتھ گزشتہ چند دنوں میں ہی بلاول نے جس طرح کا مضبوط سیاسی تعلق قائم کرلیا ہے، بدقسمتی ایسا مستحکم سیاسی تعلق دو کروڑ سے زائد ووٹرز رکھنے والے شہر کراچی کے ساتھ بلاول کو اَب تک قائم کرنے ہی نہیں دیا گیا ۔ جبکہ سامنے کی بات ہے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری کوکراچی شہر کے کروڑوں ووٹرز کی بھی عوامی محبت اور انتخابی طاقت میسر آجائے تو وطن عزیز پاکستان میں ایوانِ اقتدار کا کونسا ایسابند دروازہ ہے جسے بلاول آسانی سے کھول نہ سکے ۔ مگر بلاول بھٹو زرداری کے گرد شہد کی مکھیوں کی طرح منڈلانے والا مفاداتی ٹولہ اپنی چند صوبائی وزارتوں کے لالچ میں بلاول کو سندھ کارڈ سے پرے کچھ دیکھنے ہی نہیں دیتا۔کیونکہ یہ ٹولہ بخوبی جانتا ہے کہ بلاول کا کا اصل ہدف وفاقی اقتدار ہے لیکن اس ٹولے کے لیے سندھ کی وزارتیں ہی سب کچھ ہیں ۔لہٰذا پیپلز پارٹی پر قابض یہ سیاسی گروہ اپنے ہدف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے بلاول کے ہدف کو ہمیشہ پس پشت ڈال دیتاہے ۔بالکل اُس کمیشن ایجنٹ ملازم کی طرح ہے جو اپنے دو ہزار روپے کے کمیشن کے لالچ میں اپنے مالک کو دو لاکھ روپے کا بھاری نقصان خاموشی سے پہنچا دیتاہے۔

کوئی کچھ بھی کہتا رہے بہرحال مستقبل میں ملکی سیاسی حالات بلاول کے لیے جتنے سازگار اور موافق ہیں شاید ہی کسی دوسری سیاسی جماعت کے رہنما کے لیے ہوں ۔مثلاً بلاول کی عمر ابھی کم ہے۔ یعنی اُس کے پاس پرانی سیاسی غلطیاں درست کرنے اور نئے سیاسی کارہائے نمایاں انجام دینے کے لیے وقت ہی وقت ہے ۔نیز ملک دشمن بیانیے کے قیدی نوازشریف کی وجہ سے شریف خاندان کا سیاسی بوریا بستر گول ہوا ہی چاہتاہے،جس کے بعد پنجاب کی سیاست میں پیدا ہونے والا سیاسی خلا بلاول کے لیے سیاسی موقع بھی ثابت ہوسکتاہے ۔ سب سے بڑھ کر سندھ میں بانی ایم کیوایم کی عبرت ناک پسپائی نے دیہی سندھ میں نہیں شہری سندھ میں بھی بلاول کے لیے سیاسی امکانات کی زمین مکمل طور پر ہموار کردی ہے ۔ اَب اس پر کسی قسم کی سیاسی فصل اُگانی ہے یہ سب بلاول کی سیاسی دانش مندی پر منحصر ہے ۔ بہرحال ایک بات طے ہے اس وقت بلاول کے اردگرد لسانی و سیاسی تعصب کے کیچڑ میں لتھڑے ہوئے جس طرح کے اتالیق موجود ہیں ۔ان کے پاس تو فقط ببول اور کیکر کے ہی بیج موجود ہیں ۔اگر انہیں تعصب زدہ بیجوں سے بلاول نے اگلی سیاسی فصل کا شت کرنے کا سوچا تو کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے، سوائے ’’سندھ کارڈ ‘‘ کے۔مگر اگر اپنی والدہ ماجدہ کی مانند بلاول نے بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی ازسرنو تشکیل میں عالی دماغ، وسیع النظر اور وسیع القلب سیاسی افراد کو اگلی صفوں میں یعنی اپنے اردگرد جمع کرلیا تو پھر سیاسی مستقبل بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان پیپلزپارٹی دونوں کا ہی ہے ۔ بصورت دیگر اگلے سیاسی معرکوں میں بھی بلاول کے جیتنے اور پیپلزپارٹی کے ہار جانے کے امکانات بالکل واضح ہیں ۔لیکن آخر کب تک ؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر